سناندو سَین بھارت سے ہجرت کر کے امریکہ آن بسا۔ اس کی زندگی نئے ملک میں آسان نہ تھی۔ مزدوری کی۔ فاقے کاٹے۔ حالات بعض اوقات اتنے حوصلہ شکن تھے کہ واپس جانے کا خیال آ جاتا مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ کئی عشروں کی طویل جانکاہ محنت کے بعد آخر وہ اس قابل ہو گیا کہ مین ہیٹن نیویارک میں ایک چھوٹے سے کاروبار کا مالک بن سکے۔ ابھی چند دن ہی اس کامیابی کو ہوئے تھے کہ 27 دسمبر کی شام کو‘ جب وہ زیرِ زمین ریلوے سٹیشن پر کھڑا تھا‘ کسی نے اسے دھکا دیا۔ وہ منہ کے بل ریلوے لائن پر جا گرا۔ اوپر سے سوں سوں کرتی‘ چنگھاڑتی ٹرین آئی اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر گئی۔
چوبیس گھنٹوں کے ا ندر اندر پولیس نے دھکا دینے والی عورت کو گرفتار کر لیا۔ کیمرے کی فوٹیج پر یہ جائے واردات سے فرار ہوتی صاف نظر آ رہی تھی۔ 31 سالہ ایریکا نے بتایا کہ ’’اسے مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ جب سے نائن الیون ہوا ہے‘ میں انہیں مارتی پیٹتی آئی ہوں‘‘۔
سناندو سَین مسلمان نہیں تھا۔ غیر مسلم تھا مگر جنوبی ایشیا سے تھا۔ ایریکا نے اسے مسلمان سمجھا اور قتل کردیا۔ مسلمانوں کے خلاف تسلسل کے ساتھ جو مہم امریکہ میں چلائی جا رہی ہے‘ وہ آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھانے لگ گئی ہے۔ 27 دسمبر والا واقعہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ لاتعداد مسلمان اس نفرت کا شکار ہوئے اور ہو رہے ہیں جو میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے اور جو چند سیاست دان چند نشستیں جیتنے کے لیے پھیلا رہے ہیں‘ شکاگو سے پارلیمنٹ کے امیدوار ’’جو والش‘‘ نے اپنی انتخابی مہم کی تقریر میں یہ مذموم فقرہ اچھل اچھل کر کہا… ’’مسلمان یہاں امریکہ میں امریکیوں کو آئے دن قتل کر رہے ہیں‘‘ ساتھ ہی اس نے یہ گھٹیا اور بے سروپا الزام‘ جس کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا‘ لگایا کہ شکاگو کے مضافات میں دہشت پسند اسلام پھیل رہا ہے اور یہ کہ نائن الیون سے بھی بڑے حملے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تقریر سن کر خوب واہ واہ ہوئی۔ حقائق سے بے خبر امریکی غضب سے بپھر گئے۔ اس ہیٹ سپیچ کا نتیجہ بہت جلد برآمد ہوا۔ کچھ دن بعد رمضان کا مہینہ آ گیا۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئیں۔ شکاگو کی ایک مسجد میں ایک دن نمازیوں پر فائرنگ ہوئی اور دوسرے دن تراویح کی نماز کے دوران ایک اور مسجد کی کھڑکی سے نمازیوں پر تیزابی بم پھینکا گیا۔ جب کچھ سمجھدار امریکیوں نے والش پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا تو اس نے کسی قسم کی معذرت کرنے سے انکار کردیا۔ میڈیا خاموش رہا۔ امریکی میڈیا کو‘ جو آزادی کا علم بردار بنتا ہے‘ شرم آنی چاہیے کہ سیاست دانوں کی اشتعال انگیزی‘ دروغ گوئی اور نعرہ بازی کو قبول کر لیتا ہے اور اس کا تجزیہ کرتا ہے نہ اس پر تنقید کرتا ہے۔
ایک اور سیاست دان نیوٹ گِنگرچ یا وہ گوئی میں دوسروں سے بازی لے جانے کی کوشش میں ہے۔ اس کا الزام ہے کہ مسلمان ’’خفیہ جہاد‘‘ کی تیاریوں میں ہیں۔ خلافِ اسلام مہم چلانے والوں کے پاس فنڈ اکٹھے کرنے کا منظم سلسلہ ہے۔ لگتا ہے کہ خفیہ ہاتھ ان کی پشت پر ہے۔ پورے ا مریکہ میں مہم چلائی جا رہی ہے‘ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو پبلک لائف سے پیچھے ہٹا دیا جائے اور ایک ایسی اقلیت میں تبدیل کردیا جائے جو اپنے آپ میں سمٹ کر رہ جائے۔ ساتھ ہی ایک اور مہم شروع کی گئی۔ انڈر گرائونڈ ریلوے سٹیشنوں کی دیواروں پر‘ نیویارک میں اور دوسرے شہروں میں بھی‘ ایسے اشتہار لگائے گئے اور ایسے نعرے درج کیے گئے جن سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلے اور ایک عام‘ ناسمجھ امریکی‘ کچھ بھی کر بیٹھے۔ ان میں سے کچھ اشتہارات میں نائن الیون کے سانحے کی تصویر لگا کر ساتھ قرآنی آیات‘ جو جہاد کے بارے میں ہیں‘ لکھی گئی ہیں۔ مسلمانوں کو وحشی کہا گیا ہے اور ’’عوام‘‘ کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ’’جہادیوں‘‘ کا مقابلہ کریں۔
مسلمان دکاندار نفرت کا خاص نشانہ بن رہے ہیں۔ نیویارک میں ایک ستر پچھتر سالہ دکاندار رحمت اللہ کو‘ جب وہ اپنی دکان بند کر رہا تھا‘ گولی مار دی گئی۔ نیویارک ہی میں‘ اسی ہفتے ایک اور مسلمان دکاندار کو دو افراد نے گھسیٹ کر دکان سے باہر نکالا اور زدو کوب کیا۔ اس سے پہلے پوچھا گیا کہ وہ ہندو ہے یا مسلمان؟ ایک اور مسلمان کو مسجد کے قریب چھریوں کے پے در پے وار کر کے شہید کر دیا گیا۔ قاتل‘ مارتے وقت زور زور سے نعرہ لگا رہا تھا
I am going to kill you moslim!
’’اوئے مسلمان! میں تجھے قتل کرنے لگا ہوں‘‘۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں تہرے قتل کا حالیہ دلخراش واقعہ پیش آیا ہے۔ نارتھ کیرولینا میں شامی نژاد مسلمان‘ اس کی بیوی اور بیوی کی بہن کو سروں میں گولیاں مار کر ایک امریکی نے شہید کردیا۔ بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ گاڑیاں پارک کرنے کا جھگڑا تھا مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں رہی کہ مارنے والا اس مسلسل مہم سے متاثر ہوا جو مسلمانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے اور جس کی پشت پر بہت سی ایسی لابیاں ہیں جو بوجوہ کھل کر سامنے نہیں آنا چاہتیں۔
یہ سب قابل مذمت ہے‘ مگر جب ہم ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں تو کچھ دوسرے پہلو اس مذمت کو کمزور کر دیتے ہیں۔ کل پشاور میں مسجد پر حملہ کر کے درجنوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ یہ قاتل امریکی نہیں تھے۔ مسلمان تھے۔ گزشتہ ہفتے شکارپور میں ساٹھ سے زیادہ مسلمانوں کو بھی مسلمانوں ہی نے مارا ہے۔ جو کچھ شام اور عراق میں ہو رہا ہے‘ اس کے سامنے غیر مسلموں کے حملے ماند پڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ اپنی قبریں کھودو۔ انہیں ان قبروں میں لٹایا جاتا ہے اور سروں میں گولیاں ماری جاتی ہیں۔ بچوں کو چھوڑا جاتا ہے‘ نہ عورتوں کو‘ نہ بوڑھوں کو۔
اس کے ساتھ‘ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر مسلسل حالتِ انکار (State of denial) میں ہیں۔ ’’نہیں‘ مسلمان مسلمان کو نہیں مار سکتا‘‘! ’’یہ کوئی اور لوگ ہیں جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں‘‘۔ پشاور کے حالیہ حادثے پر وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان کہ مارنے والے افغانستان سے نہیں آتے‘ یہیں پاکستان سے آتے ہیں‘ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
امت مسلمہ کا اتحاد بدستور ایک خواب ہے۔ ایسا خواب جس کی تعبیر دور دور تک نہیں نظر آ رہی۔ مسلمان ملکوں کا اتحاد تو خواب ہی ہے‘ مسلمان معاشرے کا تاروپود اندر سے بکھر رہا ہے۔ پراگندگی اور ابتری عروج پر ہے۔ تکفیر کا فتنہ دبانے سے کیا دبے گا‘ دن بدن زیادہ ہو رہا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ ایک مسلک کا ماننے والا دوسرے مسلم کے مسلمان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا‘ اس کی مسجد میں قدم رکھنے سے گریز کرتا ہے‘ بسااوقات ایک دوسرے کے خاندان میں شادیاں کرنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ ایک معاشرے میں کئی معاشرے ہیں۔ چار دیواریاں اتنی اونچی ہیں کہ آسمان کو چھو رہی ہیں اگرچہ بظاہر نظر نہیں آتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت مدارس کی رجسٹریشن یا فنڈ کے آڈٹ کی بات کرے تو مختلف مسالک کے مدارس چلانے والے منتظم حضرات متحد ہو جاتے ہیں لیکن ان میں سے کتنے ہیں جو ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز پڑھ لیں گے؟ ایک دوسرے کے خاندان سے رشتے قبول کر لیں گے؟ پھر ہر فرقے کے اندر کئی فرقے ہیں۔ ہر مسلک کے اندر مختلف مسالک ہیں۔
غیر مسلکوں کو‘ جو مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں‘ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جب مسلمان خود مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر رہے ہیں‘ تو انہیں تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم اس شعبے میں خودکفیل ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“