سازش اقتدار کی بہن ہے!
یہ دونوں بھائی بہن ہمیشہ مل جل کر رہتے ہیں۔ بھائی خطرے میں ہو تو بہن اس کی مدد کرتی ہے۔ بھائی کا جب بھی بس چلے، بہن کو چُپڑی دیتا ہے اور دو دو! اقتدار حاصل کرنے کے لیے سازش کو بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ پھر اقتدار اپنے آپ کو طول دینے کے لیے سازشوں کے جال بچھا دیتا ہے اور جب تک بس چلے، بچھاتا رہتا ہے۔
ساموگڑھ کی لڑائی میں اورنگ زیب اور مراد نے دارا کو مل کر شکست دی۔ کریڈٹ سارا اورنگ زیب کو مل رہا تھا۔ مراد کو کھٹکا لگ گیا۔ دہلی کی جانب بڑھے تو دونوں بھائیوں کی رفتار سست تھی۔ آگے آگے اورنگ زیب کی سپاہ۔ پیچھے پیچھے مراد کا لشکر، اس قدر سست رفتاری کہ متھرا پہنچنے میں بارہ دن لگ گئے۔ دونوں ایک دوسرے سے خائف۔ ایسے مواقع پر سازش ہمیشہ اقتدار کی مدد کرتی ہے۔ مراد شکار سے واپس اپنی لشکر گاہ کو جا رہا تھا کہ ایک مصاحب نے ’’تجویز‘‘ پیش کی کہ ساتھ ہی اورنگ زیب کا کیمپ ہے دو گھڑی وہاں رک جاتے ہیں۔ گپ شپ ہو جائے گی۔ اورنگ زیب نے چھوٹے بھائی کے مشاغل کا پاس کرتے ہوئے اس کا پسندیدہ مشروب پیش کرایا۔ مراد نیم مدہوش ہوا تو ساتھ والے خیمے میں آرام کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ خیمے میں ایک سیم تن زہرہ وش بھی جلوہ گر تھی! دوسرے دن سورج ابھی اپنی کرنیں زمین کی طرف بھیجنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ اورنگ زیب کے لشکر سے تین ہاتھی مختلف سمتوں کو روانہ ہوئے۔ ان کے کجاوے ڈھکے ہوئے تھے۔ جیسے شاہی حرم کے ہوتے تھے۔ کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ تینوں میں سے مراد کس پر سوار ہے۔ کسی نے چھڑانے کی کوشش بھی نہ کی۔ مراد کو رہائی اس وقت ملی جب کچھ عرصہ بعد گوالیار کے قلعے میں اس کی روح کو بدن سے رہائی ملی!
ایک برس پہلے اچانک یہ معاملہ ہرطرف کیوں پھیل گیا کہ سپہ سالار کو توسیع ملے گی یا نہیں؟ کیا کچھ حلقے مضطرب ہو رہے تھے؟ کیا توسیع کچھ سروں پر خوف کی تلوار بن کر لٹک رہی تھی؟ کیا سوشل میڈیا پر توسیع کی مہم خودبخود چل گئی؟ کیا کچھ خواب گاہوں میں نیند کی پری غمزہ وعشوہ نہیں دکھا رہی تھی؟ اطمینان حاصل کرنے کے لیے لازم تھا کہ یہ اونٹ درست کروٹ پر بیٹھ جائے؛ چنانچہ بیٹھ گیا۔ عسکری اطلاعات کے محکمے نے واشگاف اعلان کر دیا کہ توسیع کی ضرورت ہے نہ لی جائے گی۔ چلیے! مسئلہ حل ہو گیا۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ شاعر نے معشوق کو کہا تھا ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
مطلع صاف ہو گیا ہے۔ کالے بادل چھٹ گئے ہیں۔ اب دور دور تک پھول ہی پھول ہیں۔ خوش رنگ مناظر ہیں۔ سونا سی دھوپ پھیل گئی ہے سرخ پرندے باغ میں اڑتے پھرتے ہیں۔ سکون کی چادر تن گئی ہے۔ اطمینان نے دلوں کو آسودہ کر دیا ہے۔ ہرا ہی ہرا نظر آ رہا ہے۔ مگر کائنات کے اسرار عجیب و غریب ہیں۔ حافظ ظہور الحق ظہور کا شعر یاد آ رہا ہے ؎
کسی کو کیا خبر کیا کچھ چھپا ہے پردۂ شب میں
نہیں قدرت کے اسرارِ نہاں کا راز داں کوئی
پینتیس چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے، کالم نگار ایک بس میں بیٹھا راولپنڈی سے واہ جا رہا تھا۔ راستے میں بس رکی۔ ایک سفید ریش بزرگ سوار ہوئے اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہو گئے۔ سامنے ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے ایک اور نوجوان کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ تم کھڑے ہوجائو اور اپنی سیٹ باباجی کو دے دو! وہ شریف لڑکا فوراً اٹھا اور بابا جی کو بٹھا دیا۔ میں نے مسکراتے ہوئے نصیحت کرنے والے نوجوان سے پوچھا۔ آپ نے خود اپنی سیٹ کیوں نہ پیش کی؟ تا ہم اس نے تاثر یہ دیا کہ اسے سوال سمجھ میں نہیں آ رہا۔ سابق صدر سمیت ہر کوئی توسیع قبول نہ کرنے کے فیصلے کی تعریف کر رہا ہے۔ ہر طرف سے خراجِ تحسین پیش ہو رہا ہے۔ ’’فوج ملک کا ایک باوقار اور عظیم ادارہ ہے اور یہ بات بہت ہی بہتر ہے کہ کوئی ملازمت میں توسیع کی روایت کو نہ دہرائے‘‘ یہ وہ حضرات ہیں جو خود اپنی سیٹ پر بیٹھے ہیں، اور دوسروں کے ایثار پر خوش ہو رہے ہیں۔ مانا کہ فوج ایک عظیم اور اہم ادارہ ہے۔ مگر کیا سول سروس ایک عظیم اور اہم ادارہ نہیں؟ ان حضرات کا انپا کیا طرزِ عمل ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی محتسب کے آئینی منصب پر جو صاحب تشریف فرما ہیں ان کی عمر کیا ہو گی؟ 75 سے یقینا زیادہ بلکہ اسی کے لگ بھگ! وزیر اعظم کے دفتر میں جو ریٹائرڈ افسر اِس وقت پورے ملک کی افسر شاہی کو کنٹرول کر رہے ہیں انہیں ریٹائر ہوئے دس سال سے کم کیا ہوئے ہوں گے!
صدر جنرل پرویز مشرف نے جب سول کے اداروں کو ’’فوجیا‘‘ دیا تو سول سروس کے سب سے بڑے تربیتی ادارے، سٹاف کالج لاہور، پر بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل کو بٹھادیا۔ ایک اجلاس میں جہاں بہت سے سول سرونٹس موجود تھے، ان جرنیل صاحب نے پھبتی کسی کہ یہ کیسی سول سروس ہے، جہاں افسروں کو کہا جاتا ہے کہ جہاں تعیناتی کرانی ہے، وہاں سے کہلائو، یعنی کوئی وزیر یا سیکرٹری فرمائش کرے کہ فلاں نام کے افسر کو ہمارے ہاں تعینات کیجیے۔ جرنیل صاحب کو کون بتاتا کہ گیارہ سال جنرل ایوب خان کے، تین سال جنرل یحییٰ کے، پھر گیارہ سال جنرل ضیاء الحق کے اور پھر نو سال جنرل پرویز مشرف کے۔ یہ کل چونتیس برس بنتے ہیں، قیامِ پاکستان کے بعد اڑسٹھ برسوں میں سے پورا نصف عرصہ جرنیلوں کی حکومت رہی، تو پھر بیوروکریسی اگر کھنڈر بن کر رہ گئی ہے تو پچاس فی صد ذمہ داری ان جرنیلوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اس عرصہ میں برسرِ اقتدار رہے اور صرف برسرِ اقتدار نہیں رہے۔ کلی طور سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
فوج کا ادارہ کیوں باوقار ہے؟ اس کی ساکھ کیوں بہتر ہے؟ اس لیے نہیں کہ فوج کو فرشتے چلا رہے ہیں۔ فوج کو چلانے والے بھی پاکستانی ہیں۔ ایک بھائی فوج میں ہے تو دوسرا سول سروس میں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ سول سروس والے بھائی کو کہا جاتا ہے کہ تعیناتی کرانی ہے تو کہلوائو۔ پھر اس کی تعیناتی ہوتی ہے تو چار ماہ بعد یا ایک سال بعد یا چند ہفتوں بعد اسے اٹھا کر کہیں اور تعینات کر دیا جاتا ہے۔ گویا وہ لکڑی کا ایک بے جان ٹکڑا ہے۔ جہاں چاہیں رکھ دیں۔ فوجی افسروں کی تعیناتیاں فوج کے جس محکمے کی تحویل میں ہیں۔ اسے ملٹری سیکرٹری برانچ کہا جاتا ہے۔ ملٹری سیکرٹری کے پاس ایک کمپیوٹر پڑا ہے۔ اس میں ہر فوجی افسر کی ماضی کی تعیناتیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ روزِ اول سے لے کر آج تک پورا کیریئر سامنے پڑا ہے۔ اس کے مستقبل کی تعیناتیاں بھی واضح ہیں۔ اگر کمانڈ پوسٹ پر ہے تو آئندہ تعیناتی سٹاف پوسٹ پر ہو گی۔ ملک کے شمالی حصے میں ڈیوٹی دے رہا ہے تو آئندہ تعیناتی جنوبی حصے میں ہو گی۔ اِس وقت نان فیملی مقام پر تعینات ہے تو اس کے بعد اسے ایسی جگہ لگایا جائے گا جہاں وہ فیملی کو ساتھ رکھ سکے۔ کیا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس سول سروس کے ارکان کے متعلق یہ ساری معلومات موجود ہیں؟ کیا وہ بھی ایک بٹن دبا کر کسی پولیس افسر یا ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کے بارے میں مستقبل کے خطوط بتا سکتا ہے؟ یہاں تو اڑسٹھ سالوں میں یہی نہیں طے ہوا کہ مرکزی سیکرٹریٹ میں فیلڈ سے آنے والے کتنے آیا کریں گے اور کتنا عرصہ رہ کر واپس جائیں گے۔ بھارت میں یہ طے کر دیا گیا ہے کہ فیلڈ سے وفاق کے سیکرٹریٹ میں آ کر کتنے عرصہ کے لیے کام کرنا ہو گا۔
چار کام فوج میں ایسے ہو رہے ہیں جو سول سروس میں ہمارے سیاست دان خاص طور پر وہ سیاست دان جو حکومت میں ہوتے ہیں، نہیں کرنے دیتے۔ اول، فوجی افسر کو جہاں لگایا جاتا ہے، وہاں وہ مقررہ میعاد، دو سال یا تین سال پوری کرتا ہے۔ یہ بات اسے بھی معلوم ہے اور اس سے اوپر والوں کو بھی۔ دوم، تعیناتی کرنے والوں کے پاس ہر افسر کا کیریئر چارٹ موجود ہے جس میں اس کے پورے کیریئر کی منصوبہ بندی درج کی جاتی ہے۔ سوم، فوج میں ترقی(پروموشن) دینے کا ایک منظم طریقہ ہے جو نیچے سے شروع ہوتا ہے اور اوپر تک جاتا ہے۔ اس میں یونٹ سے لے کر ٹاپ تک تمام مراحل ایک طریقِ کار کے مطابق طے پاتے ہیں۔ چہارم، ان تعیناتیوں اور ترقیوں میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جاتی۔
آج فوج کے ادارے کی تعریف کرنے والے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ سول سروس کو کس طرح داشتہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں ایک سو ایک فیصد سفارش اور روابط پر ہوتی ہیں۔ کیریئر پلاننگ کا وجود ہی نہیں۔ کوئی ’’اپنا‘‘ ہے تو اس کا خیال رکھا جائے گا ورنہ وہ جانے اور اس کی قسمت! جنرل راحیل شریف کے فیصلے کو خراجِ تحسین وہ حضرات پیش کر رہے ہیں جو آدھی افسر شاہی کو توسیع کی تاروں سے نچاتے رہے ہیں اور نچا رہے ہیں! خوب! بہت خوب!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“