"خونچکاں لمحوں کے گواچن ہستی ۔۔۔۔۔۔۔۔ارون دھتی رائے"
آج ہماری اِس ذہنی اوطاق میں شیرزال ارون دھتی رائے کی آمد کیا ہوئی کہ لفظ و معنی کے چراغ کردار سروپ روشن ہوئے تو میں نے موقع کی مناسبت سے یہ سوچا کہ کیوں نہ ان سے بات کریں ویسے بھی مرورِ زمانہ ان معاملات پر بھلا کون سر کھپاتا ہے ہر کسی کو اپنی پڑی ہے اور خود کی تشفی تلاشنے میں مگن ہے لیکن اِس پل کو معتبر بناتے ہوئے ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے اور کچھ ان سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جانے وہ کس طرح ہماری اس کرب و بلا ایسی دُنیا کو دیکھنے کا زاویہ بنتی ہین ۔پچھلے دِنوں کشمیر کے مسئلے پر ان کی رائے کو لے کے بی جے پی کے ایم پی اور معروف اداکار پاریش راول جل بھن کر انہیں فوجی گاڑی سے باندھنے کی بابت اپنی بوکھلاہٹ ظاہر کی تو اس بات پر اندازہ لگائیں۔ جب وہ بلوچستان کے مسئلے پر یہی کچھ کہہ جائیں تو ان کے خلاف لاہور میں جلوس اور ریلی کا منظر ملاحظہ کریں اگر غلطی سے یہاں رہ رہی ہوتی تو اگلے دن لاپتہ کے فہرست میں شامل ہوچکی ہوتی ۔چونکہ یہ زمانہ بازار کرن ہے اور مقتدرہ کو اس عمل میں بھی دانا پانی دکھائی دے گا اور اس مین انسانی وجود، احساس، فکر اور نعرے کی افادیت کو بازار کی نذر ہوتے ہوئے دیکھنے کی وجہ سے بہتوں کی حالت ازیت کوش ہے اور اس بابت ہماری رائے کی کیا نوعیت رہے گی جس طرح لوگ بیٹھ کے باتوں کے طوطے مینا اڑانے کا شغل فرما رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی تشخیص پر کون بات کرے تو کیونکر اور کیسے کریں ۔جبکہ لوگ اپنے ہونے کا احساس لیے لڑنے کی حکمت بھی نہ جان پائے ۔جس کو مزید ہماری اس دُنیا کی رد تشکیل شدہ لغت نے لفظوں کے معنی بھی بدل کے رکھ دیئے اور ان کا تعین بھی طرزِ دیگر کی صورت ہو رہی ہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنے نوم چومسکی نے عصرِ حاضر میں علم کی معنویت پر طاقت کے تصور کو بنیادی حوالے سے تعبیر کیا کہ لفظ کی افادیت و معنویت اب کے طاقت ہی کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے ساتھ کچھ ایسے نتھی ہو کے رہ گئی کہ اس تناظر میں فسطائیت کے حامل ذہنیت ہی اس کی تعینِ قدر کرنے۔والے محرک وجود بن گئے ۔جس طرح نئے ہزاریے کا اشاریہ سلطنت آف امریکہ نے اپنے ذمہ لے کر مزید رگیدنے کے لیے چل نکلا اور اس کام کے لیے اپنے ماہرینِ علم، ادب، سماجیات اور سیاسیات ہی کو سر کھپانے کے لیے قلم قبیلہ سپرد کیا تاکہ انسانی وجود میں جو بچی کچھی طاقت رہ گئی ہے اس کو بھی زندہ درگور کرنے اور مارکیٹ کے لیے شئے کی صورت بروئے کار لانے میں کوئی توجیل وضع کریں ۔سو آج اس مسافرت کوچاچا سام نے عراق کی تباہ شدہ الف لیلوی زندگی کو اپنی صورتِ بے صورتی میں منتقل کیا کہ کس طرح ایک سلطنت نے زندگی کے آثار کا خاتمہ کرکے رکھ دیا ۔جس کو کبھی اہل دانش عراق یعنی علومِ انسانی کی اوریجن کے طور پر تعبیر کیا کرتے تھے اب کے محض لاشوں کا ایک مدفن ہو کے رہ گیا ۔
ہم نے حکومتیں بھی دیکھیں اور اس کے بے چہرہ سیاست کار بھی، جو سلطنت کے پیادے و سوار بن کر عوام کو لوٹنے کا قرینہ تلاش کیا کرتے ہیں۔تاکہ لوگوں کے چہروں پر زندگی کے آثار کو بھی منہا کریں۔جس طرح خود ساختہ بحران بھی اہلِ اقتدار کے لیے فائدے کا باعث بنتی ہیں اور جنگیں بھی مارکیٹ میں اچھال لانے میں محرک کا کردار ادا کرتی ہیں اور اسی بنیاد پر ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں مال کو بازار کر نے کے لیے صورت وضع ہوتی رہی ہے چہ جائے کہ اس بیچ ایک بھی انسان نہ رہے۔جہاں کبھی دائیں بائیں کا سفر ہوا کرتا تھا اب کے اس میں ایک عجیب قسم کا معجون تیار ہوگیا کہ اس سلسلے میں نیو لبرل اور نیو کانز نے اپنے پدر سری ایکتاپن کو صورت پزیر کرتے ہوئے اپنے اپنے سطح پر چورن بیچنے کا اچھا سلیقہ تلاش لیا جس میں سب کچھ کہنا جائز ہے لیکن استعمارکار اور اس کے ٹینٹکلز کی بابت کچھ بھی نہیں کہنا شرط ہے لیکن ارون دھتی رائے ایسی کارست یہ سب کہہ جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ اشاریے بھی پڑھ جاہیئے تاکہ آپ بھی اس چشم کشا سفر میں یہ سب حِس و نظر کے ساتھ ملاحظہ کرتے رہیں اور اس خاکسار نے جو چند ایک پہلو مقتبس کیں۔تاکہ فکر و نظر کے در وا ہوں۔اور یہ سب پڑھتے ہوئے ذرا پھر سے اُس نگری کی اور چلیں جہاں کبھی اس بیانیہ نے نئے پر پُرزے نکالے۔ تاکہ آپ بھی اس صورتحال کا برتر تجزیہ کر سکیں کہ اِس کارست نے عصرِ حاضر کو عدسے میں رکھ کر کونسی صورت منعکس کرنے کی سعی کی ۔تو یہ سب اسی اشاریے کے جِلو میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں جس طرح ہماری خونچکاں تاریخ میں 90ء کی دہائی بھی خاصی ازیت کوش رہی۔ اس میں ایک بظاہر عوام پرور بباطن اسٹالن کی جبریت سرشت سوچ کے حامل سوشلسٹ بلاک کا انہدام ہواتو اس کے ساتھ ہی"1991ء میں صدر جارج بش سنیئر نے عراق پر "آپریشن ڈیزرٹ سٹارم" مسلط کردیا ۔ہزاروں عراقی، جنگ میں مارے گئے۔عراقی کھیتوں پر 300ٹن سے زیادہ تخفیف شدہ یورینیم برسائی گئی۔نتجیتاً، بچوں میں کینسر کا مرض 4گنا ہوگیا۔13برس سے 2کروڈ 40لاکھ عراقی عوام، جنگ سے متاثرہ علاقے میں رہ رہے ہیں۔اُنہیں ادویات اور صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔2004ء میں امریکی صدارتی انتخابات کی رونق، چہل پہل بلکہ جنون کو دیکھتے ہوئے یاد رکھیں کہ وائٹ ہاوس میں ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، ظلم کی شرع میں کمی نہیں آتی۔آپریشن شاک اینڈ آہ کے بعد لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے دوران 5لاکھ عراقی بچے لقمہء اجل بن گئے۔عراق میں مرنے والے امریکی فوجیوں کا ریکارڈ تو موجود ہے لیکن یہ اندازہ کرنا ممکن نہیں کہ عراقی کتنی تعداد میں مارے گئے ۔امریکی جرنیل ٹومی فرینکس نے کہا، "ہم مردہ جسموں کی گنتی نہیں کرتے،" (مطلب یہ کہ مرنے والے عراقیوں کی گنتی نہیں کرتے) وہ ساتھ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ "ہم جنیوا کنونشن کو بھی کسی شمار میں نہیں لاتے"
خون کے اُس غسل کا تیکنیکی نام ہے "نپی تلی بمباری " جبکہ عام زبان میں اسے "بے جا سفاک خون ریزی "کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔"اور ِبحران میں اپنے ہونے کا جواز تلاشنے والی حکومت کے بھی یہ چمتکاری چلن دیکھیں جیسے "حکومتیں، بحرانوں کے انتظار کا فن جان چکی ہیں۔مزاحمتی تحریکیں بحرانوں کے پیداکردہ گرداب میں تیزی سے پھنس رہی ہین اور چاہتی ہین کہ انہین بحرانوں کو خود تیار کرنے کے طریقوں کا علم ہو جائے۔وہ ایسے بحران تیار کرسکیں۔جنہیں صارفین بآسانی ہضم کر لیں اور تماشائی بھی انہین دیکھ کر بیزار نہ ہون۔عزتِ نفس کی حامل ہر تحریک سے توقع کی جاتی ہے کہ گرم ہوا سے بھرا ہوا ایک عدد غبارہ اس کی اپنی ملکیت ہو، جو فضا میں جا کر اس کی برانڈ اور مقصد کی تشہیر کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ان کروڈوں لوگوں کی نسبت جو ناقص خوراک استعمال کر رہے ہین۔فاقہ زدگی کے نتیجے مین ہونے والی اموات، مفلسی کی تشہیر کا موئثر ذریعہ ہین۔ڈیموں کی تعمیر کے نتیجے مین ہونے والی تباہی جب تک کسی دستاویز فلم کا پیٹ نہ بھر سکے۔اسے خبر کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔اور اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔" اور ان کے ساتھ کاندھا سرشت کرداروں نے بھی اپنی معنویت اِس سلطنت کے ہوتے ڈھونڈھ نکالی اور خوب نکالی تو اس بابت ان کے ذہنی معروضات نے ایک ایسی انتشار سرشت معاشرت کی تشکیل میں اپنے لفظوں کے جِلو میں معاونت کے پہلو وضع کئے اور برخود غلط لکیر کھینچ دی
"گروہی فسطائیت اور نوآزاد خیالی new liberalism کا اصل اور حقیقی ہدف، غریب اور اقلیتی طبقات ہیں) جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مفلس تر اور قلاش تر ہوتے جا رہے ہیں(نو آزاد خیالی، امیر و غریب اور چمک دار بھارت اور بھارت کے درمیان ایک گہرا اور مسقتل خطِ امتیاز کھینچ دیتی ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے یہ جھوٹا تاثر دینا ایک لغو خیال بن جاتا ہے کہ وہ امیر اور غریب دونوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے کیونکہ ان ہر دو طبقات کی قیمت پر ہی کی جا سکتی ۔ایک دولت مند اور متمول بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے) اگر مین ان کے پیچھے چلوں تو) میرے. مفادات اور آندراپردیش کے کسی غریب کسان کے مفادات ایک جیسے نہین ہو سکین گے۔"
تو مترو زندگی میں دنوں کی افادیت استعمارکاری کا بین الاقوامی کیچن اقوامِ متحدہ نے تو غارت کرتے ہوئے اُن دنوں کے اندر سے مزاحم جوہر نکال باہر کئے تاکہ لوگوں کے لیے محض کھیلنے کا ساماں رہیں اور زندگی انسانی آزار کے احساس سے منہا ہو کے رہ جائے ۔لیکن یہ طرزِ احساس تو انسانی تاریخ میں قطعی طور پر قابلِ اعتبار اور جینے لائق تصور نہیں کی جائے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“