اکیسویں صدی کی دوسری ڈھائی اب ختم ہونے والی ہے اور اب انسانی شعور اور تہذیب ترقی میں ماضی سے بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔ مگر شاید انسان کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ وہ کتنی ترقی کرلے اور وہ جس عقیدے اور توہمات اور اس پر ایمان ہو اس پر یقین کامل اور انہیں درست مانتا ہے ۔ اس کے وہ عقائد اور توہمات جو کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں مگر وہ انہیں اپنی نجات کا حصول جانتا ہے ۔ ان غلط عقائد اور توہمات پر چلنے والے کچھ لوگ انجانی شیطانی طاقتوں کو بھی مانتے ہیں اور ان کی رضا جوئی کو اپنی خیر و عافیت کا ذریعہ جانتے ہیں۔ انہیں خوش کرنے اور رضا جوئی کے لیے مختلف جانوں کی قربانی دینا ایک پسندیدہ اور اعلیٰ فعل مانا جاتا رہا ہے۔ ان سب سے اہم قربانی انسان کی ہے جو مقاصد کے حصول اور رضا جوئی کے لیے ایک نہایت اعلیٰ قربانی ہے ۔ یہ قربانی پیش کرنے کا مقصد نہ صرف اعلی الوہی طاقتوں کی رضا جوئی بلکہ مقاصد کا حصول بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ یہ قربانیاں جو کہ دور وحشت کی یادگار ہیں اور اکثر مختلف شیطانی طاقتوں کو خوش اور مقاصد کے حصول کے لیے پیش کی جاتی رہیں ہیں۔ قدیم دور میں اگرچہ انسانی قربانیاں عام تھیں اور ہر قوم ان پر عمل پیرا تھی۔ تہذیب اور شعور نے ان انسانی قربانیوں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ان سے جھٹکارا بہت حد تک حاصل کرلیا ہے ۔ انسان اب دور وحشت کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے اور ایسی قربانیاں یا بھینٹیں اب معیوب ہوچکی ہیں ۔ مگر اب بھی ان قربانیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ یہ قربانی رضاجوئی کے علاوہ اپنے مقاصد یا تمناؤں کی تکمیل کے لیے بدی کی شیطانی طاقتوں کے آگے پیشی کی جاتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں اگرچہ ایسی قربانیوں کا رواج نہیں رہا ہے ۔ تاہم کبھی کبھار انسانی قربانیوں کی خبر اخباروں کی زینت بنتی ہے ۔ مگر بھارت میں اب بھی اکثر انسانی قربانیوں باز گشت سنائی دیتی ہے ۔
گو بھارت میں انسانی قربانیوں یا بھینٹ کا رواج نیا نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ کالی کا ایک روپ بھوانی ہے اس کی رضا کے لیے انسانی بھینٹیں پیش کرنا پہلے عام تھا ۔ ان میں دوسرے انسانوں کی بھینٹوں کے علاوہ عقید مند خود اپنے کو بلی چڑھاتے تھے اور قدیم مسلم سیاحوں نے اکثر اس کا ذکر کیا ہے ۔ اب انسانوں کی جگہ بکرے بھینس اور دوسرے جانوروں کی بھینٹیں ہونے لگی ہیں ۔ مگر بھارت میں یہ قربانیاں ختم نہیں ہوئی ہیں اب بھی انسانی قربانیوں کے واقعات اکا دکا منظر عام پر آتے رہتے ہیں ۔
انیسویں صدی کے آخر تک بھارت میں انسانی قربانیاں عام تھیں خاص کر بنگال اور اڑیسہ کے کھونڈوں یا کھانڈوں میں ، جو دراوڑی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں انسانی قربانیاں عام تھیں ۔ کھونڈ جو کہ انسانوں کو قربان کیا کرتے تھے اس کے بارے میں برطانوی احکام نے تفصیل سے لکھا ہے ۔ جنہوں نے بڑی جدو جہد کے بعد اس خونی رسم کا صدباب کیا ۔
کھونڈوں کے عقیدے کے مطابق یہ قربانی دھرتی دیوی تاری پینوں یا بیرا پنیوں کو دی جاتی تھی ۔ جس کے نتیجے میں ان کی فضلیں اچھی ہوتی تھیں اور وہ حوادث سے محفوظ رہتے تھے ۔ ان کے عقیدے کے مطابق قربانی کے آدمی میں ایسا جوہر ہوتا ہے جو فضوں کی نشو و نما بڑھاتا ہے ۔ یعنی اس میں زمین ذرخیز کرنے کی طبعی و سحری قوت ہوتی ہے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس قربانی کے بغیر ہلدی میں گہری سرخی نہیں آتی تھی اور اس طرح کی قوت اس کے آنسوں سے منسوب کی جاتی ہے جو بھینٹ ہونے والے انسان کی آنکھوں سے نکلتے تھے ۔ ان کے عقیدے کے مطابق بھینٹ چڑھنے والے انسان کے آنسوں کی بدولت بارش ہوتی ہے اور اس کے لہو سے ہلدی میں سرخی آتی ہے ۔
بھینٹ کا انسان اسی صورت میں قابل قبول ہوتا تھا جب کہ اسے خریدا گیا ہو یا پھر قربانی کے لیے پیدا ہوا ہو ۔ یعنی اس کے ماں باپ کی بھی قربانی دی جا چکی ہو یا اس کے ماں باپ اسے قربانی کے لیے وقف کرچکے ہوں ۔ مصیبت کے مارے اکثر کھونڈ اپنے بچے قربانی کے لیے فروخت کردیا کرتے تھے ۔ ان کا خیال تھا اس طرح انہیں روحانی سعادت نصیب ہوگی اور بنی و نوح انسانی کی بھلائی کی لیے یہ بھینٹ نہایت ضروری ہے اور اس کی اولاد کی بھینٹ نہایت اعلیٰ بھینٹ ہے ۔
ایک کھونڈ کو دوسرے کھونڈ نے لعنت ملامت کی کہ اس اپنی لڑکی کو جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے بھینٹ کے لیے فروخت کردیا اور اس کے منہ پر تھوک دیا ۔ کھونڈوں کا دوسرا گروہ جو یہ تماشاہ دیکھ رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر اسے تسلی دی کہ تمہاری بچی نے اس لیے بھینٹ دی کہ دنیا سلامت رہے ۔ دھرتی دیوی خود تمہارے چہرے کا تھوک صاف کرے گی ۔
بھینٹ کا انسان برسوں پہلے یا کم عمر خریدے جاتے تھے اور یہ میریہ کہلاتے تھے ۔ جب میریہ جوان ہوتے تو اسے ایک بیوی مل جاتی تھی جو کہ خود بھی میریہ یا بھینٹ کے لیے ہوتی تھی ۔ اس بیوی کے ساتھ اسے زمین کا ایک ٹکرا اور کھتی باڑی کا سامان بھی دیا جاتا تھا ۔ اس جوڑے کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ بھی دیوی پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی ۔
میریہ کی بھینٹ مقررہ یا معیادی تہواروں اور غیر معمولی موقعوں اور تقریبات دھرتی دیوی کو دی جاتی تھی ۔ اس کا طریقہ کار اس طرح ہوتا تھا کہ ہر خاندان کو سال میں کم از کم ایک مرتبہ فضلوں کی بوائی ہو تو کھیتوں کے لیے قربانی کے گوشت کا ایک ٹکرا میسر آجائے ۔
میریہ کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے ، مگر قربانی سے دس دن قبل اس کے بال کاٹ کر دیوی کی نذر کئے جاتے تھے ۔ قربان کئے جانے والے میریہ کو دیکھنے کے مرد و عورت جوق در جوق آتے تھے ۔ انہیں روکا نہیں جاتا تھا ۔ کیوں کہ قربانی اعلیٰ اعلان کیا جاتا تھا کہ یہ قربانی انسانی فلاح و بہبود کے لیے ہے ۔ اس موقع پر جشن اور فحاشیوں کے کھل کر مظاہرے کئے جاتے تھے ۔ جب قربانی میں ایک دن رہ جاتا تو میریہ کو نیا لباس پہنایا جاتا تھا اور ساتھ رنگ رلیاں مسلسل منائی جاتی تھیں ۔ جو دوسرے دن دوپہر تک جاری رہتی تھیں ۔ پھر قربانی کی آخری رسوم کی تیاریاں ہوتی تھیں اور قربان کئے جانے والے کی ارسر نو آرائش ہوتی تھی اور ہر شخص اسے چھو کر اس کا پس ماندہ تیل اپنے سر پر ملتا تھا ۔
بعض مقامات پر میریہ کو جلوس کی صورت میں گھر گھر لے جاتے ۔ وہاں اس کے کچھ بال اکھاڑتے اور اس کا تھوک اپنے بدن پر ملتے ۔ پھر باضابطہ ایک جلوس کی شکل میں رقص و سرور کے ساتھ ایک شجرذار میں پہنچتے ۔ جو عموماً گاؤں سے کچھ فاصلے پر بلند و بالا درختوں کے جھنڈ پر مشتمل ہوتا تھا ۔ جس پر کلہاڑی نہیں لگی ہو ۔ یہاں پر لوگ اسے کھمبے سے باندھ دیتے ۔ پھر اس کے بدن پر گھی ، نیل اور ہلدی ملتے اور اس کو پھولوں کے ہار پہناتے تھے ۔
میریہ کا جو احترام کیا جاتا تھا وہ پرستش سے کم نہیں ہوتا تھا ۔ اس کے بدن پر لگی ہلدی ، گھی ، نیل اور اس کا تھوک بڑا متبرک سمجھا جاتا تھا ۔ خاص کر عورتوں میں اس کے لیے سخت کھنچا تانی ہوا کرتی تھی ۔ مجموع رقص کے ساتھ قربانی کے کھمبے کے گرد رقص کرتا اور زمین کو مخاطب کرکے گاتا جاتا ۔ اے معبود ہم تجھے یہ قربانی دیتے ہیں ، ہم اچھی فضلیں ، ساز گار موسم اور تندروستی عطا کر ۔ پھر قربان ہونے والے میریہ سے کہا جاتا ہے ، ہم نے تجھے خریدا ہے پکڑ کر نہیں لائے ہیں اب ہم تمہیں اپنے دستور کے مطابق قربان کرتے ہیں جس کا گناہ ہم پر نہیں ہے ۔ (جاری)
میریہ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اسے باندھا جائے اور اس کی مزاحمت بھی جائز نہیں ہے ۔ اس لیے اکثر اس کے بازو اور ٹانگیں ٹور دی جاتی تھیں یا اس کو افیم کھلا کر مدہوش کردیتے تھے ۔
مختلف مقامات پر قربانی کے مختلف طریقے رائج تھے ۔ لیکن جو طریقہ عام طور پر استعمال کیا جاتا تھا اس میں گلا گھنٹ کر یا بھینج کر مارا جاتا تھا ۔ اس کے لیے ایک بڑے درخت کی موٹی شاخ کو بیچ میں چیر کر ایک لمبا شگاف بنالیتے تھے اور اس شگاف میں گردن اور بعض مقامات پر سینہ کو پجاری اپنے مدد گاروں کی مدد سے دبا دیتے تھے ۔ اس کے بعد پجاری اس کے بدن میں ایک کے بدن میں ایک خفیف سا گھاؤ لگاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی سارا ہجوم اس بدنصیب پر ٹوٹ پڑتا اور ہڈیوں تک سے اس کا گوشت نکل لیا جاتا تھا ۔ صرف سر کو چھوڑ دیا جاتا تھا ۔
بعض مقامات پر زندہ انسان کی تکا بوٹی کردی جاتی تھی اور اس کو کھیتون کے کنارے کنارے گھسیٹا جاتا تھا ۔ جو لوگ اس کے اطراف میں جمع ہوتے تھے وہ اس کی سر انٹریوں کو بچاتے ہوئے اس کے جسم کا گوشت کاٹتے ، یہاں تک اس کا دم نکل جاتا تھا ۔
قو قربانی کا ایک طریقہ اور یہ تھا کہ ایک چوبی ہاتھی کی سونڈ سے میریہ کو باندھ دیا جاتا تھا جو ایک مظبوط بلی میں گردش کرتی رہتی تھی اور ہجوم اس گھومتی بلی سے اس کے گوشت کے ٹکڑے کاٹتا رہتا تھا ۔ یہاں تک اس بدنصیب کی جان نکل جاتی تھی ۔ میجر کیبل کو بعض گاؤں میں ایسے چودہ ہاتھی ملے جو قربانی کے لیے استعمال ہوچکے تھے ۔
ایک اور علاقہ میں بھینٹ کے انسان کو آگ میں تپا کر آہستہ آہستہ مارنے کا دستور تھا ۔ اس کے لیے ایک خاص چبوترہ تیار کیا جاتا تھا ۔ جو دونوں طرف کسی مکان کی ڈھلان کی طرح ہوتا تھا ۔ اس پر میریہ کو لٹا کر اس کے ہاتھ پاؤں دوڑی سے کس کر باندھ دیا جاتا تھا کہ ترپنے نہ پائے اور چبوترکے کے نیچے آگ جلادی جاتی تھی ۔ اس کے بدن پر چرکے لگا دیئے جاتے تھے اور کوشش ہوتی تھی کہ اس کی جان دیر سے نکلے ۔ تاکہ اس کے زیادہ سے زیادہ آنسو بہیں اور جتنے آنسو بہیں گے اتنی ہی زیادہ بارش ہوگی ۔ پھر اگلے دن اس کی لاش کے ٹکڑے کرکے لوگ باٹ لیا کرتے تھے ۔
بھینٹ کے بعد جو گوشت کاٹا جاتا تھا اسے فوراً دوسرے علاقوں میں پہنچانے کا خاص انتظامات ہوتے تھے ۔ اس کے خاص طور پر ہر گاؤں کی جانب سے آدمی مقرر ہوتے تھے ۔ جو قربانی کا گوشت پہنچانے کے لیے تیزی سے پچاس ساتھ میل کا فاصلہ ایک دن میں طہ کرلیتے تھے ۔
گاؤں میں رہنے والے قربانی کا گوشت آنے تک روزہ رکھتے تھے اور گوشت لانے والا شخص اس گوشت کو گاؤں کی چوپال میں جاکر رکھ دیتا ۔ جہاں پجاری اور خاندانوں کے سربراہ اسے وصول کرتے تھے ۔ پچاری گوشت کے دو حصہ کرتا ۔ ایک حصہ دھرتی دیوی کی
نذر کے لیے دیکھے بغیر پشت پر بنے ہوئے گڑھے میں دفن کرتا تھا ۔ پھر ہر شخص اسے مٹی دیتا تھا اور پجاری اس پر پانی ڈالتا تھا ۔
گوشت کے دوسرے حصہ کو گاؤں کے خاندانوں کے سربراہوں میں تقسیم کر دیتا تھا ۔ ہر گھرانے کا سربراہ اپنے حصہ کا گوشت کا ٹکرا لے کر اسے پتوں میں لپیٹ کر اس کو اپنے کھیت کے پسندیدہ حصہ میں دیکھے اپنی پیٹھ کے پیچھے دیکھے بغیر دفنا دیتا تھا ۔
بعض مقامات پر گوشت کو اس ندی پر پہنچایا جاتا تھا جو کھیت کو سیراب کرتی تھی ۔ وہاں اسے ایک بانس پر ٹانگ دیتا تھا ۔ اس بھنیٹ کے تین دن تک گاؤں میں نہ آگ جلائی جاتی اور نہ جھاڑو دی جاتی تھی ۔ اس دوران لکڑی کاٹنا ، مہمانوں کو بلانا اور دوسرے تمام کام ممنوع تھے ۔ اس دوران گاؤں میں خاموشی چھائی رہتی تھی ۔
برطانوی احکام کی سر ٹور کوشش کے بعد انسانی بھنیٹوں کی روک تھام کی اور انسانی بھنیٹوں کی جگہ جانورں کی قربانیاں ہونے لگیں ۔ ان میں بکری ، بھینس اور سور شامل تھے ۔ مگر زیادہ تر قربانیاں بھینسوں کی ہوتی تھیں ۔
بھینس یا بھینسے کو لے جاکر کسی متبرک مقام پر باندھ کر اس کے گرد دیوانہ وار رقص کرتے ہیں ۔ پھر اس زندہ جانور پر ٹوٹ پرتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پرکھچے اڑا دیا کرتے تھے ۔ اس کی ایک ایک بوٹی کے لیے بڑی کھینچا تانی ہوتی تھی اور جوں ہی کسی شخص کے ہاتھ میں گوشت کا کوئی ٹکرا لگتا تھا وہ اس کو لے کر تیزی سے بھاگتا ہے ۔ کیوں کہ سورج ڈوبنے سے پہلے اسے کسی کھیت میں دفنانا ضروری ہے ۔ قربان گاہ سے بھاگتے ہوئے آدمیوں کو عورتیں تاک تاک کر پتھر مارتی تھیں ۔
قربانی کے بعد مقدس شجرزار جہاں ہنگامہ گرم تھا سنسان ہوجاتا ہے ۔ صرف چند لوگ بچے کھچے حصے یعنی سر ، ہڈیوں اور انٹریوں کی حفاظت کے لیے رہ جاتے ہیں ۔ رات بھر اس کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ اگلی صبح انہیں ایک سالم بھیڑ کے ساتھ چٹا پر رکھ کر جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ کھیتوں میں بکھیر دی جاتی ہے یا اناج کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس میں ملا دی جاتی ہے ۔ بعض صورتوں میں سر اور ہڈیوں کو دفنا دیا جاتا ہے .
کھونڈوں کی متذکرہ قربانیوں کو برطانوی احکام نے ایسی قربانی قرار دیا جو کہ دھرتی دیوں ماں کی رضا جوئی کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ لیکن قربانی کے انسان کے ساتھ مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد جو اس کے ساتھ سلوک ہوتا ہے اس کی بناء پر رضا جوئی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ قربانی کے انسان کو برسوں رکھا جاتا ہے اور اس کی ذات کو متبرک سمجھا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ نہایت محبت اور عقیدت کیا جاتا
تھا ۔ اس کے ساتھ ملتے جلتے وقت اس کا ادب ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔ وہ کہیں جاتا تھا اس کی بڑی آؤ بھگت کی جاتی تھی اور مرنے کے بعد جو سلوک ہوتا ہے اور اس کے جزو بدن کے ساتھ جو احترام ہوتا ہے یہ ایسی بھینٹ نہیں جو دھرتی ماتا کو راضی کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہے ۔ بلکہ اس کا احترام بتاتا ہے کہ وہ بہت کچھ ہوتا ہے ۔ بقول میجر میک فرنس کے اس کا جو احترم ہوتا ہے وہ پرستش سے تمیز نہیں کیا جاسکتا ہے اور میجر کمبل کا کہنا ہے کہ میریہ کی ذات عام انسانوں سے کہیں برتر ہوتی ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ میریہ کی ذات ایک ہستی الوہی سے عبارت تھی ۔