“مجھے اپنے خیال پر کام کرتے پندرہ مہینے گزر چکے تھے۔ میں مالتھس کو پڑھ رہا تھا۔ میں نے پودوں اور جانوروں کی عادات کا مشاہدہ کیا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ وہ حالات جو موافق ہوں، ان کے مطابق تبدیلیاں تو زندہ رہ جائیں گی۔ باقی ختم ہو جائے گا۔ نئی انواع ایسے آتی ہیں۔ اب میرے پاس آخر کار ایک تھیوری آ گئی جس پر کام کیا جا سکتا تھا”۔
یہ ڈارون کی آپ بیتی میں ایک اہم موڑ کا ذکر ہے اور سو سال تک اسے درست سمجھا جاتا رہے لیکن یہ کہانی درست نہیں۔
ماہرِ نفسیات اور مورخ ہارورڈ گربر نے ڈارون کی نوٹ بُکس اور صفحات کی مدد ستر کی دہائی میں دریافت کے اس وقت کو دوبارہ دیکھا۔ خیالات کا رقص، حقائق کو قطار میں رکھنا، اپنے آپ سے مکالمہ جو 1838 کی خزاں کے اہم بریک تھرو تک لے کر آیا۔ یہ سب ڈارون کی آپ بیتی سے بہت مختلف تصویر تھی۔ ان کی تھیوری کے تمام تر اجزاء تو ان نوٹ بکس میں اس سے پہلے سے اس میں موجود تھے جب ڈارون نے مالتھس کو 28 ستمبر 1858 کو پڑھا۔ بدلاوٗ کی اہمیت، قدرتی اور مصنوعی چناوٗ کا تعلق، بقا کی دوڑ، وقت کی وسعتوں کا ادراک، انواع کے درمیان واضح فزیولوجیکل مطابقتیں، یہ سب کچھ ان کی نوٹ بک کا 1837 سے حصہ بنتا رہا۔ معمے کے تمام ٹکڑے اپنی تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پڑے تھے۔ کئی غیرمعمولی صفحات میں، جو کہ مالتھس کو پڑھنے سے پہلے لکھے گئے تھے، یوں لگتا تھا کہ وہ نیچرل سلیکیشن کی تھیوری کو جامہ پہنا چکے ہیں۔ اس سے ایک سال پہلے ہی اس چناوٗ کے بارے میں پیراگراف لکھا ہوا تھا۔ صرف اپنے فارمولا کی نوک پلک درست کرنا تھی۔ اور پھر بھی ڈارون یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ معمے کا حل ان کی انگلیوں پر ہے۔ لیکن اپنی اس لمبی ذہنی کاوش کو ایک کامیاب تھیوری تک پہنچاتے تک بڑا وقت لگا۔
ایسا نہیں کہ مالتھس کو پڑھنے کے بعد یہ تھیوری مکمل ہو گئی۔ 28 ستمبر کو کو ان کی اس میں انٹری موجود ہے اور انہوں نے آبادی کی ریاضی کو بھی سمجھ لیا تھا۔
“آبادی جیومیٹریکل تناسب سے بڑھتی ہے اور بہت تیز رفتاری سے۔ یہ رفتار اس آبادی کو شکل دیتی ہے۔ اس کو اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ قدرت کے دئے گئے شگاف میں سے لاکھوں میخیں اندر گھسنے کی کوشش کر رہی ہیں اور کمزور میخ اس میں گھس نہیں پائے گی۔ قدرت کا یہ نظام اس آبادی کو سٹرکچر دے گا اور تبدیلی سے مطابقت۔”
لیکن اگلے دنوں اور ہفتوں میں ڈارون کے نوٹس میں کچھ ایسا نہیں ملتا جس سے پتہ لگتا ہو کہ ان کو اب سب سمجھ آ گئی ہے۔ اس سے اگلے دن ہی انہوں نے پرائمیٹ کی جنسی دلچسپی پر حیرت کا اظہار کیا۔ اس سے ایک مہینہ بعد انہوں نے نیچرل سلیکشن کے قوانین لکھنے کی کوشش کی۔
یہ سب اچانک ہی وارد نہیں ہوا تھا۔ ان کی ڈائری بتاتی ہے کہ یہ شعوری لہروں کی شکل میں آیا۔ اگرچہ ذہن میں خیال تھے لیکن ان کو مکمل سوچ کا روپ نہیں مل رہا تھا۔ ایک ایک قدم کر کے آگے بڑھ کر پھر منظر سے غائب ہو جاتے تھے۔
ڈارون کے گالاپاگوس کے سفر کی نوٹ بک بھی دلچسپ کہانی بتاتی ہے۔ ان کے نیچرل سلیکشن کے اصول انواع کے آپس میں موازنے سے نکلے ہیں۔ (اسی وجہ سے ڈارون کے فنچ مشہور ہیں)۔ لیکن ڈارون کے سفر کے نوٹ بک کا بڑا حصہ جیولوجی کے بارے میں ہے۔ 1383 صفحات جیولوجی پر جبکہ 368 صفحات بائیولوجی پر۔ جیولوجست ڈارون معلومات کی شعوری پراسسنگ کر رہا تھا، بائیولوجسٹ ڈارون کے لئے یہ فیکٹ فائنڈنگ مشن تھا۔
گالاپاگوس کے جزائر میں انہوں نے انواع کو تفصیل سے دیکھا تھا لیکن یہ آتی کہاں سے ہیں؟ یہ سوال ان کے ذہن میں اس سفر کے پانچ ماہ بعد آیا تھا۔ اس سب مشاہدے سے اس کی حقیقت کی جڑ تک پہنچنا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ انہوں نے اپنے انتہائی باریک بین مشاہدے کا ریکارڈ جس قدر تفصیل سے رکھا، اُس کی اس سے پہلے کسی انسان نے شاید کوشش بھی نہ کی ہو۔
جیب میں ڈائری رکھنے کی اور اس پر چیزیں ریکارڈ کر لینے کی عادت کو یورپ سائنس کے دور کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیالات ذہن میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ ذہن خود ان کا اچھا ریکارڈ نیہں رکھ سکتا۔ ان کو نوٹ کر لینا ہمارے ماضی کے ذہن میں جھانکنا ممکن بناتا ہے۔
ڈارون کو اپنے سوچوں اور مشاہدوں کو صفحات پر منتقل کرنے سے ان تک رسائی ہوئی۔ وہ اپنے بریک تھرو تک کیسے پہنچے، اس پر بھی ان کے ذہن کی کہانی درست نہیں لیکن کاغذوں میں سب کچھ ملتا ہے۔ ان کے سترہ کتابوں، بائیولوجی کے (اور جیولوجی کے) اہم خیالات کے پیچھے ان کا باریک بینی سے کیا گیا مشاہدہ اور اس کو محففوظ کر لینے، اس پر سوچ بچار کرنے اور بار بار دیکھنے کی عادت تھی۔ نیوٹن کو سیب گرنے سے گریویٹی کا پتہ لگ جانے جیسی کہانیاں پڑھنے میں دلچسپ لگتی ہیں لیکن ایسے ہوتا نہیں۔
یہ صرف نیوٹن، آئن سٹائن یا ڈارون کے ساتھ نہیں۔ آپ کے اپنے مسائل کا حل ہو یا نئے خیالات۔ یہ یونہی ایک روز اچانک بیٹھے بیٹھے نہیں ہو جائے گا۔ اہم خیالات سست رفتار گھاس کی طرح اگتے ہیں اور ان میں وقت بھی لگتی ہے اور محنت بھی۔ اگر ان کی آبیاری کی جائے تو پھر ایک روز یہ نظر آ جاتے ہیں