چمگادڑ: Bats
ایک پھول دو مالی۔
آج چمگادڑوں کے بارے میں دلچسپ معلومات دیتے ہیں۔ اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد آپ کو اس جانور سے پیار ہوجائے گا اور معلوم ہوگا کہ رحمان کی کوئی بھی کاریگری بیکار نہیں۔
۰ یہ عجیب و غریب اور پراسرار ڈرائونا جانور دراصل اپنے بچوں کو دودھ پلاتا ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں کو سائنس ممالیہ( mammals )جانور کہتی ہے۔ چمگادڑ انڈے نہیں بلکہ بچے دیتے ہیں اور ان کی آبادی بڑھانے کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اوسطاً سال میں چمگادڑ ایک ہی بچہ دیتی ہے۔
۰ چمگادڑ تین طرح کے ہیں۔ پھل کھانے والے اور پھولوں کا رس چوسنے والے یعنی سبزی خور، کیڑے اور مچھلی و ننھے جانور کھانے والے، اور زندہ چیزوں کا خون چوسنے والے۔ گھبرائیے مت! خون چوسنے والے چمگادڑ کی صرف تین نسلیں ہیں اور وہ بھی براعظم جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ فروٹ کھانے والے چمگادڑ کی تقریباً 200 نسلیں ہیں جبکہ کیڑے خور چمگادڑ تمام چمگادڑوں کا 70% ہیں۔ اس طرح کل ملا کر چمگادڑوں کی تقریباً 1441 نسلیں اب تک دریافت ہوچکی ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ تمام ممالیہ جانوروں میں سے ہر پانچواں جانور چمگادڑ ہے۔ چمگادڑوں کا خاندان ممالیہ جانوروں کا دوسرا بڑا خاندان ہے جبکہ پہلا بڑا خاندان چوہا خاندان ( Rodent Family) ہے۔ سائنس نے چمگادڑوں کے ان تمام خاندانوں کو ایک آر ڈر میں رکھ دیا ہے جس کا نام ہے chiropetra (جیسے کلوپیٹرا ).
۰چمگادڑ ایسی جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں جو انتہائی تاریک، چھپی ہوئی ہوں، روشنی کم آتی ہو۔ اسی لئیے غاریں، پل کے نیچے سوراخوں میں، گھروں کئ چھتوں کے سوراخوں میں رہتے ہیں۔ بہت سارے چمگادڑ خصوصاً پھل نوش درختوں سے لٹک کر کام چلاتے ہیں۔ یوں تو یہ ٹراپیکل علاقوں (زمین کے درمیانی علاقے) کا خصوصی جانور ہیں لیکن ساری دنیا میں ہی انکی نسلیں آباد ہیں۔ پاکستان میں انکی 52 نسلیں دریافت ہوئی ہیں۔ یہ انتہائی سرد برفانی علاقوں مثلاً انٹارکٹکا میں نہیں پائے جاتے۔
۰ فروٹ کھانے والے چمگادڑ دراصل سب سے بڑی نسل کے چمگادڑ ہیں اور جتنے یہ بڑے اور دیکھنے میں خطرناک ہیں اتنا ہی یہ انسانوں سے بھاگتے ہیں۔ دراصل انہیں صرف فروٹ کھانے سے غرض ہے۔ کہتے ہیں اگر چمگادڑوں کو مار ڈالیں تو دنیا سے چاکلیٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ جی ہاں! چاکلیٹ دراصل ایک پھل کوکوا کے بیج سے بنتی ہے۔ اس درخت کے پھولوں کو فروٹ چمگادڑ پولینیٹ کرتے ہیں۔ نہ صرف چاکلیٹ بلکہ کاجو، آم اور کیلا بھی نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان سب درختوں کے پھولوں کی پولینشن فروٹ چمگادڑوں پر منحصر ہوتی ہے۔
۰ خون چوسنے والے چمگادڑ ، دراصل گھریلو مویشیوں کا خون چوستے ہیں۔ انسانوں کا خون چوسنا انکے Menu میں نہیں ہوتا یہاں تک کہ کوئی مویشیوں کے ساتھ سوجائے . انکا منہ اور زبان معدہ خصوصاً اس کام کے لئیے بنے ہیں۔ یہ اگر سوئے انسان سے گھنٹوں خون چوستے رہیں۔ اسے بالکل بھی پتہ نہیں چلے گا۔ یہ کرتے کیا ہیں جلد پہ انتہائی باریک کٹ لگاتے ہیں جہاں سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔ اوپر یہ اپنی زبان رکھ دیتے ہیں۔ زبان میں لمبے لمبے پائیپ جیسے چھوٹے گڑھے بنے ہوئے ہیں جو خون اوپر کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ ساتھ میں اسے پتہ ہے خون میں موجود پلیٹ لیٹس کی وجہ سے زخم فٹافٹ جم جاتا ہے۔ تو یہ اپنا تھوک زخم میں شامل کرتا رہتا ہے تاکہ خون پتلا رہے۔ اسکا معدہ خون سے صرف سرخ بلڈ سیلز ہضم کرتا ہے اور باقی مواد باہر نکال دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے چمگادڑ صرف براعظم جنوبی امریکہ میں ہوتے ہیں۔
• کیڑے مکوڑے اور ننھے جانور کھانے والا چمگادڑ، دراصل یہ ہے اصلی چمگادڑ جو ہمیں سرعام نظر آتا ہے۔ انکی سب سے زیادہ نسلیں دنیا بھر میں آباد ہیں۔یہ کیڑے کھاتا ہے، بےشمار کھاتا ہے۔ اتنے کہ ایک عام چمگادڑ 600 سے 1000 مچھر ایک گھنٹے میں چٹ کر جاتا ہے۔ اگر ساری رات اڑتا رہے تو سوچیں کتنے کھا جائے گا۔ یہ اپنے جسم کے وزن کے تقریباً 50% کے برابر کیڑے کھاجاتا ہے۔ ہر قسم کے کیڑے جناب عالی۔ فصلوں سے ایسے انکی صفائی کرتا ہے جیسے کسی نے نوکری پر رکھا ہو۔ امریکہ میں بڑے بڑے فارموں والے کسان۔ اسپرے کرنے کی بجائے چمگادڑوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق 23 بلین ڈالر بچاتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں نقصان دہ کیڑے اور مچھر زیادہ ہوگئے ہیں تو اسکی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چمگادڑیں کم ہوگئی ہیں۔ بہت ساری چمگادڑوں کی نسلیں مچھلی خور ہیں اور ننھے پرندے بھی پکڑ لیتی ہیں۔
۰چمگادڑ کے پر، دراصل اسکی کھال کا حصہ (membrane) ہیں۔ اسکے پروں میں اسکی انگلیوں کی ہڈیاں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ تاکہ یہ اس کھال کے زریعے اڑ بھی سکے، پانی میں گر جائے تو تیر سکے، نیچے زمین پر ہو تو چھلانگیں لگا کر پروان بھر لے، اوپر چٹانوں سے لٹک کر اپنے آپ کو چادر کی طرح ڈھانک سکے۔ اسکے پروں کے اندر خون کی نالیاں اور مسلز کے لمبے رعشے ہیں جو اسکے پروں کو زبردست قوت فراہم کرتے ہیں۔ چمگادڑ پرندوں سے زیادہ آگے پیچھے گھوم کر پرواز بھر سکتا ہے۔ ایک دم سے یو ٹرن لے سکتا ہے . اسی لئیے کبھی آپ اڑتے چمگادڑ کے آگے ہاتھ ہلائیں تو وہ یکدم سے کسی بھی سمت میں اپنا رخ پھیر لے گا( maneuver ). سائنسدان اسکے پروں پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ایسی زبردست قوت ان میں کیسے ہے۔ اسکے پر ایک جال کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ یہ کوئی کیڑا دیکھ کر اڑتے ہوئے پروں کو پھیلا لیتا ہے۔ نیچے اسکی دم پر بھی پر(جھلی) بنے ہوتے ہیں۔ اس طرح کیڑا مکمل اسکے پھیلائے ہوئے جال میں آجاتا ہے اور معدے کا حصہ بن جاتا ہے۔
• چمگادڑ اندھا نہیں ہوتا! جی ہاں اسکی آنکھیں فضول نہیں ہیں۔ وہ ان سے دیکھتا ہے۔ لیکن قدرت نے اسکو ایک خاص ہتھیار سے نوازا ہے وہ ہے اسکی آواز اور اس سے چیزوں کی پہچان کرنا۔ چمگادڑ ایک خاص قسم کی آواز نکالتا ہے جو ہمیں مختلف فریکونئنسی کی وجہ سے سنائی نہیں دیتی۔ یہ آواز کسی چیز سے ٹکرا کر گونج کر چمگادڑ کے کانوں میں واپس جاتی ہے۔ چمگادڑ کا دماغ اس آواز سے اس شے کا ایک خاکہ بناتا ہے اور چمگادڑ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ سامنے کیا ہے۔اس طریقہ کار کو Echo Location کہتے ہیں۔ سمندری آبدوزیں اسی طریقہ کار سے کام کرتی ہیں۔ تمام چمگادڑ منہ سے آواز نہیں نکالتے بلکہ کچھ ناک سے بھی یہ خصوصی آواز نکالتے ہیں۔ ایسے چمگادڑوں کا ناک پتے جیسا ہوتا ہے اس لئیے انہیں leaf nose bats بھی کہتے ہیں۔چمگادڑوں کے بڑے کان بھی اسی مقصد کے لئیے ہیں کہ انہیں یہ واپس آنے والی آوازیں ٹھیک سنائی دے سکیں۔ یہ چمگادڑ کی عام چیں چیں والی آواز نہیں ہوتی بلکہ خصوصی آواز ہوتی ہے۔ سب چمگادڑ ایکولوکیشن نہیں کرتے زیادہ تر وہ کرتے ہیں جو رات کے شکاری ہیں۔
۰چمگادڑ منہ سے پیشاب نہیں کرتا! دراصل فروٹ کھانے والے چمگادڑ کسی فروٹ کا رس چوس کر اسکا کچلا ہوا چھلکا منہ سے باہر نکالتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ پیشاب جیسا ہی لگتا ہے لیکن دراصل یہ چھلکا اور فائبر ہے جو یہ ہضم نہیں کرسکتا۔ چمگادڑ باقاعدہ مینگنیں کرتا ہے اور اسکے پیشاب کو Guano کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے بہترین فرٹیلائیزرز میں سے ایک ہے اسی لئیے جزیرہ نما ایشیائی ممالک ان ڈونیشیا فلپائن وغیرہ میں اس guano کو غاروں سے اکٹھا کرکے بوریوں میں بند کرکے بازاروں میں بیچا جاتا ہے۔ یہ کروڑوں ڈالرز کا بزنس ہے۔ guano میں نائیٹروجن ، فاسفیٹ اور پوٹاشئیم کی زبردست مقدار موجود ہوتی ہے جسکی پودے کو ضرورت ہوتی ہے۔ اسلئیے چمگادڑ بہت دور دور تک اڑ سکتے ہیں اور اڑتے اڑتے جب یہ درختوں اور پودوں پر پیشاب کرتے ہیں تو اس قدرتی کھاد کو نباتات میں شامل کرکے انکی زرخیزی میں زبردست اضافہ کرتے ہیں۔انکا معدہ پھل کھاکر بیج ہضم نہیں کرتا چنانچہ وہ بھی اس کھاد میں شامل ہوکر زمین پر گرتا ہے اور جنگلات میں اضافہ کرتا ہے۔
یعنی پھل نوش چمگادڑ جنگلات میں اضافہ کرتے اور کیڑے خور ان سے کیڑے کھا کر درختوں کی صحت بحال رکھتے ۔
•کیا چمگادڑ نے کرونا پھیلایا؟ کرونا وائرس کا ایک پورا خاندان ہے اور یہ بہت سارے جانوروں میں بستا ہے۔ چمگادڑ کا سوپ اس بیماری کا سبب بنا یہ بات ثابت نہیں لیکن چین میں جس مارکیٹ میں چمگادڑ کا گوشت بکتاہے وہاں سے یہ وبا ضرور پھیلی۔ کئی سالوں پہلے افریقی ملک کانگو میں ایبولا بیماری پھیلی جسکا قصوروار چمگادڑ کو ٹھرایا جاتا رہا تاہم کوئی ٹھوس ثبوت نہ ملے۔ خیرت کی بات ہے جن منڈیوں میں چمگادڑ کا گوشت بکتا ہے وہاں سے ہی وائیرس کیوں پیدا ہوئے۔ یہ بات تو طے ہے کہ چمگادڑ کا معدہ بہت سارے وائرس ہضم نہیں کر پاتا اور وہ اس کے جسم کے اندر ہی رہتے ہیں۔گوشت سے وائرس کی انسانوں میں منتقلی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہےجب وہ پکا ہوا ٹھیک نہ ہو، کچا رہ جائے۔ ایشیا کے مشرقی ممالک جہاں ایک جیسی شکلوں کے لوگ رہتے ہیں( مثلاً چین)اور افریقی ممالک، وہاں چمگادڑوں کا گوشت بڑے پیمانے پربکتا ہے۔
۰چمگادڑوں کے بارے میں مشہور کہ ان سے کتے والی بیماری Rabies پھیلتی ہے۔ پہلی بات، چمگادڑ انسان سے انتہائی دور بھاگتا ہے اور کاٹنے کی شرح 1% سے بھی کم ہے۔ دوسرا اگر وہ کاٹ بھی لےتو rabies کی بیماری ہونے کے چانس 1%'سے بھی کم ہیں۔ دنیا میں 99% ریبیز بیماری کتے کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ اور یہ بیماری انتہائی کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ اسے نہ تو آپ کے کانوں میں گھسنے کا شوق ہے نہ ہی بالوں میں۔ اگر آپ ساکت کھڑے ہوں تو شاید کبھی اتفاقیہ آپ کے سینے پہ آکر بیٹھ جائے . ایسا ہو تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے پیچھے گردن سے پکڑ کر دوبارہ ہوا میں اڑا دیں اور ہاتھ دھو لیں۔اسکی گردن انتہائی چھوٹی ہوتی ہےاور یہ سر موڑ کر نہیں پکڑے گا آپکو البتہ چمگادڑ کے خشک پیشاب سانس میں جانے سے بہت سارے دوسرے سانس کے انفیکشن ہوسکتے ہیں۔ بہتر یہ ہے اس جانور سے دور رہیں۔
چمگادڑ ہمارے ماحول دوست جانور ہیں اور انکی وجہ سے ہماری فصلیں اور پھلوں کے درخت آباد ہیں۔ ان کے بقا میں ہمارا بقا ہے۔ یہ مفت کے مالی ہمارے لئیے دن رات کام کرتے ہیں۔ انکو بلاوجہ مت ماریں یہ آپکو مچھروں سے بچاتے ہیں اور آپکی فصلوں کو کیڑوں سے نجات دلاتے ہیں۔ اگر یہ مچھر نہ کھاتے تو ہر سال کروڑوں انسانوں کی ملیریا، زیکا اور ڈینگی سے اموات ہوتیں۔
۰ چمگادڑ الٹے کیوں لٹکتے ہیں؟دراصل انکے پائوں چھوٹے اور ہاتھ کی انگلیاں بھی پروں کے اندر ہی فٹ ہیں۔ لہذا اپنے پر فلائیٹ کے لئیے ٹھیک طرح مکمل کھول نہیں سکتے۔ اس لئیے یہ الٹا لٹکتے ہیں تاکہ ضرورت پڑھنے پر وہیں سے گر کر سیدھا ہوا میں پر کھول لیں۔
۰ سرد علاقوں میں رہنے والے اکثر چمگادڑ ہائیبرنیٹ کرتے ہیں۔ آج تک سب سے لمبا ہائیبرنیٹ بھی چمگادڑ کا ہے جو 344 دن تک سویا رہا۔
• انکی اوسط عمر 30 سال ہوتی ہے۔
“