جج ۔۔ اس لڑکے کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ؟
وکیل۔۔ نارکوٹک کیس میں حضور
جج۔۔ اس کے پاس ڈرگ تھا
وکیل۔۔ نہیں بالکل نہیں
جج۔۔ اس وقت یہ ڈرگ کے نشے میں تھا
وکیل۔۔ نہیں حضور
جج۔۔ اس کی میڈیکل جانچ ہوٸی
وکیل۔ نہیں حضور جب سیون ہی نہیں کیا تو جانچ کی ضرورت نہیں تھی۔
جج۔۔ ڈرگ اس کی پوزیشن سے برآمد نہیں ہوا اس نے ڈرگ لیا بھی نہیں پھر کس جرم میں گرفتار کیا گیا ؟
وکیل۔۔ نارکوٹک معاملے میں حضور
جج۔۔ لیکن ڈرگ تو ملا نہیں تو پھر
وکیل۔۔ ملا نا حضور اس کے بازو میں ایک مرچنٹ تھا اس کی پوزیشن میں ملا۔
جج۔۔۔ مقدار کتنی تھی ؟
وکیل ۔۔ صرف 6 گرام
جج۔۔ بس اتنی سی مقدار ؟
وکیل۔ وہ مرچنٹ ہے وہ اس کا بزنس کرسکتا ہے۔
جج۔۔ تو اس میں بغل میں کھڑے معصوم بچے کا کیا قصور ؟
وکیل۔۔ وہ معصوم نہیں ہے حضور وہ ارب پتی باپ کا بیٹا ہے وہ مرچنٹ کے ساتھ رقم لگا کر بزنس کر سکتا ہے۔
جج۔۔ اس کا کوٸ ریکارڈ ہے ؟
وکیل۔۔ ہے نا حضور۔ جب یہ لندن میں پڑھ رہا تھا تو ایک لڑکی سے واٹس ایپ چیٹ میں گانجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ لندن میں تھا تو ڈرگ مافیاٶں سے اس کے انٹر نشنل کنکشن بھی ہو سکتے ہیں
جج۔۔ آپ کے پاس کوٸ ثبوت ؟ گرفتاری کے لٸے ؟
وکیل۔۔ ہے نا حضور۔ اس کے بغل میں کھڑے مرچنٹ کے پاس 6 گرام ڈرگ کی برآمدگی
جج۔۔ تو اس میں اس لڑکے کا کیا قصور ؟
وکیل ۔۔ حضور آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔اس کا نام خان ہے۔باپ کا نام خان ہے وہ اربوں کا مالک ہے اور جب امریکہ جاتا ہے وہاں کی ایجنسی اسے ایر پورٹ پر ہی ٹیررسٹ ہونے کی شک میں جانچ کرتی ہے۔
جج۔۔ آخر وجہ کیا ہے
وکیل۔۔ اس کا خان ہونا کافی ہے اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔
جج۔۔ اور یہ چھوٹا خان ؟
وکیل۔۔ حضور وہ مرچنٹ کا ساتھی ہے جس کے پاس سے چھ گرام ڈرگ ملی ہے وہ خان ہے ارب پتی خان کا بیٹا۔ اس کا تعلق انٹر نشنل ڈرگ مافیا سے ہو سکتا ہے
جج۔۔ آپ کے پاس کوٸ ثبوت نہیں خواہ مخواہ اسے پھنسا رہے ہیں آپ لوگ۔
وکیل۔۔ سمجھنے کی کوشش کیجٸے حضور۔ یہ لوگ اپنے لباس سے پہچانے جاتے ہیں اور یہ دیش دروہی بھی ہوسکتے ہیں
جج۔۔ جب ڈرگ نہیں ملی اس نے ڈرگ لیا بھی نہیں اس کی میڈیکل جانچ بھی نہیں ہوٸی تو پھر اس کی گرفتاری غیر قانونی ہے
وکیل۔۔ حضور ذرا سوچٸے تو یہ خان ہے اس کا باپ خان ہے یہ لوگ لباس سے پہچانے جاتے ہیں دیش دروہی بھی ہوسکتے ہیں اور۔۔۔
جج۔۔ چپ مادر ۔۔۔ جج نے منھ سے نکلنے والی گالی کو روکی اور غصے سے کہا۔خواہ مخواہ کورٹ کا وقت برباد کیا ایک معصوم کو ہفتوں جیل میں بند رکھا اور ٹھوس ثبوت کے بغیر گرفتار کیا۔ اسے بیل گرانٹ کی جاتی ہے۔
اسی کورٹ میں ایک دوسرا مقدمہ۔
ایک بوڑھا قتل کے جرم میں کٹگھرے میں کھڑا ہے۔
جج۔۔۔۔ ہاں وکیل صاحب بولٸے آپ کا کیا معاملہ ہے۔ بچاٶ پکچھ کا کابلی وکیل کھڑا ہوتا ہے
وکیل۔ حضور میرے بوڑھے موکل کو قتل کے معاملے میں زبردستی پھنسایا جارہا ہے۔
پولیس کا وکیل۔۔ حضور جب پولیس قتل کی واردات کے بعد پہونچی تو جانچ میں بوڑھے کے پاس سے آلٸہ قتل برآمد ہوا۔
جج ۔ ثبوت پیش کیا جاٸے۔
وکیل۔۔ ایک چھوٹا چاقو پیش کرتے ہوٸے
جج ملزم سے۔۔ یہ چاقو آپ کا ہے
ملزم۔۔ حضور میرا ہے ۔ہمیشہ میری جیب میں رہتا ہے
جج آپ نے اسے چھوٹے چاقو سے اس شخص کا قتل کیوں کیا ؟
ملزم۔۔ میں نے قتل نہیں کیا ۔میں بازار سے اپنے لٸے پان اور سپاری خریدنے گیا تھا۔میرے آنے سے پہلے قتل ہوچکا تھا۔بھیڑ جمع تھی میں بھی اس بھیڑ کا حصہ تھا۔ داروغہ جی نے زبردستی مجھے گرفتار کرلیا۔
جج۔۔ داروغہ سے۔۔ آپ نے قاتل کو کیسے پہچانا
داروغہ۔۔ حضور اس کے لباس سے۔
جج۔۔ لباس سے ؟ یہ کیسے ممکن ہے ؟
داروغہ۔۔۔ حضور ملک کے پردھان نے جب کہہ دیا کہ یہ لوگ اپنے لباس سے پہچانے جاتے ہیں تو میں نے فوراً پہچان لیا اور پھر اس کے پاس سے آلٸہ قتل بھی برآمد ہوا۔
جج نے پوسٹ ماٹم کی رپورٹ کو دیکھتے ہوٸے۔داروغہ سے پوچھا۔
رپورٹ کے مطابق اسے گولی مار کر قتل کیا گیا اور اس کے بدن پر دس انچ لمبے چاقو کے نشان بھی ملے ہیں لیکن ملزم غازی خان کا چاقو تین انچ کا ہی ہے۔
داروغہ۔۔ یہ بھی آلٸہ قتل ہوسکتا ہے اور پھر ملزم خان ہے اور اپنے لباس سے پہچان لیا گیا ہے۔
یہ سن کر کابلی وکیل غصے سے کھڑا ہوگیا اور داروغہ سے بولا۔
اوٸے خنزیر کی اولاد میرے موکل پر زنا کا بھی مقدمہ لگاٶ۔
داروغہ۔۔ لیکن اس نے زنا نہیں کیا
وکیل۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا اس کے پاس آلٸہ زنا تو ہے
جج۔ بھونچک ہوجاتا ہے کابلی وکیل کو دیکھتا ہوا کہتا ہے۔ آلٸہ زنا ؟
وکیل جوش میں موکل کے ازاربند کو گرفت میں لیتے ہوٸے۔جج سے حضور آپ آلٸہ زنا دیکھنا چاہینگے
جج۔ رہنے دیں گل خان ۔ میں اس بوڑھے کو قتل کے جرم سے بری کرتا ہوں۔
*****
مشتاق احمد نوری