(غزل کے حوالے سے)
اردو ادب کی آٹھ سو سا لہ شعری سفر کی تاریخ میں’ عورت‘ کا وجود بطور موضوع حاوی رہاہے۔ اس کے حسن و جمال اور عہدِ شباب پر دیوان کے دیوان ترتیب دیے گئے لیکن اپنی ذات کو خود مرکزِ نگاہ بنانے اور عرفان وآگہی کے دریچے وا کرنے سے اسے محروم رکھا گیا اور صدیوں کے تہذیبی جبر نے اپنے نام تک کو چھپا کر رکھنے کی ایسی تلقین کی کہ حرف وقلم سے رشتہ رکھنے والی خواتین بھی بِنت ، والدہ اور زوجہ کے سات پردوں میں خود کو نہاں رکھنا با عثِ عزت و توقیر سمجھتی رہیں۔اگرچہ انیسویں صدی کے کچھ تذکرہ نویسوں نے ان کے نام اور کلام کو محفوظ کرنے کی کاوش تو کی لیکن بیشتر شاعرات حمد ،نعت ،منقبت اور مناجات کی دنیا تک ہی محدود رہیں کہ ان کی لوحِ جبیں پر زنِ بازاری کا لقب نہ چسپاں کر دیا جائے ۔
انقلاب ِزمانہ نے یہ باور کر دیا کہ اب اس حاشیائی مخلوق کو مذہب اور خاندان کی عزت و ناموس کے نام پر سات پردوں میں چھپا کر رکھنا اور عرفان و آگہی کے تمام دریچے بند کر کے محض ایک گونگی بہری مخلوق کے طور پر محبوس رکھنا ممکن نہیں ہے ۔
لہٰذا انیسویں صدی کی ابتدا کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن کی برکتوں نے برصغیر کے اس معاشرے پر قدغن لگانا شروع کر دیا، جہاں عورتیں ہزاروں سال سے مرد کردار کی پرچھا ئی بن کر جی رہی تھیں۔ نتیجہ ان کے وجود میں جیسے ہی پہچان کا کوندا لپکا، یہ اپنی شناخت کی جدو جہد کے لیے نکل پڑیں اور صیغۂ تذ کیر کو بیک جنبشِ قلم مسترد کرتے ہوئے صیغۂ تانیث استعمال کرنے لگیں۔
بیسویں صدی میں یہ رجحان مزید پروان چڑھا امتہ الرؤف ، نجمہ تصدق ،سعیدہ جہاں مخفی ،رفیعہ بانو مضمر وغیرہ نسائی لب ولہجے میں اظہار کر نے والی اولین شاعرات ہیں، جن کے نقشِ پا نے آگے چل کرتانیثی حسّیت کی علم بردار شاعرات کی ایک پوری کائنات مزین کر دی ۔
اِن میں اگر دیکھا جائے توادا جعفری وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہو ں نے اپنے مکمل نسائی وجود کے ساتھ زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنی شخصیت کا برملا اظہار کیا۔ابتدا میں ان کے یہاںکچی عمر کے کومل جذبات و احساسات ایک والہا نہ سرشاری کے ساتھ اپنی جھلک دکھاتے ہیں:اشعار دیکھیے:
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
در بھی نہیں تھا کوئی دریچے بھی بند تھے
آنکھوںمیں جانے کیسی دَھنک تھی رچی ہوئی
بہت جلد انھیں احساس ہو گیا کہ زندگی کا سفر اتنا سہل نہیںکہ جس راہ کا انھوں نے انتخاب کیا ہے ،وہاں دُور دُور تک کسی گھنی چھاؤں کا گزر نہیں اور آبلہ پائی ہی نوشتہ ٹھہری لیکن اس کے باوجود وہ ہمت نہیں ہارتیں اور پورے اعتماد کے ساتھ آواز بلند کرتی ہیں:
میں آندھیوں کے پاس تلاشِ صبا میں ہوں
تم مجھ سے پو چھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا
ادا میں نکہتِ گل بھی نہ تھی صبا بھی نہ تھی
کہ مہماں سی رہوں اور اپنے گھر میں رہوں
زہرا نگاہ بھی ابتدائی دنوںمیں روایتی عشقیہ جذبات سے لبریز اشعار کہتی رہیںلیکن روایت کے حصار سے باہر نکل کرجب انھوں نے زمانے کے نشیب وفراز کو دیکھا تو ان کی شاعری بھی اس کی ترجمان بن گئی۔ اپنے عہد کے دہرے رویے ،عورت ذات کی بے بضاعتی و محرومی اور معاشرے کی بے ضمیری نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا:
لبِ گویا تو مل گیا تھا ہمیں
صرف اظہارِ مدعا نہ ہوا
نارسائی مزاجِ دل ٹھہری
ختم کوئی بھی سلسلہ نہ ہوا
ایوانِ شاعری میں کشور ناہیدکی آ مدایک ایسے باغیانہ تیور کے ساتھ ہوئی، جس کی زد میں تہذیبی،سماجی اور تاریخی جبر کی تمام صورتیں پرت در پرت بے نقاب ہو تی چلی گئیں۔ صدیوں کا فرسودہ نظامِ حیات جہاں عو رت چکّی کے دو پا ٹوںمیں جنم جنم سے پستی چلی آرہی ہے، گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی، اس کے خلا ف کشور نے عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا۔نتیجہ انھیں مرد دشمن ،مردبے زار ،اورسخت مزاج جیسے خطابات سے نوازا گیا لیکن غور کیجیے کہ جابرانہ اور حاکمانہ معاشرے کے خلاف جرأت اظہارکے اسی آہنگ نے ناہید کو وہ گویائی عطا کی جو ان سے پہلے ناپید تھی۔ کشور کا باغیانہ تیور اور بلند آہنگی ملاحظہ فرمائیں:
ہماری بے گنہی پر ہمارے ہاتھ کٹے
وہ خلعتوں سے سر فراز لے کے خنجر بھی
ہم ایسے دشت نوردوں کو قید رکھنے کو
سلاخیں گاڑگئے ہیں گھروں کے اندر بھی
یہ کیا آدھے چاند پہ رونق آدھے پہ تاریکی
یہ کیا صبح ان کی رات القاب ہمارے
کشور کے لیے جہاںمرد دشمنی جیسا لفظ مخصوص ہے تو فہمیدہ ریاض پر مغرب زدہ عو رت کا لیبل چسپاں کیا گیاجب کہ فہمیدہ کی شاعری بھی اس پورے پس منظر کا احا طہ کر تی ہے، جس میں ان کی شخصیت پروان چڑھی۔ وہ معاشرہ جہاں کے بعض قبائل میں عورت کو اتنا سخت پرد ہ کرایا جاتا ہے کہ جب کبھی ضرورت کے تحت بھی نکلنا پڑے تو جیپ کے شیشے پر ملتانی مٹی لیپ دی جاتی ہے۔ کتنے ہی گھروں میں عورتوں کا جنازہ تک دن کے بجائے رات کو نکلتاہے کہ بے پردگی نہ ہو۔ان کا قبرستان تک الگ ہے،ایسے زنگ آلود ذہن معاشرے میں فہمیدہ اس طرح کے اشعار کہتی ہیں:
کیوں کھوٹ ہے میری زندگی میں
میں اس کا جواب دے رہی ہوں
کیوں جھوٹے ہیں میرے شب و روز
میں ان کا جواز بن گئی ہوں
ہاں میرے خمیر میں کجی تھی
خوش ہوں کہ اب بھٹک رہی ہوں
مہذب سماج وہ ہے، جس میں ہر فرد کو برابری کا حق ملے۔ اپنی بات کہنے اور دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ ہو لیکن آج بھی برصغیر کے بعض معاشرے میں مہذب شہری ہونے کے دو پیمانے رائج ہیں۔لڑکیوں کے لیے الگ اور لڑکوں کے لیے الگ۔ آنکھ کھولتے ہی لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ وہ جتنا ہو سکے کم بولیں گویا ملک کی نصف آبادی کی زبان پر ابتدا سے ہی پہرے بیٹھا دیے جاتے ہیں۔ معاشرے کے اس دوہرے رویے کا کرب اِن اشعار میں چھلکتا دکھائی دیتا ہے:
سونا آنگن، تنہا عورت، لمبی عمر
خالی آنکھیں، بھیگا آنچل، گیلے ہونٹ
اتنا بولوگی تو کیا سوچیں گے لوگ
رسم یہاں کی یہ ہے لڑکی سی لے ہونٹ
عشرت آفریں
کہنہ روایتوں کی زنجیر توڑنا اتنا آسان نہیں۔ ایک مدت سے محبوس اور مجبورِ محض بناکر رکھی جانے والی حاشیائی مخلوق تبھی اپنا جائز حق وصول کرپائے گی جب وہ اپنی گھٹن اور خلش کو گویائی عطا کرے گی لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ آگے بڑھ کر حالات کامردانہ وار مقابلہ کرے اور سخت سے سخت آندھی میں بھی حو صلہ نہ ہارے ۔ اس بات کا عرفان ، رفیعہ شبنم عابدی کو یہ کہنے پر مجبور کردیا:
مرے وجود کو ہونے کا کچھ گمان تو دے
ہنر دیا ہے تو نشان دے پہچان تو دے
ابھی ہے چند ہی ذرروں پہ اختیار مجھے
مرے سخی مرے ہاتھوں میں کل جہان تو دے
جو بازو کھول دیے ہیں تو یہ بھی زحمت کر
پروں کو تول سکوں اتنا آسمان تودے
لڑکیوں کی اپنی مرضی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کا کوئی گھر ہوتا ہے، پیدائش سے ہی ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ جس گھر میں انہوں نے آنکھیں کھولیں وہ گھر پرایا ہے پھر جب بیاہ کر سسرال جاتی ہیں تو بظاہر ایسا محسوس ہوتا جیسے انہیں مستقل پناہ مل گئی لیکن صرف حکم کی تعمیل کی حد تک یہی رول وہ ماں باپ کے گھر میں بھی نبھاتی ہیں اور ان کے حکم کے آگے سر خم کرناہی ان کا دین و مذہب ہوتا ہے۔ مزید شوہر کے گھر بھی یہی ا ن کی زندگی کا نصب العین قرار پاتا ہے۔ مذہب اور سماج دونوں کے نزدیک ان کی حیثیت ثانوی ہے، اپنے اس نامکمل وجود کا بوجھ اپنے ہی شانوں پر اٹھاتے اٹھاتے جب ان کی شخصیت پارہ پارہ ہونے لگتی ہے تو پھر یہ شکوہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی زبان پر مچل اٹھتا ہے۔ اشعار دیکھیے:
توہے مختار تجھے حق ہے تصرف پہ مرے
میں ہوں کھیتی تری تو مجھ کو بھی جاگیر میں رکھ
اپنے احساس رفاقت کا بنا مجھ کو گواہ
اور پھر میری گواہی مری تقصیر میں رکھ
نسیم سید
گویا عورت کا وجود بے جان گڑیا کی طرح ہے، جب تک چاہا کھیلا، جب جی چاہا توڑ دیا۔اس معاملے میں نہ کوئی اصول ہے اور نہ ہی کوئی نظریہ، سارے قوانین یک طرفہ فیصلہ سناتے ہیں:
جہاں چاہا وہیں رکھا نہیں چاہا نہیں رکھا
کبھی صیدِ فلک رکھا کبھی زیرِ زمیں رکھا
عذرا پروین
شادی شدہ زندگی میں’عورت‘ اکثر اپنی ایک طرفہ ذمہ داری نبھاتے نبھاتے ٹوٹنے بکھرنے لگتی ہے۔ گھر بچے شوہربظاہر تو اس کے قریب ہوتے ہیںپھر بھی اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ہستی صفر ہوکر رہ گئی ہے اور اس کا وجود دھواں دھواںہو کر خلا میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔ بے بضاعتی کا یہ احساس جب قطرہ قطرہ لہُو کی صورت آنکھوں سے ٹپکتا ہے تو اس طرح لَو دیتا ہے:
میں بسر کروںکسی اور کے شب وروز کو
کوئی میری عمر گزار دے کہیں یہ نہ ہو
مجھے اپنی شرط پہ جیتنے کے بعد بھی
کسی مصلحت پہ وہ بار دے کہیں یہ نہ ہو
شاہدہ حسن
زخمی روح اور گھائل بدن کے ساتھ زندگی کے کسی موڑ پر شوہر کی طرف سے ٹھکرا دیے جانے کا خدشہ بھی بعض عورتوں کا نوشتہ تقدیر ہے ۔ یہ خوف ان کے ذہن پر اس طور حاوی رہتا ہے کہ چاہ کر بھی وہ اس سے نجات حاصل نہیں کر پاتیں۔ مزید المیہ یہ کہ سماج بھی انہیں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے ۔ پروین شاکرکہتی ہیں:
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اَنا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا
اِس کا مطلب یہ نہیں کہ نسائی شعری آواز صرف گھر آنگن اور ذاتی مسائل تک ہی محدود ہے۔بلکہ ایک طرف جہاں زمانے کی ہر کروٹ اور ہر دھمک سے آشنا ہیں تو دوسری طرف فلسفیانہ رموزونکات سے بھی یہ سرفراز ہیں ۔ عہد حاضر کے جبر و استبداد ،انسانی زندگی کی ارزانی،وقت کی سفاکی اور موت کی دہشت ناکی نے زاہدہ زیدی کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتسم کئے،ہم کیوں ہیں اور ہمارے اطراف یہ پھیلی ہوئی کائنات کیوں ہے، جیسے سوالات کے پس منظر میں یہ ا شعار دیکھیے:
یہ کس نگر میں آگئے یہ کون سا مقام ہے
سیاہیوں کی دو پہر تمازتوں کی شام ہے
ایک زندان حوادث میں ہے پابستہ حیات
فکر آوارہ سے پوچھو کہ کدھر جائے گی
زاہدہ زیدی
موجودہ عہدکا المیہ یہ ہے کہ رشتوں میں گھرے ہو نے کے باوجود بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لق و دق صحرا میں انسان تن تنہا کھڑا ہے اور دور دور تک کسی سائے کا گزر نہیں۔شاعر چونکہ عام انسان سے زیادہ حساس ہوتا ہے اس لیے اس کے یہاں یہ کرب بھی شدید ہے لیکن یہ کرب کسی قنوطیت کا زائیدہ نہیں بلکہ اپنی ہی ذات کے سفر کا استعارہ ہے۔ ایک ایسا سفر جو کراں تا کراں پھیلتا چلا جاتا ہے، جس کی نہ کو ئی ابتدا ہے اور نہ ہی انتہا۔ ساجدہ زیدی کہتی ہیں:
گو کانپتا تھا حلقۂ زنجیر میں قدم
جو ئے طلب نے دے دیا حکم سفر مجھے
ہر خارِرہ الجھتا ہے دامانِ شوق سے
لے جائے گی یہ آبلہ پائی کدھر مجھے
شہری زندگی کی منافقت نے رشتوں کو ایسا بے توقیر کیا ہے کہ آج ہر فرد خود میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔کوئی کسی کے لیے حق بات کہنے کو تیار نہیں۔ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہے۔ کسی کو اس بات کی فرصت نہیں کہ دوسروں کا دکھ درد بھی محسوس کرسکے۔اِسی رویے کو مظفرالنساء ناز نے ان اشعار میں بہت کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے:
نہ گفتگو میں تسلی نہ خامشی میں صدا
سلوکِ دوست کا انداز ہی نرالہ ہے
خدا ہی جانتا ہے کس کی کیا ہے محروی
رئیس وقت بھی کشکول لے کے پھرتا ہے
ایسے نا سازگار حالات میں بھی شاعرات نے اناوخودداری کا دامن نہیں چھوڑااور حق بات کہنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ سر بلند ہو کر جینا اور اپنی شرطوں پر جینا کوئی آسان کام نہیں لیکن علم و آگہی کی قندیل نے انہیں وہ جرأت عطا کی ہے کہ حق بات کہنے سے بھی یہ گریز نہیں کرتیں، خواہ اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے :
عمر بھر دیکھا ہوا وہ آرزو کا خواب تھا
کتنی آسودہ ہو ئی ہوں اپنے ہی انکار سے
نسبت ہی کسی سے ہے نا رکھتے ہیں حوالے
ہاں ہم نے جلا ڈالے ہیں رشتوں کے قبالے
نور جہاں ثروت
علاوہ ازیں دوسری شاعرات نے بھی موجودہ عہد کی شورش وبے کلی ، قتل وغارت گری،انسانی رشتوں کی بے توقیری، تنہائی کا کرب اور ایسے دوسرے تمام موضوعات جس سے آج کا انسان نبردآزما ہے، اسے شعری پیکر عطا کرنے کی سعی کی ہے ۔اشعار ملاحظہ فرمائیں:
روز نیزوں پہ تمنائوں کے سر آتے ہیں
اب مری فتح کے آثار نظر آتے ہیں
شانِ معراج
بے چہرہ ہوئے آج مگر کس سے شکایت
آئینہ اسی کا ہے تو حیرت بھی اسی کی
صدیقہ شبنم
تا حد نظر گویا ہے جاگیر انہیں کی
کہنے کو یہاں رہتے ہیں دو چار برس سے
اُمّ ہانی
اِن اشعارکے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٓا ج کی شاعرات نے تمام موضوعات اور مسائل کا بہ حسن و خوبی احاطہ کیا ہے ۔ بلقیس ظفیرالحسن، حمیرا رحمن،ملکہ نسیم،اسما سعیدی،شائستہ یوسف اور شبنم شکیل وغیرہ شاعرات کے یہاں بھی سماجی و سیاسی جبر واستبداد کی تصویر کشی، تنہائی کا کرب، ماضی کی خوشگوار یادیں، عصری مسائل، اپنی ذات کی جستجو وغیرہ موضوعات نہ صرف فکری وفنی بصیرت کے ساتھ اشعار کے پیکر میں ڈھلتے چلے گئے ہیں بلکہ اپنا مقام بھی بنا چکے ہیں اور وہ دن دُور نہیں جب اِن کی فکری اڑان تمام وسعتوں کو پار کرتے ہوئے کائنات کے جملہ اسرار ورموز تک بھی رسائی حاصل کرلے گی۔
تھکن سے چُور ہوں لیکن رواں دواں ہوں میں
نئی سحر کے چراغوں کا کارواں ہوں میں
داراب بانو وفا