رات گئے ٹی وی پر ایک ڈراؤنی فلم لگی ہے۔ فلم کی ہیروئن ایک تاریک کمرے میں داخل ہوئی، بتی جلانے کی کوشش کی لیکن بلب فیوز ہے۔ اندر داخل ہوئی تو پیچھے سے دروازہ چرچرایا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا، کوئی نہیں۔ خوف کی کیفیت اس کے چہرے پر بھی ہے اور اب آپ پر بھی۔ کچھ لمحے کی خاموشی اور پھر اچانک کمرے کے دوسرے کونے سے اونچی آواز اور پسِ منظر میں اچانک شروع ہوتا ڈراؤنا میوزک۔ ہیروئین کی اور آپ کی چیخ اکٹھی ہی نکلی ہے اور اب سامنے کالا نقاب پہنے اور ہاتھ میں چاقو تھامے ایک شخص اس کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
آئیے، اب اس منظر کو سائنس کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہمارے خوف ہمیں زندہ رہنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایسی جگہ، چیز، عمل یا خیال جو ہمارے لئے نامانوس ہو، اس کا خوف ہمیں زندگی کا رشتہ برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے اور اس کا مرکز دماغ کا حصہ امگڈالا ہے۔ باقی تمام ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے دماغوں کی طرح یہ ہماری زندگی میں بھی خوف کے جذبے کا مرکز ہے اور ہماری گہری سوچ والا حصہ فوربرین جو ماتھے کے بالکل پیچھے ہے، وہ اس کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔
خوف کی سائنس خاصی تفصیلی ہے اور الفریڈ ہچکاک جیسے مشہور فلمساز اس سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں لیکن اس پوسٹ میں بات صرف حسیات کے اینگل سے۔ جو حس اچانک طاری ہونے والے خوف کی سب سے زیادہ وجہ بنتی ہے وہ ہماری سننے کے حس ہے۔ (آہستہ نمودار ہونے والے اور لمبے عرصے تک رہنے والے خوف کی نوعیت مختلف ہے)۔ اچانک آنے والا خطرے کا مقابلہ کرتے وقت سوچنا وقت کا ضیاع ہے، اس لئے اس وقت لئے گئے فیصلے شعوری نہیں۔ آپ کی نکلنے والی چیخ بھی ویسا ہی ردِ عمل تھا۔
بصارت کی حس کام کیسے کرتی ہے؟ دیکھتے وقت روشنی آنکھ سے ٹکرائی۔ آپ کے فوٹو ریسپٹر حرکت میں آئے۔ پھر یہ سگنل آپٹک نرو سے ہوتے دماغ کے مرکزی حصے میں پہنچے جہاں پر ان کی ترتیب بنی۔ پھر یہ ترتیب دماغ کے پچھلے حصے پرائمری ویژوئل کورٹکس تک پہنچی۔ اس نے اس میں سے شکلوں اور کونوں کو الگ کر کے یادداشت کے مرکز کو بھجوایا، اس نے پھر پہچانا کہ آپ دیکھ کیا رہے ہیں۔ اس پورے عمل میں آدھا سیکنڈ تک بھی لگ سکتا ہے۔ (ہمارے دیکھنے سے پہچاننے میں وقفہ ہوتا ہے اور دیکھنے کا عمل خود خاصا پیچیدہ ہے جس میں مستقل کی پیش گوئی سے لے کر اور وقت کی سنیپ شاٹ بنانا بھی ہے۔ فریبِ نظر اسی وجہ سے ہوتے ہیں اور شعبدہ باز ان سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں لیکن یہ تفصیل اس پوسٹ میں نہیں)۔
سماعت کی حس کیسے کام کرتی ہے؟ بالکل ہی مختلف طریقے سے۔ اس کا طریقہ کیمیکل نیہں بلکہ مکینیکل ہے۔ اندرونی کان سے یہ صرف پانچ نروز سے سفر کرتی ہے اور اسی وجہ سے اچانک آواز سے چونکنے کا ریفلکس ہمارے جسم کا سب سے تیزترین ریفلکس ہے۔ کونسی آواز خطرے کا سگنل بنتی ہے، اس کا تعلق بھی ہمارے پرانے ماضی کے خطرات سے ہے اور اچھے فلمساز اس کا طریقہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر جراسک پارک میں ہاتھی،مگرمچھ اور چیتے کی آوازیں ملا کر وہ مناظر بنائے گئے جن کا مقصد سامعین کو ڈرانا تھا۔ ڈراؤنی فلموں کی آوازوں پر کی گئی 2010 کی تحقیق کے لنک پوسٹ کے نیچے۔ (آنے والی آوازیں فلٹر کرنے کا بھی دماغ کا اپنا طریقہ ہے لیکن اس کی تفصیل بھی اس پوسٹ میں نہیں)۔
اس سے آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل گیا ہو گا کہ زیادہ تر جاندار آنکھیں بند کر سکتے ہیں لیکن کان نہیں۔
ہمارے صدیوں پرانے خوف کس طرح ہماری بائیولوجی کا حصہ ہیں، اس کی ایک مثال ٹرائیپوفوبیا ہے۔ لوٹس کے ایک پھول کی شکل کچھ لوگوں کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ اس کی تصویر اس پوسٹ کے ساتھ لگانا مناسب نہیں تھا، اس کے لئے نیچے دیا گیا لنک دیکھ لیں۔
سوال – تمام جانداروں کا دماغ ان کے سر میں کیوں ہوتا ہے؟
اشارہ – اس کا تعلق بھی اسی چیز سے ہے جس کا ذکر پوسٹ میں ہے۔