اس وقت زمین کے شمالی کرے پر خزاں کا موسم ہے۔ وہ موسم جس میں کئی درخت اپنے پتے جھڑ دیتے ہیں۔ مگر اس کے پیچھے کیا سائنس ہے؟ اسے جاننے سے پہلے ایک نظر منیر نیازی صاحب کی یہ نظم”خزاں” پڑھ لیجیے. شاید آپکو سمجھ آئے کہ درخت پتے کیوں جھڑتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں منیر نیازی صاحب برصغیر کا واحد ایسا شاعر تھا جو فطرت کو سمجھ کر انسانی احساسات میں پروتا تھا۔ نظم کچھ یوں ہے:
“ہوا کی آواز
خشک پتوں کی سرسراہٹ سے بھر گئی ہے
روش روش پر فتادہ پھولوں نے
لاکھوں نوحے جگا دیے ہیں
سلیٹی شامیں، بلند پیڑوں پہ غل مچاتے
سیاہ کووں کے قافلوں سے اٹی ہوئی ہیں
ہر ایک جانب خزاں کے قاصد لپک رہے ہیں
ہر ایک جانب خزاں کی آواز گونجتی ہے
ہر ایک بستی کشاکشِ مرگ و زندگی سے نڈھال ہو کر
مسافروں کو پکارتی ہے کہ ۔۔۔ “آؤ
مجھ کو، خزاں کے بے مہر، تلخ احساس سے بچاؤ”
درخت دراصل سردیوں کے سخت موسم میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی خاطر اپنے پتے جھڑ دیتے ہیں۔ سردیوں میں دھوپ اور پانی کی قلت رہتی ہے۔ اور یہ دو اجزا درختوں کی حیات ہیں۔ درخت اپنے پتوں میں موجود ایک خاص مالیکول جسے کلوروفِل کہتے ہیں کی مدد سے سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں اور زمین سے اپنی جڑوں سے کشید کیا پانی اور ہوا سے آئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو روشنی کی مدد سے ایک کمیائی عمل کے تحت اپنے لیے خوراک بناتے ہیں۔ اس عمل کو فوٹو سینتھیسسس کہتے ہیں۔ مگر پتوں کو ہرا اور زندہ رکھنے کے لیے بھی مسلسل پانی اور خوراک کی ضرورت رہتی ہے۔ لہذا جیسے ہی موسم سرد اور ھوپ کم ہونے لگتی ہے تو درختوں میں ایک ہارمون ایتھین بڑھ جاتا ہے جو اشارہ دیتا ہے کہ وقت آ گیا ہے پتے جھڑنے کا۔ درخت سردیوں میں خوراک اور پانی بچانے کے لیے پتوں میں سے تمام نیوٹرنٹس نکال کر جڑوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلے کلوروفِل جو پتوں کو سبز رنگ دیتی ہے اسے توڑا جاتا ہے۔ یوں اسکے ٹوٹنے کے عمل پر منحصر پتے کا رنگ سرخ سے لیکر ہلکے پیلے تک ہو جاتا ہے۔ مگر درخت پتے کیسے جھڑتے ہیں؟
درخت دراصل پتوں کی جڑ اور ٹہنی کے بیچ خلیوں کی ایک تہہ بناتے ہیں جو پتوں تک خوراک اور پانی کا راستہ روک دیتی ہے۔ اسے abscission layer کہتےہیں۔ یعنی کاٹنے والی تہہ۔ اسی طرح درخت گرنے والے پتوں کی جگہ پر خلیوں کی ایک اور حفاظتی تہہ بھی بناتا ہے تاکہ یہاں سے خوراک یا پانی ہوا میں نہ جا پائے۔ پتوں کے جھڑنے کا ایک اور فائدہ درخت کو یہ بھی ہوتا ہے کہ بہار کے موسم کے آغاز پر اس سے اسکا پولینیشن یعنی بیچ پھیلانے کا عمل بھی بہتر ہو سکتا ہے۔ یعنی بیچ پتوں سے ٹکرانے کی بجائے اب سیدھا اور زیادہ دور تک پھیل سکتے ہیں۔ جس سے درخت کی نسل زیادہ علاقے میں پھیل سکتی ہے۔
مگر ایسا تمام درخت نہیں کرتے۔ کچھ درخت سدا بہار ہوتے ہیں جنکے پتے سارا سال سبز رہتے ہیں۔ انکے پتوں کی ساخت اور اسکے ساتھ لگے کانٹے اور ان پر ایک طرح کی موموی تہہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گرمیاں ہوں یا سردیاں پتوں سے پانی اور خوراک کا اخراج کم سے کم ہو۔
اب منیر نیازی صاحب کی نظم دوبارہ پڑھیں اور بتائیں کہ نیازی صاحب نے “کیسا دیا؟”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...