قائدِ اعظم کے کھوٹے سِکے مشہور ضرور ہوئے لیکن حقیقت یہ ھے کہ روزِ اول سے آجدن تک انہی کھوٹے سِکوں یا نہلوں کی حکومت اس ملک کے طُول و ارض پر رہی ھے۔ آجتک کوئی بڑا لیڈر ان کھوٹے سِکوں کا علاج نہیں کر پایا ان سے ہماری نسلوں کی جان نہیں چھُڑوا پایا۔ قائد کے بعد ذوالفقار علی بھُٹو، انکے بعد بینظیر بھُٹو اور کسی حد تک موجودہ نواز شریف۔ جو جو شخص عوامی توجہ اور ووٹ کا مستحق ٹھہرا ان کھوٹے سِکوں نے اُسکے تلوے چاٹنے کر دیئے۔ نظام میں انکی جگہ گو پہلے سے موجود تھی لیکن مستحکم صرف تلوے چاٹنے کی مہارت کے سبب قائم دائم رہی۔ یہ ایسے گھاگ اور کایاں ہیں کہ اپنے بچوں کو گھُٹی میں یہ ہُنر دیتے ہیں اور کیونکہ یہی لوگ پچھلے بہتر سالوں سے حُکمران ہیں لہذا ہماری قومی اخلاقیات پر اثر انداز ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس قوم کو یہ یقین دلا دیا ھے کہ الیکشن صرف پیسے سے جیتا جا سکتا ھے اور کیونکہ وہ پیسہ نسل در نسل انہی کی تجوریوں میں اکٹھا ہوتا رہا ھے تو اول تو عام کارکن پارٹی ٹکٹ کے حصول کو فضول جانتا ھے کیونکہ وہ پیسے کی سیاست سے مرعوب ہو چکا ھے دوسرا نظریاتی پارٹیوں کی لیڈرشِپ بھی الیکٹیبلز کو اقتدار کی کُنجی سمجھنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہی وہ وجہ ھے کہ ہمارے ملک میں سیاسی کارکن وفات پا گیا ھے۔
وہ قیادت جو محنت سے اوپر آتی ھے وہ نیچے درپیش عوامی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہوتی ھے بلکہ وہ لیڈرشپ اور عوام میں کنٹرول سمیت آگاہی کا سبب بنتی ھے جو اس مُلک میں ناپید ھے۔ اسی گندے کھیل نے ایماندار نظریاتی کارکن کو یا تو دیہاڑی دار بنا دیا ھے یا پھر وہ بدتمیز ہو گیا ھے اور معاشرے میں مایوسی پھیلا رہا ھے اور اس سارے گندے کھیل کی آبیاری تیسری قوت نے کی ھے۔ بھُٹو صاحب نے جو حرارت، جُرآت اور جذبہ نِچلے طبقات میں پیدا کیا حقیقت میں وہی انکے قتل کا باعث بنا۔ انگریز دور سے قائم دائم کمپنی سرکار اور کھوٹے سکوں کے گٹھ جوڑ پر غریب آدمی کا جُوتا رکھنے والے بھُٹو صاحب شائید جانتے تھے کہ انکے پاس وقت تھوڑا ھے اسی لیئے انھوں نے ایک ایک گرہ لگانے کی بجائے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور افسر شاھی کو سیدھا گردن سے پکڑا اور غریبوں کو اس ملک کے مالکانہ حقوق دیدیئے۔ انہیں شائید یہ گُمان تھا کہ چھ سال آزادی میں سانس لینے کے بعد یہ طبقات خود اسکی حفاظت کریں گے۔ یہ نہیں کہ یہ لوگ اس نظام کو بچانے یا بھُٹو صاحب کیلئے اُٹھے نہیں۔ اصل میں یہی لوگ تو اُٹھے اور بھرپور مزاحمت کی۔ انہی لوگوں نے جیلیں بھریں، کال کوٹھریاں دیکھیں، پھانسیاں چُوم کر اپنے گلے میں ڈالیں اور ہنستے گاتے انقلاب کے احیاء کا خواب لیئے پرلوک سِدھار گئے۔ لیکن وہ شائید یہ بھولے بیٹھے تھے کہ جب بھوک لگتی ھے تو سب سے پہلے نظریات تیل لینے چلے جاتے ہیں۔ 1988 تک بھُٹو صاحب کا لاڈلا غریب ایک تھکا ہوا نظریاتی کارکن ضرور تھا لیکن حکومت آنے پر وہ اپنے بچے پالنے میں رُجھ گیا۔ اسکی جگہ کھوٹے سکوں نے فوراً بھر دی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ھے کہ بی بی صاحبہ بھی بھُٹو کے لاڈلے غریب کو یکجا نہ رکھ پائیں۔ کیسے رکھ پاتیں؟ کراچی ممبئی کے قریب ایک شہر ھے اور وہاں کا کرایہ ہر دور میں زیادہ رہا ھے۔ جیلوں کا ایندھن بننے والے اب عمر کے اُس حِصے میں پہنچ گئے تھے کہ اپنے اردگرد ابن الوقتوں کو پنپتا دیکھ کر بجائے یہ کہ لڑتے مرتے انہوں نے کنارا کر لیا۔ ووٹ دیتے رہے لیکن آہستہ آہستہ تھانے کچہری کے کلچر کا شکار ہو گئے۔ لیکن آج پھر کارکن بلاول کو دیکھ کر متحرک ہو رہا ھے۔ وہ کسی ضلعی ڈویژنل یا صوبائی عہدے پر نہیں لیکن وہ بات کر رہا ھے۔ بھٹو صاحب کا تعارف اس بھُلکڑ سماج کو کرا رہا ھے اور آج ہی یہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ھے کہ بُوٹ چاٹ کھوٹے سِکے بھی ہوا کا رُخ تول رھے ہیں۔ جونہی بلاول بھٹو اپنے کارکنوں کو لیکر میدان میں اترے گا، پہلی دوسری سیاسی فتح کیساتھ ہی کھوٹے سکوں کی ٹرانسفر کا عمل خاموشی سے جاری ہو جائے گا۔ یہ پھر اپنی گاڑیوں میں لاڑکانے کا تیل بھروا لیں گے اور پھر کارکن دیکھتا رہ جائے گا۔ اور کیوں نہ ہو یہ ملک ھے ہی قائدِ اعظم کے کھوٹے سکوں کا۔ انہی کی اولادوں نے آئیندہ اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ھے.