انسانی تاریخ ہر رنگ سے مزین ہے جن میں سے نمایاں رنگ سرخ ہے۔ یہ خون کا رنگ ہے۔ تاریخ میں ہم ایک دوسرے سے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ہوئیں؟ ان واقعات کو ہیموکلزم یا “خون کے سیلاب” کہا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر لوگ قدرتی آفات یا وباوٗں کی وجہ سے بھی مارے جاتے رہے ہیں۔ اس فہرست میں صرف وہ واقعات ہیں جن کی وجہ انسان تھے۔ ایسی فہرست مکمل طور پر ایکوریٹ نہیں ہو سکتی خاص طور پر پرانے ریکارڈ کے بارے میں۔ لیکن مختلف سائنسدانوں کی طرف سے دستیاب شواہد کو دیکھ اور پرکھ کر کئی طریقوں سے یہ تخمینے لگائے گئے ہیں۔ یہ ان کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ جنگوں کی اموات میں جنگ کے میدان میں اور اس کے نتیجے میں پڑنے والے قحط کی اموات کو شامل کیا گیا ہے۔
اکیس واقعات ہلاک ہونے والوں کی تعداد بد سے بدترین کی ترتیب میں
فرانس میں مذہبی جنگیں ۔ تیس لاکھ اموات
سولہویں صدی میں 1562 سے 1598 تک آٹھ جنگیں لڑی گئیں۔ یہ کیتھولک اور ریفورمڈ پروٹیسٹنٹ کی جنگیں تھیں۔ یورپ میں ریفارمیشن کے دور میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے لڑی گئیں۔
چینی خانہ جنگی ۔ تیس لاکھ اموات
چینی کمیونسٹ پارٹی اور چینی ری پبلک کے درمیان 1927 سے 1936 کے درمیان بہت سے معرکے ہوئے اور پھر خانہ جنگی۔
نپولین کی جنگیں ۔ تیس لاکھ اموات
انیسویں صدی کے شروع میں بارہ سالوں میں نپولین کی کمانڈ میں فوجوں نے یورپ میں فتوحات حاصل کیں۔ کئی ممالک نے نپولین کی افواج کے خلاف اتحاد بنایا۔ برطانیہ کے خلاف واٹرلو کے مقام پر (جو موجودہ بلجئم میں ہے) ہونے والی شکست نے ان کا سلسلہ 18 جون 1815 کو ختم کر دیا۔
روس کے مشکل وقت ۔ پچاس لاکھ اموات
“مشکل وقت” ایک مبہم تصور لگتا ہے لیکن روس میں سولہویں اور سترہویں صدی واقعی مشکل وقت تھے۔ اس دوران پولینڈ سے جنگیں ہوئیں، اس پر قبضہ ہوا، کئی جگہ بغاوت ہوئی اور نتیجے میں ایک شدید قحط کا سامنا ہوا جس نے آبادی کے بڑے حصے کا صفایا کر دیا
تیس سالہ جنگ ۔ ستر لاکھ اموات
وسطی یورپ میں ہونے والی یہ بدترین مذہبی جنگ تھی اور پروٹسٹنٹ ریفارمیشن کے نتیجے میں ہوئی۔ 1618 سے 1648 تک جاری رہنے والی جنگوں کئی شہر اور دیہات اجڑ گئے۔ یورپ بھر میں لوگ بہت سے لوگ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے۔ جنگجووٗں کے جتھے ہر جگہ پر تھے۔ جو بچ جاتے، ان کو قحط یا بیماری ختم کر دیتی۔ یہ یورپ میں ظلم اور وسوسوں کا دور تھا۔
کانگو فری سٹیٹ ۔ اسی لاکھ اموات
بلجیم کے بادشاہ شاہ لیوپولڈ دوئم نے 1885 سے 1908 کے درمیان افریقہ کے اس حصے کو لُوٹنے کے لئے جس طریقے سے انسانیت سوز مظالم ڈھائے، ان کو پڑھنا ہی کسی کی طبعیت خراب کر سکتا ہے۔ یہاں کی نصف آبادی صرف بیگار لینے کے طریقوں کی وجہ سے قتل کر دی گئی یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اعداد کو اگر ایک طرف رکھا جائے، تو انسانی تاریخ میں اس بدترین سفاکیت کی کوئی اور مثل نہیں۔ یہ تیرہ برس تک جاری رہی۔
رومی سلطنت کا خاتمہ ۔ اسی لاکھ اموات
پانچویں سے تیسری صدی قبلِ مسیح تک رومی سلطنت کا خاتمہ ایک لمبا اور خونریز عمل تھا۔ خانہ جنگی، بربریت، حملے، سیاسی بحران، مذہبی جھگڑے، کرپشن اور قتل و غارت میں مشترک چیز بہتے خون کی سرخی تھی۔
روسی سرخ انقلاب ۔ نوے لاکھ اموات
بیسویں صدی میں یہ 1918 سے 1921 کے درمیان ہوئی۔ سفید اور سرخ فوج کے درمیان کہہ لیں، بالشویک اور مونارکسٹ کے درمیان۔ یہ لینن کے نظریات کے نام پر لڑی گئی۔ سوشلسٹ جیت گئے۔ سوویت یونین پیدا ہو گیا۔
پہلی جنگِ عظیم ۔ ڈیڑھ کروڑ اموات
یورپ میں تناوٗ تھا۔ جرمنی کو سلطنت چاہیے تھی اور پھر ایک نوجوان گوریلو پرنسپ نے آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ کو قتل کر دیا۔ بتیس ممالک نے جنگ کی۔ فوجیوں سے زیادہ اموات سویلین آبادی کی ہوئیں۔ 1914 سے 1918 تک یہ جاری رہی۔
برطانوی راج ۔ ایک کروڑ ستر لاکھ اموات
انیسویں صدی میں برِصغیر پر برطانوی قبضے کے دوران قحط، جن بچایا جا سکتا تھا۔ برطانوی راج کے دوران برِصغیر میں جو اچھا برا ہوا، اس میں بدترین برطانوی راج کی پالیسی تھی جس میں سرکار نے مقامی جاگیرداروں کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع کمانے کے طریقوں کی حمایت کی، خوراک برآمد کی اور لگان بڑھائے جب انڈین کسانوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ (یہ لمبی اور ذرا پیچیدہ کہانی ہے)۔
تیمور لنگ ۔ ایک کروڑ ستر لاکھ اموات
امیر تیمور ترک منگول فاتح تھے۔ تیمور لنگ کی افواج کی دہشت کا مقابلہ نہ تھا۔ آئے، دیکھا، فتح کر لیا اور پیچھے خون کی ندیاں اور طاقتور سلطنت چھوڑ دی۔ ازبکستان میں پیدا ہونے والے تیمور نے دہلی، بغداد، دمشق، حلب آرمینا، جارجیا، اناطولیا، آذر بائجان، افغانستان، اصفہان، شیراز، ہیرات میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ چین پر 1405 میں حملہ کے سفر کرتے وقت ہونے والے فلو کی وجہ سے اس دنیا میں نہ رہے۔ (انکے پڑپڑپوتے بابر نے برِصغیر پر حملے میں فتح حاصل کر کے مغلیہ خاندان کی حکومت کی ابتدا کی)
بحرِ اوقیانوس میں غلاموں کی تجارت ۔ ایک کروڑ اسی لاکھ اموات
پندرہویں صدی سے انیسویں صدی تک جاری رہنے اس تجارت میں افریقہ سے لوگوں کو پکڑ کر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ تجارت کرنے والی یورپی کالونلسٹ اقوام تھیں۔ غلاموں کو کپاس اور گنے کی فصلوں، کان کنی، تعمیرات وغیرہ کے لئے برے حالات میں استعمال کیا جاتا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ میں غلاموں کی تجارت ۔ ایک کروڑ نوے لاکھ اموات
ساتویں صدی سے انیسویں صدی تک جاری رہنے والی یہ تجارت یورپی تجارت سے کہیں پہلے سے جاری تھی۔ اس میں زیادہ تر عرب اور افریقی شامل تھے۔ گھانا، مالی، مشرقِ وسطیٰ، مراکش اور اجوران، کفارا، ایتھیوپیا اور کانم بورنو کی سلطنتوں کا اس میں کردار رہا۔
جوزف سٹالن ۔ دو کروڑ اموات
سٹالن کی “عظیم صفائی” نے بہت سوں کو گولاگ میں پہنچا دیا۔ بہت سوں کو فاقہ زدگی سے مروا دیا۔ کوئی بھی محفوظ نہیں تھا، وہ بھی نہیں جو سٹالن کے قریبی تھے۔
امریکی مقامی آبادی کا صفایا ۔ دو کروڑ اموات
پندرہویں سے انیسویں صدی کا وقت یورپیوں کی آمد سے قبل امریکہ میں بسنے والوں کے لئے برا وقت تھا۔ اگلی چند صدیوں میں نئے آنے والوں نے پہلے بسنے والوں کی آبادی اور کلچر کا صفایا کر دیا۔
تائی پنگ کی بغاوت ۔ دو کروڑ اموات
چنگ خاندان کے خلاف ہونے والی بغاوت جو 1850 سے 1864 تک جاری رہی۔ ہنگ شی چوان جو باغیوں کے لیڈر تھے، انہوں نے “نئے امن” کے نام پر بغاوت کی تھی۔ عوام چنگ خاندان کی حکومت میں خوش نہ تھے۔ یہ بغاوت تبدیلی کے نام پر تھی۔ چنگ خاندان نے برطانوی افواج کی مدد طلب کی۔ برطانوی اپنے تجارتی مفادات کی حفاظت چاہتے تھے۔ چنگ کے ساتھ مل کر بغاوت کچل دی گئی۔
منگ خاندان کا خاتمہ ۔ اڑھائی کروڑ اموات
چنگ خاندان کی جنوب میں جنگ خاندان سے لڑائی تھی۔ منگ خاندان کو جنوب میں اندرونی بغاوت کا سامنا تھا۔ سترہویں صدی میں ہونے والی اس طویل لڑائی میں چنگ خاندان کو فتح ہوئی۔
آن لوشان بغاوت ۔ تین کروڑ ساٹھ لاکھ اموات
یہ چین کی ایک اور بغاوت تھی جو 755 اور 763 کے درمیان رہی۔ تانگ خاندان کا مقابلہ اپنے جنرل آن لوشان کی فوج سے ہوا جو خود بادشاہ بننا چاہتے تھے۔ آن لوشان اس میں کامیاب رہے لیکن اپنی حکومت زیادہ دیر برقرار نہ رکھ سکے اور اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ بغاوت دنیا کا سب سے زیادہ بہنے والا خون تھا۔
ماو زے تنگ ۔ چار کروڑ اموات
انفرادیت کے مخالف ماوٗ اپنی قوم کو اجتماعیت کے نام پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ ان کی “عظیم چھلانگ” بڑی تعداد میں لوگوں کے لئے موت کا پیغام تھی۔ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں آنے والے قحط، سرکاری سزاوٗں کے کیمپ اور حکومت مخالف کسی بھی چیز کو سختی سے کچلنے کی پالیسی کے نتیجے میں یہ ایک بڑی ٹریجڈی ثابت ہوا۔
منگول فتوحات ۔ چار کروڑ اموات
منگول پہاڑوں سے آنے والی چنگیز خان کی قیادت میں منگول افواج نے ایشیا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بڑے علاقے پر قبضہ لیا۔ لاشوں کے ڈھیر لگا کر دہشت پھیلانا ان کے لئے فوجی حکمت عملی تھی۔
جنگِ عظیم دوئم۔ ساڑھے پانچ کروڑ اموات
دنیا کے بڑے حصے میں لڑی جانے والی اس جنگ میں 1939 سے 1945 کے درمیان میدانِ جنگ اور عام شہروں میں انسانی جانوں کا سب سے بڑا نقصان ہوا۔
آسکر وائلڈ کے مطابق، “جب تک جنگ ایک مکاری لگے گی، اس کے چاہنے والے رہیں گے۔ جب اس کو بے ہودگی سمجھ لیا جائے گا، پھر اس کی مقبولیت کم ہو جائے گی”۔ ابھی بھی ہم ہیرو ازم کو دیانتداری سے پیش کئے گئے ظلم پر ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے تاریخی ٹریجیڈیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن جنگ کو بے ہودگی سمجھے جانے والے اب زیادہ ہیں اور بڑھ رہے ہیں۔ کیا ہم خون کے سیلابوں کے دور سے آگے بڑھ آئے ہیں؟
اگر ان کو پڑھتے وقت آپ نے کسی کو فوری طور پر قبول کر لیا جبکہ کسی دوسرے پر حوالہ ڈھونڈیں گے۔ کوئی ایسا ہے جس کو دوسروں سے زیادہ اہمیت دی جبکہ کسی دوسرے کا دفاع سوچا تو یہ آپ کی اپنی نفسیات اور خود شناسی کا ٹیسٹ ہے۔ اور اگر آپ کے خیال میں جتنے حالات آج برے ہیں، ویسے کبھی نہ تھے اور ماضی کے واقعات کی اہمیت نہیں تو پھر آپ کا دنیا کی تاریخ کا مطالعہ ابھی کم ہے۔
ان میں سے کتنے واقعات ایسے تھے، جن کے ہونے کے بارے میں جانتے تھے؟ یہ آپ کو اپنے تاریخ کے علم کے بارے میں آگاہی دے گا۔
یہ فہرست اس کتاب سے ہے جس میں ان تمام واقعات کی مکمل تفصیل، کیلکولیشن کے طریقے اور ان کے علاوہ دنیا میں ہونے والے اس قسم کے مظالم کا ذکر ہے۔
Atrocitology: Humanity's 100 Deadliest Achievements by Matthew White