’’پلائو ہسپتال ہی میں پکائوں گا۔ اور تمہارے کمرے ہی میں پکے گا‘‘۔
دادا خان نوری نے پرعزم لہجے میں اعلان کیا۔
یہ 1997ء یا 98ء کی بات ہے۔ میں بیمار ہوا۔ اتنا کہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ دادا خان نوری اُن دنوں یونین آف جرنلسٹس ازبکستان کے سربراہ تھے۔ صحافی کے علاوہ بطور ناول نگار بھی ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ 1992ء میں وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو وہاں پہنچنے والے اولین پاکستانیوں میں‘ میں بھی شامل تھا۔ ادب و شعر کے وابستگان کے درمیان ایک عجیب طلسماتی اور مقناطیسی رابطہ ہوتا ہے جو بہرطور قائم ہو کر رہتا ہے۔ ازبکستان کے شاعروں‘ ادیبوں اور صحافیوں سے تعلقات قائم ہوئے تو فوکل پوائنٹ دادا خان ہی تھے۔ تاشقند یونیورسٹی سے انہوں نے ہندی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس لیے کہ بھارت کی سرگرمیاں سوویت یونین میں پاکستانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دادا خان اردو بولتے تھے مگر لکھ نہیں سکتے تھے۔ سوویت یونین کا طلسم چاک ہوا اور پاکستانیوں کا آنا جانا شروع ہوا تو دادا خان پاکستان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ وفود لے کر آتے۔ ثقافتی تبادلوں میں بھرپور حصہ لیتے اور ازبکستان آنے والے پاکستانیوں کی ہر پہلو سے رہنمائی کرتے۔
پہلی بار جب میرے ہاں قیام کیا تو صبح صبح اُٹھ کر سیر کرنے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’تم پاکستانیوں میں عقل نہیں‘‘۔ گھروں کے اندر اور باہر بھی بڑے بڑے رقبے ضائع ہو رہے ہیں۔ پھل دار درخت کیوں نہیں لگاتے؟‘‘ ازبکستان کے لحاظ سے ان کا غصہ بجا تھا۔ بابر نے تزک میں برصغیر کے بارے میں یہی تو رونا رویا ہے کہ پھلوں اور پھولوں کا‘ باغوں اور چمنستانوں کا رواج ہی نہیں۔ تاشقند پیدل چلتے ہوئے‘ بلامبالغہ‘ یہ عالم دیکھا کہ فٹ پاتھ پر چل رہے ہیں تو بائیں طرف مکان ہیں‘ دائیں طرف چیری کے درخت پھل سے لدے ہیں اور سر پر انگور کے خوشے لٹک رہے ہیں۔ یہی حال سمرقند میں تھا ؎
سمرقند میں ہر جگہ سر پہ انگور کی شاخ تھی
سمر قند میں کس کو ہوش آیا تھا اور میں اس میں تھا
ہر گھر کے درمیانی حصے میں‘ جسے حولی کہتے ہیں‘ ثمردار درخت لگے ہوتے ہیں۔ انگور‘ آڑو‘ ناشپاتی‘ سیب‘ اخروٹ‘ چیری اور شہتوت میں اکثر و بیشتر گھرانے خودکفیل ہیں۔
دادا خان ہر ہفتے خیریت پوچھنے کے لیے فون کرتے تھے۔ علالت اور ہسپتال داخل ہونے کا علم ہوا تو پلائو پکانے کا سارا سامان اپنے اسباب میں رکھا۔ تاشقند سے جہاز میں بیٹھے۔ پیشگی اطلاع نہیں دی۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے۔ ٹیکسی لی اور سیدھا گھر تشریف لائے۔ میری بیگم اور بچے حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ ازبکوں کی خوش گمانی ہے کہ بیماری جیسی بھی ہو‘ ازبک پلائو سے ٹل جاتی ہے۔ وہ اپنی طرف سے میرے علاج کے لیے تشریف لائے تھے۔ ازبک پلائو کے سارے اجزا یہاں سے نہیں میسر آ سکتے تھے۔ چاول بھی مخصوص نسل کا ہوتا ہے۔ مصالحے بھی خاص ہوتے ہیں۔ گاجر بھی ایک ضروری جزو ہے۔ یہ سب کچھ وہ تاشقند سے ساتھ لائے تھے۔ پیاز بھی سامان میں شامل تھا۔ پکانے کے لیے وسط ایشیا میں ایک خاص وضع کا برتن استعمال ہوتا ہے۔ اسے قازان کہتے ہیں۔ اس کے لیے لوہے کا چمچ خاص ہوتا ہے۔ یہ بھی وہ ہمراہ لائے تھے۔ ازبک نان بھی کثیر تعداد میں تھے۔ گھوڑے کے گوشت کی ساسیج بھی تھیں (جو ان کے واپس جانے کے بعد گھروالوں نے پھینک دیں)۔ قازان اب بھی ہمارے گھر میں پلائو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
میں ہسپتال اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا تھا۔ غالباً والد مرحوم میرے پاس تھے۔ میرا بیٹا حسان جو اُس وقت پندرہ سولہ برس کا تھا‘ کمرے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سیاہ رنگ کے انگریزی سوٹ میں ملبوس دادا خان نوری! فوراً تسلی دی کہ وہ میرے کمرے میں پلائو پکائیں گے‘ میں کھائوں گا اور یہ کہ کل تک بھلا چنگا ہو جائوں گا۔ بہت مشکل سے سمجھایا کہ ہسپتال والے کمرے میں پلائو پکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دوسرے دن انہوں نے ازبکستان کے سفیر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سفیر صاحب اپنے گھر کے لیے گوشت کہاں سے لیتے ہیں۔ ازبک‘ پلائو میں دنبے کا گوشت ڈالتے ہیں اور وہ بھی بہت دیکھ بھال کر اور مین میکھ نکال کر۔ سفیر صاحب کے ساتھ وہ دارالحکومت کے اس علاقے میں گئے جہاں اُس زمانے میں افغان مہاجرین کثرت سے رہتے تھے۔ دنبے کا گوشت خرید کر لائے۔ میری بیگم کو بھابھی جان کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بولے‘ بھابھی جان! آپ نے اب باورچی خانے میں نہیں آنا۔ میں پلائو پکانے لگا ہوں۔ ہاتھ بٹانے کے لیے انہوں نے حسان اور معاذ کو ساتھ رکھا۔
یہ سارا واقعہ‘ قدرے اختصار کے ساتھ‘ ناولوں اور سفرناموں کے بابے جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کسی کتاب میں بھی بیان کیا ہے۔ آج یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے دوست فقیر اللہ خان کی تازہ تصنیف ’’سیرِ جہاں‘‘ موصول ہوئی اس میں اگرچہ جاپان سے لے کر ہسپانیہ تک بہت سے ملکوں کی سیاحت کا حال بیان کیا ہے مگر ازبکستان کا ذکر خاصے کی چیز ہے۔ فقیر اللہ خان ملازمت کے سلسلے میں کئی برس وسط ایشیا میں رہے۔ زبان و بیان میں وہ چسکارا نہیں جو ایک سکّہ بند ادیب کے ہاں ملتا ہے مگر سادگی اور سلاست نے کتاب کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ سیاحت کے ذاتی تجربوں کے ساتھ ساتھ خان صاحب اقلیموں اور شہروں کے متعلق معلومات بیان کرتے جاتے ہیں اور پڑھنے والے کو شریکِ سفر رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
میرا ازبکستان کا چوتھا اور (ابھی تک) آخری سفر جلال الدین خوارزم شاہ کی 700 ویں سالگرہ کے حوالے سے تھا۔ ازبک‘ جلال الدین خوارزم شاہ کو جلال الدین منگو بیردی کہتے ہیں۔ ہم سب مندوبین کو ترمذ اور خیوا لے جایا گیا۔ صدر اسلام الدین کریموف سے بھی ملاقات ہوئی۔ فقیر اللہ خان کا احوالِ سیاحت پڑھ کر یادوں کے دریچے وا ہو گئے ہیں۔ جس طرح بچھو اور سانپ کے کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں‘ اسی طرح استعمار سے کچھ اچھے کام بھی ہوئے۔ ازبکستان میں خواندگی کا تناسب ننانوے فیصد سے زیادہ ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کے عہد میں بیس لاکھ آبادی سے زیادہ کے شہر میں زیرِ زمین ریلوے کا نظام قائم کر دیا جاتا تھا۔ تاشقند انڈر گرائونڈ ریلوے کے 36 سٹیشن ہیں۔ ہر سٹیشن ڈیزائن اور نقاشی میں ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ازبک ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ فانوسوں کا حسن قابلِ دید ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں شاہراہوں کا جال بچھا دیا گیا۔
وسط ایشیا میں پھل ضائع نہیں ہونے دیے جاتے۔ چیری اور شہتوت کا رس عام ہے۔ ایک خوبانی اور ایک آڑو بھی تلف نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں چترال‘ ہنزہ اور بلتستان میں میوہ جات کا بہت بڑا حصہ لاپروائی‘ بدانتظامی اور کوتہ اندیشی کی نذر ہو جاتا ہے۔
تاشقند کا چارسُو بازار وسط ایشیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ہے۔ یہ مسقّف ہے اور تہہ خانے سمیت چار منزلہ ہے۔ وسط ایشیا کے بازاروں میں کشمش‘ خوبانی‘ بادام‘ اخروٹ‘ پستہ اور دوسرے میوے ڈھیروں کی صورت یوں رکھے جاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں غلہ منڈیوں میں گندم کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔
تِکّے کو ازبک ششلیک کہتے ہیں۔ اس کی لذت نرالی ہے۔ سموسہ بھی انہی کی زبان کا لفظ ہے اور بازاروں میں بکتا ہے۔ چائے بغیر دودھ کے پیتے ہیں اور مسلسل پیتے ہیں۔ پانی پینے کا رواج ہی نہیں۔ ہم پاکستانی پانی مانگیں تو پوچھتے ہیں ’’آپ بیمار تو نہیں؟‘‘ ٹرینوں میں سماوار لگے ہوتے ہیں۔ مسافر گرم پانی سے چینکیں بھرتے رہتے ہیں۔
ہم پاکستانی بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں سے سنا ہے کہ وہ سیرو تفریح کے لیے دبئی جاتے ہیں جہاں بڑے بڑے عظیم الشان شاپنگ مال ہیں۔ شاپنگ مال جتنا بھی عظیم الشان ہو اور بڑا ہو‘ ہوتا شاپنگ مال ہی ہے۔ ادب سے لے کر زبان تک‘ کلچر سے لے کر ثقافت تک اور لباس سے لے کر کھانوں تک ہماری ساری پگڈنڈیاں اُن شہراہوں سے ملتی ہیں جو وسط ایشیا واقع ہیں۔ سمرقند‘ بخارا‘ خیوا‘ ترمذ‘ قوقند‘ فرغانہ‘ خجند اور اندجان کے شہر‘ صرف شہر ہی نہیں عجائب گھر بھی ہیں۔ ایک ایک دیوار سے تاریخ کی شعائیں منعکس ہوتی ہیں‘ ایک ایک سنگ سے روایت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ یہ امام بخاری‘ امام ترمذی‘ حضرت بہاء الدین نقشبندی‘ البیرونی‘ بو علی سینا‘ الفارابی‘ موسیٰ خوارزمی‘ علی شیرنوائی‘ بابر‘ تیمور اور الغ بیگ کی سرزمین ہے۔ اسی خطے نے ہمیں بیدلؔ اور غالبؔ جیسے مشاہیر عطا کیے۔
آمدورفت کے ا خراجات معقول‘ کرنسی کا ریٹ حیرت انگیز حد تک سیاحوں کا طرفدار‘ ٹائم زون وہی جو ہمارا ہے‘ مگر ذہنی سطح شاپنگ مال سے اوپر نہ اُٹھ سکے تو وسط ایشیا‘ حلب‘ قاہرہ‘ استنبول‘ قرطبہ اور غرناطہ کا رُخ کون کرے! ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔