ہم اپنی زندگی میں دوسروں کو کئی باتوں پر قائل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ والدین جو بچے کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، وہ صرف اپنے بچے کے اپنے فائدے کے لئے ہی ہے۔ بچہ جو والدین کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ لالچ نہیں کر رہا، اسے واقعی ضرورت ہے۔ محبت کرنے والا جوڑا، جو ایک دوسرے کو اپنی محبت کا یقین دلا رہا ہے۔ ہم دوسروں کو یقین دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم قابلِ اعتبار ہیں، ہم پر بھروسہ رکھیں۔ اور ہمارے اس یقین دلوانے میں ہماری اپنی کہانیاں، اگر بے بنیاد نہیں، تو بھی مبالغہ آرائی والی ہوتی ہیں۔ ان کا کیسے ہم دوسرے کو یقین دلوائیں کہ بات کہتے ہوئے ہمیں پسینہ نہ آئے، زبان نہ لڑکھڑائے یا اپنی بات میں ہی تضاد نہ ہو؟ کیونکہ دوسرے ہمارے جھوٹ آسانی سے پکڑ لیتے ہیں۔ اس کا ایک آسان حل ہمارے ذہن کا تخلیق کردہ ہے۔ خود فریبی۔ اگر ہم اپنے پراپیگنڈہ پر خود ہی یقین رکھتے ہوں گے تو دوسرے کو منوانا آسان ہو جاتا ہے۔
خودفریبی پر سب سے پہلی تھیوری سوشیولوجسٹ ارونگ گوفمین نے پیش کی تھی۔ “ہم اپنے آپ کو ماسک کے پیچھے چھپا لیتے ہیں اور دوسروں کو ہمارا ماسک والا چہرہ نظر آتا ہے”۔ یہ عام خیال ہے لیکن ان کی کتاب اس عام خیال کے خلاف تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نہیں، اس ماسک کے پیچھے بھی ایک اور ماسک ہی ہے۔ پرت در پرت ماسک ہیں۔ ان کے بعد والی دہائیوں میں ہونے والی دریافتوں نے ان کی بات کی تصدیق کی ہے۔
کوئی بھی سائیکوتھراپسٹ آپ کو بتائے گا کہ لوگ کسی کمزوری کی نشاندہی پر احتجاج کرتے ہیں، مزاحمت کرتے ہیں۔ اپنی غلطیاں دوسروں سے منسوب کرتے ہیں۔ ناخوشگوار حقائق کو جھٹلاتے ہیں یا چھپاتے ہیں، اپنی تکلیف دہ باتوں کو ایبسٹریکٹ اور انٹلکچویل مسائل میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے ارادوں کی توجیہہ تلاش کرتے ہیں۔ ماہرِ نفسیات ایلن لائیڈ کے مطابق، یہ سب خود فریبی کے حربے ہیں۔ “میں اس چیز کا حقدار نہیں تھا، اہل نہیں تھا”۔ اس کے حق میں شواہد کو چھپانے کے لئے اچھی توجیہہ اور اچھا جواز بنا لینا اتنا ہی اہم ہے جتنی زندگی میں کوئی بھی اور شے۔
سوشل سائیکولوجی کے تجربات میں تسلسل سے لوگ اپنے آپ کو اوور ریٹ کرتے ہیں۔ اپنی دیانتداری، سخاوت، آزادی اور قابلیت کو۔ کسی گروپ میں کی گئی محنت میں اپنا حصہ زیادہ بتاتے ہیں۔ اپنی کامیابی اپنی مہارت کی وجہ سے ہوتی ہے، ناکامی قسمت کی وجہ سے۔ کسی بھی مصالحت میں ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے فریق کو بہتر ڈیل ملی ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے آلے سے ٹیسٹ کیا جائے تو بھی وہ اس بارے میں اپنے سراب پر قائم رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ تجربہ کرنے والے سے نہیں، اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں۔
ہمارے جھگڑوں اور ہماری بے وقوفیوں کی ایک گہری جڑ خودفریبی میں ہے۔ ہمارے اختلافات نمٹانے کے طریقے ۔۔۔ یعنی سچ کی تلاش اور اسے منطقی طور پر ڈسکس کرنا ۔۔۔ ہر پارٹی کے لئے غلط سیٹنگ رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے آپ کو اس سے زیادہ عقلمند، قابل اور نیک سمجھتے ہیں، جتنا کہ ہم اصل میں ہیں۔ ایک جھگڑے میں ہر پارٹی مخلصانہ طور پر یہ یقین رکھتی ہے کہ منطق اور شواہد اس کی سائیڈ پر ہیں۔ مخالف یا تو غلط فہمی کا شکار ہے، یا بددیانت ہے یا دونوں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری اخلاقی حس ہمارے لئے ضرر رساں بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی خودفریبی ہے۔ اگر ہمیں یقین ہے کہ ہم سچے ہیں اور مخالف بددیانت۔ ہم حق پر ہیں اور دوسرا ضدی اور اناپرست ۔۔۔ تو اخلاقی آلہ بھی اسی “سچ” کے مطابق سیٹ ہو جاتا ہے۔ اختلاف، جھگڑا، جھڑپ اور جنگ۔ اختیاری نہیں رہتے، اخلاقی فرض بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودفریبی دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف تو یہ ہمیں اپنی زندگی سکون سے گزارنے میں مدد کرتی ہے، اعتماد دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ ہمارے سب سے بڑے جھگڑوں کی جڑ ہے۔ کیا اس پھندے سے کبھی نکلا جا سکتا ہے؟ لارنس پرنسیپ اس کے لئے ایک طریقہ تجویز کرتے ہیں۔ یہ “مجھے یقین ہے کہ میں ٹھیک ہوں” سے “مجھے تقریبا یقین ہے کہ میں ٹھیک ہوں” تک کا سفر۔ اور اس سفر کو کرنے کے لئے وہ اپنے خیالات میں زیادہ نہیں، بس ایک چٹکی بھر شک کا اضافہ کرنا تجویز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...