زندگی میں کچھ فیصلے اچانک ہوتے ہیں۔جن فیصلوں کا گمان تک نہیں ہوتا ہے۔وہ بھی حالات سے مجبور ہو کر کر لیے جاتے ہیں۔درخشندہ نام کی طرح درخشندہ نہیں تھی ۔بدقسمتی کا پیکر تھی ۔ جس گھر میں پیدا ہوئی ۔وہ گھر اُس کی صلاحیتوں کا معترف تھا ۔لیکن انکار پر بضد تھا۔ درخشندہ غلط نہیں تھی۔وہ زندگی کے تجربوں سے واقف تھی ۔ مگر رشتہ داروں کے لڑائی جھگڑوں نے اندر ہی اندر درخشندہ کو زندہ درگور کردیا تھا۔جن والدین کا درخشندہ دم بڑھتی تھی ۔پلک جھپکتے ہی وہ درخشندہ سے نفرت کرنے لگے تھے۔درخشندہ نسل نو کے لیے روشن ستارہ تھی ۔وہ روشن ستارہ جس کا گھر ہی اُس کو کھا گیا تھا۔
درخشندہ نے بہتری کی امید ہمیشہ قائم رکھی تھی ۔بہتری بھی تب ممکن تھی ۔جب درخشندہ کے تعلیم یافتہ ہونے کو کوئی تعلیم یافتہ بھی سمجھتا۔بچپن سے وہم شک کے دائرے میں پلنے والی درخشندہ نے اپنی ذات کو نکھار کر درست کیا تھا۔درخشندہ شک کی چکی میں پستی رہتی تھی ۔فلاں بھی مجھ پر شک کرتا ہے فلاں بھی۔۔۔۔۔۔سب سے بڑھ کر میرے گھر والے صف اول پر ہیں۔درخشندہ دن رات سوالوں جوابوں کے دائرے میں گھومتی رہتی تھی ۔گھر کے تنگ ماحول نے درخشندہ کو تاریک بنا ڈالا تھا۔ تاریکی کب تک زندہ رہتی ؟آخر اس تاریکی نے درخشندہ کو ہمیشہ کے لیے دنیا کی نگاہوں سے اوجھل کردیا تھا۔ درخشندہ خودبخود مرگئی تھی ۔بغیر کسی وجہ کے تصورات کی دنیا میں گمنامی کا شکار ہو کر جہان فانی سے کوچ کرگئی تھی۔درخشندہ کی موت خودکشی نہیں تھی ۔بلکہ اپنوں کی بے حسی اور خودغرضی تھی۔خونی رشتے درخشندہ کو کھاگئے تھے۔
سن کر افسوس ہوتا ہے روزانہ ایسی کئی درخشندہ مرجاتی ہیں یا ماردی جاتی ہیں۔روشن خیال ہونے پر پابندی لگ جائے تو انسان کا مرنا اٹل ہے۔درخشندہ بھی اس کا منہ بولتا ثبوت تھی۔فرق صرف یہ ہے بیٹی کے پیدا ہونے پر اب جو معاشرہ خوشی کا اظہار کرتا ہے۔وہاں اس کے روشن خیال ہونے پر باڑ بھی لگاتا ہے۔صنف نازک کو نازک رکھنا ماحول سے ڈرانے کا ٹھیکہ لینے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا یہی صنف نازک ہر مشکل میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ جس عورت کے بولنے پر مرد بھی دھتکارتا ہے۔لعن طعن مار پیٹ کرتا ہے ۔درخشندہ کا قصور صرف یہ تھا وہ اندھوں میںآنکھوں والی تھی۔وہ گھسی پٹی روایات کو تبدیل کرنا چاہتی تھی ۔روایات کو تبدیل کرتے کرتے درخشندہ بے نام ہوگئی۔حتی کہ معاشرہ بھی تبدیل نہیں ہوا۔خونی رشتے بھی جدید دور میں قدامت پسند ہی رہے۔
ایک انسان کی موت نے عرش ہلایا ہوگا۔میں ہوش و ہواس میں کہوں گئی ۔درخشندہ جس بھی انسان کے ظلم و ستم اور جبر کا نشانہ بنی ۔وہ نشانہ عبرت بنے گا۔ وقت کی رفتار بہت تیز ہے۔ اس رفتار سے بادشاہ نہیں بچ سکے تو عام انسان کیا چیز ہے؟
موت برحق ہے ۔زندہ انسان کو مردہ بنادینا گناہ کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے۔۔۔۔۔اللہ کے بنائے قانون بہت سخت ہیں۔ درخشندہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے لیے مزید کیا لکھوں۔۔۔۔۔۔؟ لکھنے کے لیے الفاظ بھی کم ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...