جیسے کے سب جانتے ہیں کہ ہر ملک میں کرونا کی بیماری عام ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اس کے ڈر سے جینا چھوڑ دیں گے۔ ہر جگہ نیوز چینل اور لوگ اسی بات کو لے کر پریشان ہیں۔ مگر جو جہاں اس بیماری کا علاج ہے۔ ہم لوگ اس بیماری کے ڈر سے وہاں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جی ہاں میں مسجد کی بات کر رہی ہوں۔۔ہم لوگ اتنا موت سے ڈر گئے ہیں کہ خدا کے گھر کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اس خوف سے کہ کہیں یہ بیماری ہمیں نہ لگ جاۓ۔ مگر حقیقت میں ہم وہ مسلمان بن گئے ہیں۔ جن کو اپنے اسلام اور ایمان پر یقین نہیں۔۔غیر مسلم ہو کر لوگ ہمارے نبیﷺ کے کلمے کا ورد کر رہے ہیں تاکہ اس بیماری سے خدا ان کی حفاظت فرماۓ۔ مگر ہم مسلمان ہو کر مسجد جانا چھوڑ دیا ہے اور ماسک اور باقی احتیاط تدبیر کر رہے ہیں۔ لیکن مسجد میں جا کر پانچ وقت کی نماز ادا نہیں کرتے۔ ہر تمام مساجد کو تقریبا بند کر دیا گیا ہے۔ جہاں سے شفا ملنی ہے ہم اس در کو چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔۔یہاں تک کہ مدینہ منورہ اور مکہ المکرمہ میں بھی جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ کیسے مسلمان ہیں؟؟جس خدا نے شفا دینی ہے اس کا گھر چھوڑ کر ہم اپنے گھروں میں ڈر کر بیٹھ گئے ہیں۔۔اور دوسری طرف لوگ سوشل میڈیا کو دیکھ کر ڈرے ہوۓ ہیں ۔۔۔
خدارا سوشل میڈیا پر مایوسی مت پھیلائیں۔
مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔
جب موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ جس نے نہ پیغمبروں کو چھوڑا نہ ولی اللہ کو ۔۔۔
موت جب ہر حال میں آنی ہے پھر کرونا سے ڈر کیسا؟
احتیاط لازم ہے کریں لیکن خوف کو خود سے الگ کردیں۔
خوف اور مایوسی سے انسان کی قوت مدافعت ختم ہوجاتی ہے جوکسی بھی بیماری سے لڑنے کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔
کرونا کےہزاروں مریض صحت یاب ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔
موت اس کو آتی ہے جس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہوتے ہیں یا جب خدا کی مرضی ہوتی ہے۔
کرونا چھوت کا مرض ہے ایک دوسرے سے لگتا ہے
احتیاط ضرور برتیں لیکن اس خوف کو ذہن میں بٹھا کے موت سے پہلے اپنی زندگی کوموت سے بدتر نہ کریں۔
جینے کی امنگ خود میں پیدا کریں گے تو کوئی وائرس آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
آواز خلق نقارہ خدا
اللہ وہی دے گا جس کی اللہ سے امید رکھتے ہو۔
اللہ تعالی کی شان ہے کہ وہ آپکی امنگوں پر پورااترتا ہے۔
اچھی امید رکھو گے تو اچھا ہی ہوگا۔ اگر ذہن میں موت کا ڈر رکھو گے تو کرونا کا تو پتہ نہیں لیکن اس خوف کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ضرور ہو جاؤ گے۔ اس لئے خدارا اس سے ڈرنے کی بجاے خدا پر یقین رکھیںم بے شک وہ بہتر جاننے اور کرنے والا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجۓ یہ امتحان کی گھڑی ہے اور اس میں ہمیں ڈرنے کی بجائے خدا کو یاد کرنے کے ساتھ ہمت سے کام لینا ہوگا۔ جتنی ہو سکے عبادت کریں اور اللّه پاک سے معافی مانگیں ۔۔ اللّه پاک پوری انسانیت کی حفاظت فرماۓ امین
جزاک اللّه ۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...