گرمی ختم ہو رہی ہے۔ درخت اپنے سبز پتوں کو زردی میں بدلنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ تھک گئے ہیں اور موسم کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب آرام کا وقت ہے۔ جیسے بھالو یا گلہری سردیوں میں آرام کریں گے، ویسے ہی یہ بھی۔ بہار اور گرمیوں میں انہوں نے سورج سے خوب توانائی حاصل کی ہے اور کسی بھالو کی طرح اس کو اپنے جسم میں ذخیرہ کر لیا ہے۔ چیری جیسے کئی درخت تو اگست میں ہی تیاری شروع کر دیں گے۔ ان کے پتے سرخ پڑنا شروع ہو جائیں گے، حالانکہ ابھی تو دھوپ والے بہت دن باقی ہیں۔ لیکن ان کی جڑیں اور تنا بھر چکے ہیں۔ اس سال کے لئے دکان بند کرنے کا وقت آن پہنچا۔ اگر مزید شوگر بنا بھی لیں تو ذخیرہ کرنے کے لئے جگہ نہیں۔
کچھ اور درختوں کے پاس بڑا سٹور ہے۔ وہ ابھی فوٹو سنتھیسز جاری رکھیں گے اور جب تک پالہ نہیں پڑ جاتا، کام کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد یہ بھی رک جائیں گے۔ ایک وجہ پانی ہے۔ درخت کو پانی مائع صورت میں چاہیے۔ اس کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتا۔ اگر درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جائے اور درخت کا تنا پانی سے بھرا ہو تو یہ جمنے سے ویسے پھٹ جائے گا جیسے پائپ پھٹ جاتے ہیں۔ تمام درخت سردی آنے پر نمی کو کم کرتے جاتے ہیں۔
اپنی دکان بڑھانے سے پہلے درخت کو کچھ کام کرنے ہیں۔ اپنے پتوں سے توانائی اور کلوروفل کے ذخائر کو اپنے باقی سٹرکچر میں منتقل کرنا ہے۔ کلوروفل ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر ذخیرہ ہو جائے گی۔ جب واپس بہار آئے گی تو نئے پتوں کا حصہ بن جائے گی۔ جب کلوروفل کھینچنا شروع کی تو پتے زرد، پیلے اور سرخ رنگ کے ہوتے گئے۔ یہ رنگ کیروٹین سے بنے ہیں اور خود بھی سگنل کا کام کرتے ہیں۔ اس وقت کیڑے درختوں کے کریک ڈھونڈ کر اپنے لئے پناہ گاہ ڈھونڈنتے ہیں۔ ایک صحت مند درخت شوخ رنگوں سے یہ اعلان کرتا ہے کہ میرے قریب نہ آنا، میں توانا ہوں، اپنا دفاع کر لوں گا۔ جو درخت اتنی توانائی نہیں رکھتے کہ پتوں کو شوخ رنگ دے سکے، وہ ان کیڑوں کا نشانہ بنے گا۔ پھیکے رنگ کمزور صحت کی علامت ہیں اور اس کا اشارہ کہ شاید یہ درخت دفاعی زہریلے کیمیکل زیادہ مقدار میں نہ پیدا کر سکے۔
لیکن یہ سب اہتمام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ کئی درخت تو ایسا نہیں کرتے۔ کونیفر کے درخت اپنے نوکیلے سبز پتوں کے ساتھ پوری سردیاں گزار دیتے ہیں۔ ان کا اپنا حربہ ہے۔ اپنے پتوں کو فریز ہونے سے بچانے کیلئے یہ درخت ان میں اینٹی فریز بھر لیتا ہے۔ اور ان کے باہر ایک مومی تہہ چڑھا لیتا ہے۔ سائنس لینے کے لئے سوراخ گہرے ہوتے ہیں۔ ان اقدامات سے سردیاں آسانی سے گزر جائیں گی۔ سرد جگہوں پر جہاں زیرِ زمین پانی منجمد ہو جائے گا، اگر درخت پانی کا حساب کتاب ٹھیک نہ رکھیں تو مر جائیں گے کیونکہ زمین سے منجمد پانی کھینج نہیں سکتے۔
جن درختوں کے ان سوئیوں جیسے سخت پتے نہیں بلکہ نرم و نازک پتے ہیں، وہ ایسا دفاع نہیں کر سکتے، اس لئے ان پتوں کو ہی گرا دیتے ہیں۔ لیکن شاہ بلوط یا شفتالو جیسے درختوں نے ارتقائی تاریخ میں ایسا کیوں نہیں سیکھا کہ وہ اپنے پتوں کو اینٹی فریز سے بھر لیں یا سخت کر لیں یا تہہ چڑھا لیں اور ہر سال لاکھوں نئے پتے اگانے کے جھنجھٹ سے بچ جائیں جن کو کچھ ماہ بعد پھر گرانا پڑے؟ دلچسپ چیز یہ ہے کہ خزاں میں پتے جھڑنے والے پودوں کی تاریخ دس کروڑ سال پرانی ہے جبکہ کونیفر کو سترہ کروڑ سال ہو چکے ہیں۔ پتے جھڑ کر سردی بتانے کی جدت نئی ہے۔ یہ ٹیکنیک اس درخت کے لئے بہت فوائد رکھتی ہے۔
جن جگہوں پر سردیوں میں طوفان آتے ہیں اور ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آندھی ہر ہفتے کا معمول ہے، وہاں پر ایک تو سردی کی بارش مٹی کو نرم کیچڑ بنا دیتے ہیں اور درخت پر لگنے والی فورس درخت کو گرا سکتی ہے۔ اپنی ایرو ڈائنمکس کو بہتر کرنے کے لئے یہ اپنے شمسی پینل گرا دیتے ہیں۔ ان پتوں کا سوا ہزار مربع گز کا سطحی رقبہ گر کر جنگل کے فرش کا حصہ بنا جاتا ہے۔ جیسے کوئی بادبانی کشتی اپنا 130 فٹ کا بادبان گرا دے۔ صرف یہی نہیں۔ ان طوفانون سے مقابلہ کرنے کیلئے باقی تنے اور شاخوں کی شکل اس طرح کی ہے کہ وہ ہوا کی ریززٹینس کسی جدید گاڑی سے بھی کم لیں گے۔
پتے گرانے کے لئے درخت کو کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایکٹو عمل ہے۔ ایک مرتبہ جب درخت نے اس سے غذائیت چھین لی تو یہ خلیوں کی تہہ جمانا شروع کر دے گا جو پتوں کا رابطہ شاخ سے منقطع کر دیں گی۔ اس تہہ کے بن جانے کے بعد ہلکی ہوا بھی ان کو لے جانے کے لئے کافی ہو گی۔ جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو اب درخت لمبا آرام کر سکتا ہے۔
جو درخت اپنی نیند پوری نہ کریں، ان کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو کسی نیند سے محروم شخص کے ساتھ۔ ان کی صحت گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پتے گرانے والے درخت کبھی بھی انڈور نہیں رہ سکتے۔
اونچے درخت پہلے پتے گرائیں گے۔ ان کے نیچے کم عمر درخت جن تک روشنی کم پہنچی تھی، ان کے لئے اب موقع ہے۔ اچانک زیادہ روشنی آنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ تیز روشنی میں یہ فوری بہت سے توانائی حاصل کر کے تیز رفتار سے بڑھنے کا ایک عمل کریں گے۔ ان کو پتے گرانے کے لئے محنت کم کرنی ہے اور ان کو وزن کم ہونے کی وجہ سے آندھی میں گرنے کا بھی خوف نہیں ہے۔ یہ دو ہفتے مزید توانائی لے سکتے ہیں۔ جب بہار آئے گی تو بھی یہ بڑے درختوں سے دو ہفتے پہلے پتے نکال لیں گے۔ ان کو پتا کیسے لگتا ہے کہ بڑا درخت کب پتے نکالنے لگا ہے؟ یہ جاننے کی ضرورت ہی نہیں۔ زمین کے قریب درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ بس یہی ان کے جلد پتے نکالنے کا راز ہے۔ سو فٹ زیادہ اونچے درخت کے مقابلے میں ان پستہ قد نوعمروں کے لئے بہار جلد آ جاتی ہے۔ اس طرح ان کو بڑھنے کا اضافی مہینہ مل گیا جو ان کے لئے بہت فائدہ مند رہا۔
خزاں میں پتے گرانے کا ہر درخت کا اپنا قرینہ ہے۔ دلدلی علاقوں میں بید کا درخت اس کی پرواہ ہی نہیں کرتا کہ کلوروفل کو بھی کھینچنا ہے۔ یہ سبز پتے ہی گرا دیتا ہے۔ ہر سال نئی کلوروفل پیدا کرنے کی اس کو پریشانی نہیں۔ اس کی جڑوں کے قریب بیکٹیریا اور فنگس گرنے والے پتوں کو ری سائیکل کر دیں گے۔ ان مادوں کو یہ درخت جڑوں کے ذریعے اپنے اندر کھینچ لے گا۔ بید کے اس جنگل میں فی مربع میل 87 ٹن نائیٹروجن ان کے یہ دوست اس کو مہیا کر دیں گے۔ یہ مقدار اس سے زیادہ ہے جو کھیتوں میں کسان عام طور پر کھاد کی شکل میں ڈالتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں شاہ بلوط کا درخت پتے سے کچھ بھی نہیں چھوڑتا، سب کچھ چوس کر گرانے سے پہلے اس کو بھورا کر دیتا ہے۔
سدابہار درختوں کے بھی اپنی حکمت عملی ہے۔ کوننیفر کے کئی درخت اپنے پرانے پتے گرا کر بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ ایسے پتے جو اپنا کام ٹھیک سے نہ کر رہے ہوں، نقصان پہنچ چکا ہو۔ چیڑ کا صحت مندر درخت دس سال پرانے پتے گرا دیتا ہے، سفیدے کا درخت چھ سال پرانے اور پائن کا تین سال پرانے۔
یوں گرنے والے بھورے، زرد، سرخ اور سبز پتے خزاں کے رنگ ہیں۔
درخت کو پتا کیسے لگتا ہے کہ کب پتے گرانے ہیں اور کب واپس اگانے ہیں؟ کم سے کم دو الگ حسیات سے۔ درخت دن میں روشنی کے گھنٹے گن سکتے ہیں، یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ دن گھٹ رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں اور درجہ حرارت محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ ان کے لئے وقت کا ادراک ہے۔