پہلا منظر
بھارت ایران اور افغانستان کے درمیان چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک زبردست سفارتی اور
Strategic
شکست ہے۔ تین ہمسایہ ملکوں نے اسے مکمل بائی پاس کرتے ہوئے آپس میں ہاتھ ملا لیے ہیں اور کھلم کھلا گوادر منصوبے کو نا کام کرنے کا عزم کر لیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عزم کر لیا ہے بلکہ موثر اور منظم طور پر قدم بھی اٹھا رہے ہیں۔ ایران اور انڈیا کے درمیان اس موقع پر بارہ معاہدے ہوئے ہیں جن کا دامن ثقافت سے لے کر ٹیکنالوجی تک پھیلا ہوا ہے۔ بھارت چاہ بہار منصوبے کے لیے پچاس کروڑ ڈالر مہیا کرے گا۔ تینوں سربراہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ایرانی صدر نے کہا کہ یہ معاہدہ ’’دو عظیم ملکوں‘‘ کے درمیان تعاون کی بہت بڑی علامت ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان بائی پاس ہو جائے گا اور افغانستان کو تجارت کے لیے ایک ایسا راستہ ملے گا جس میں وہ پاکستان سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جائے گا۔ اہم ترین عنصر اس سارے پیش منظر کا یہ ہے کہ ایرانی صدر نے اس معاہدے کو نہ صرف اقتصادی بلکہ ’’سیاسی‘‘ اور ’’علاقائی‘‘ بھی قرار دیا ہے!
دوسرا منظر
وزیر اعظم نواز شریف نے سنٹرل لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ پر واقع مارکس اینڈ سپنسر ریستوران میں کھانا کھایا۔ وزیراعظم طبی معائنہ کے لیے پانچ روزہ دورے پر لندن میں ہیں جہاں وہ گزشتہ روز اہلیہ کلثوم نواز اور صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے ہمراہ آکسفورڈ سٹریٹ پہنچے۔ وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ نے کھانا کھانے کے علاوہ سٹور میں شاپنگ بھی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ملبوسات کے عالمی برانڈز کے آؤٹ لیٹ سے خریداری کی۔
پہلا منظر
پاکستان نے امریکہ سے ڈرون حملے کی ممیاتے ہوئے جو وضاحت ’’مانگی‘‘ تھی اور حملے کو جس طرح ’’خودمختاری‘‘ پر حملہ قرار دیا تھا، اس کے جواب میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر خود سامنے آیا ہے، اس نے برملا اعلان کیا ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے!
’’پاکستان سمیت جہاں بھی امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو کارروائی کریں گے اور پاکستان کو ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے‘‘۔
دوسری طرف پاکستانی عوام کو ان کی اپنی حکومت نے عجیب و غریب کنفیوژن میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ طالبان نئے امیر کے لیے اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور افغانستان دونوں دنیا کو یہی باور کرا رہے ہیں کہ یہ طالبان لیڈر تھا جو ہلاک ہوا، مگر ’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے‘ والا معاملہ اسے معمہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ ہلاک ہونے والا شخص ولی محمد تھا یا ملا منصور؟ پاکستان حکومت اس پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہی!
دوسرا منظر
وزیراعظم کے ’’معاونِ خصوصی‘‘ (سابق سرکاری ملازم) نے وزیراعظم سے لندن میں ٹیلی فونک ’’رابطہ‘‘ کیا ہے اور ملا منصور واقعہ کے بارے میں وزیراعظم سے ’’تبادلۂ خیالات‘‘ کیا ہے۔ اس گفتگو کے بعد دفتر خارجہ میں مشاورتی اجلاس ہوا! اس مشاورتی اجلاس کا کیا نتیجہ نکلا یہ تو نہیں معلوم مگر ایک وفاقی وزیر اور حکومتی پارٹی کے رہنما نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ڈرون حملے کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا ہے۔۔۔۔ اور یہ بیان ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہے! رہنما نے کہا کہ ’’کسی بھی ملک کو ڈرون حملے کی اجازت نہیں دی جائے گی!‘‘
پہلا منظر
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ اورنج لائن منصوبے پر تنقید کرنے والے دراصل عام آدمی کی فلاح و بہبود کے دشمن ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ عام آدمی کی حالت بہتر ہو! یہ عوام کے خیر خواہ نہیں!
دوسرا منظر
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا، ہم ایک عرصہ سے چیخ رہے ہیں اور رو رہے ہیں کہ آخر ملک میں گڈ گورننس کب آئے گی؟ بد عنوانی، جانب داری، اقربا پروری، لاقانونیت اور محرومیوں کا خاتمہ کب ہو گا؟
اگر ان مناظر سے آپ کی آنکھوں کو اتنی ٹھنڈک نہیں پہنچی جتنی ایک وسیع، خنک سبزہ زار کو دیکھنے سے پہنچتی ہے تو ایک لوک داستان سنیے۔ امید قوی ہے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں آسانی ہو گی!
اُس پار سے دو بھیڑیے اُترے۔ چالاک اور خونخوار۔ ایک لنڈورا، دوسرے کی دُم ہی نہیں! جس کی دُم نہیں وہ تین دریاؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان میں سے دو دریا خشک ہیں۔ ایک میں پانی نہیں! جس دریا میں پانی نہیں، اس کے کنارے تین شہر آباد ہیں۔ دو اجڑے ہوئے ہیں۔ ایک آباد نہیں! جو شہر آباد نہیں، اس میں تین کمہار رہتے ہیں۔ دو کبڑے ہیں، ایک سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جو کمہار سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا اُس نے تین ہانڈیاں بنائی ہیں۔ دو ٹوٹی ہوئی ہیں، ایک کا پیندہ نہیں! جو ہانڈی پیندے کے بغیر ہے، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو سخت ہیں، ایک نرم نہیں ہوا۔ جو چاول نرم نہ ہو سکا اُسے تناول کرنے کے لیے تین مہمان تشریف فرما ہوئے۔ دو بھوکے رہے، ایک سیر نہ ہوا۔ وہ جو سیر نہ ہوا اس کے پاس تین گائیں ہیں۔ دو بانجھ ہیں، تیسری دودھ نہیں دیتی۔ جوگائے دودھ نہیں دیتی، اُسے ہم نے بیچ ڈالا۔ قیمت میں تین روپے ملے۔ دو روپے جعلی نکلے، تیسرے کو کوئی لینے کو تیار نہیں! جس روپے کو کوئی قبول نہیں کرتا، اسے جانچنے کے لیے تین سنار بلائے گئے۔ شومئی قسمت کہ دو ان میں سے اندھے تھے، تیسرے کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جس سنار کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا، اس نے سونے کی تین چوڑیاں بنائیں۔ دو تنگ نکلیں، تیسری کلائی پر چڑھتی نہیں۔ دوشیزہ یہ چوڑی لینا چاہتی تھی مگر اُس کے عاشق نے لینے نہیں دی!
ہماری قسمت میں خشک دریا، اجاڑ شہر، کبڑے کمہار، بے پیندے کی ہنڈیا، کچے چاول، کبھی سیر نہ ہونے والے مہمان، بانجھ گائیں،
کھوٹے سِکے، اندھے سنار اور تنگ چوڑیاں ہیں! ہم کیا کریں! ہم کہاں جائیں! بھارت ہمارے سر کے اوپر سے ہوتا دونوں پڑوسی ملکوں کے سربراہوںکو اپنی بغل میں لیے بیٹھا ہے۔ مودی رانوں پر ہاتھ مار کر ’’بھِڑ کوڈی، بھڑ کوڈی‘‘ للکار رہا ہے! صدر روحانی برملا کہہ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ اقتصادی ہی نہیں، سیاسی اور علاقائی بھی ہے! گویا علاقے میں پاکستان کا وجود ہے نہ حیثیت! جیسے بستاہی نہیں! افغانستان کا صدر آنکھیں ماتھے پر رکھے، پاکستان کے طویل، لامتناہی احسانات یکسر فراموش کرکے اس اتحادِ تلاثہ میں شریک ہوگیا ہے! دوسری طرف صدر اوباما بنفس نفیس خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے ہیںکہ ڈرون حملے ہوتے رہیںگے۔ ایسے میں ہمارے وزیرخارجہ، جو وزیراعظم بھی ہیں، آکسفورڈ سٹریٹ میں اہلِ خانہ کے ساتھ کھانے کھا رہے ہیں اور بین الاقوامی برانڈوںکے ملبوسات اکٹھے کر رہے ہیں۔ ڈرون حملے سالمیت کو نگل رہے ہیں۔ دنیا طعنے دے رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت ہے۔ چاہ بہار میں ہمارے لیے کنواں کھودا جا رہا ہے! اندھا کنواں! واحد سرگرمی جو اس سارے معاملے میں ہماری وزارت خارجہ دکھاتی ہے، یہ ہے کہ ’’معاون خصوصی‘‘ وزیراعظم کو فون کرکے ان کی لندن کی سرگرمیوں میں مخل ہونے کی جرأت کرتے ہیں۔ پھر وزارتِ خارجہ میں ایک اجلاس ہوتا ہے! حکومتی پارٹی کے لیڈر و وزیراعظم کے اِکا دُکا جملوںکو ’’خارجہ پالیسی‘‘ قرار دے رہے ہیں! ملک کی بلند ترین عدالت کا قاضی دہائی دیتا ہے کہ ملک میں گورننس ہے نہ دیانت۔ ہر طرف جانبداری ہے اور اقرباپروری اور محرومیاں اور لاقانونیت!
کوئی ہے جو ثابت کرے کہ ایسا نہیں ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“