انسانی سماج میں لباس کو ہمیشہ ایک نہایت اہم مقام حاصل رہا ہے۔ یہ سماج کی تہذیبی ترقی، طبقاتی تقسیم اور اونچ نیچ کا آئینہ ہوتا ہے۔ نیز خوش مزاجی و خوش ذوقی کی عکاسی کرتا ہے۔ لباس کے ارتقا کی تاریخ گویا پورے سماج کی ترقی کی تاریخ ہے۔ماضی میں بادشاہوں اور امرا وغیرہ کے خاص چغے، تاج و زیورات ہوتے۔ مذہبی رہنماؤں کے عمامے اور قسم قسم کی ٹوپیاں ہوتیں۔ فوجیوں کے یونیفارم کے علاوہ عام آدمی کی روزمرہ کی چیزیں جیسے جوتے، ٹوپیاں، دستانے ہوتے۔ مردوں کے بیگ اور عورتوں کے ہاتھ کی تھیلیاں، بٹوے وغیرہ ہوتے۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لباس کی مدد سے سماج میں اپنے مقام کو ظاہر کرتا رہا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی ذات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جسم کو سخت سردی و بارش سے محفوظ رکھنے میں بھی اس سے کام لیا جاتا ہے۔ جب انسان جنگلوں میں رہتا تھا تو وہ جانوروں کی کھال لپیٹ کر اور پھر اسے سی کر اپنے جسم کی حفاظت کرتا تھا۔ بعض ماہرین کے اندازے کے مطابق انسان 72 ہزار سال قبل سے کسی نہ کسی شکل میں لباس پہن رہا ہے۔تقریباً تین سے چار ہزار سال ق م میں چین اور سمیریا کے لوگ باریک پشم اور اون کے بنے کپڑے پہنتے تھے۔ سمیریا میں عورتوں کے کپڑے بائیں کندھے سے لٹکے ہوتے تھے۔ مردوں کے کپڑے کمر تک ہوتے اور جسم کا اوپر کا حصہ کھلا رہتا۔ مصر کا سماج نہایت قدیم ہے اور فراعین کے مختلف خاندانوں کا دور حکومت بھی نہایت طویل رہا ہے، اس دور کا لباس بھی مختلف منزلوں سے گزرا ہے۔ قدرے ابتدائی دور میں فراعین، امرا اور ان کے خاندان کے لوگ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ ملازم اور کسان لنگوٹ پر اکتفا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مذہبی رہنما بھی صرف لنگوٹ کسے رہتے تھے۔ جب دولت بڑھی، تہذیب و تمدن نے ترقی کی تو کپڑوں کی تعداد اور ان کی لمبائی بھی بڑھنے لگی۔ وسطی دور کے فراعین کے یہاں ایک لہنگے کے اوپر دوسرا اور ذرا لمبا لہنگا آگیا۔ شاہی خاندان اور خوش حال گھرانے کی عورتیں لہنگوں کی جگہ لمبے چغے پہننے لگیں جو سیدھے کاندھے پر لٹکے ہوتے تھے۔ جب سلطنت وسیع ہوئی اور دولت بڑھی تو زیورات عام لوگ بھی استعمال کرنے لگے۔ اس دور میں ہر مرد کی انگلی میں کم از کم ایک انگوٹھی اور ہر عورت کے گلے میں ایک ہار ہوتا تھا۔ اٹھارویں شاہی خاندان کے دور تک ہر مردو عورت کے کان چھدنے لگے تھے اس میں بالے پڑے ہوتے تھے۔ قدیم بابل میں عورتیں اور مرد دونوں سوتی کپڑے کے لمبے چغے پہنتے تھے جو پیروں تک آتے تھے۔ عورتوں کا بایاں کاندھا کھلا رہتا اور اس پر ایک عبا بھی پہنتے تھے۔ جیسے جیسے دولت و خوش حالی بڑھنے لگی، طرح طرح کے خوش رنگ کپڑے اور زیورات استعمال ہونے لگے۔ سمیری عہد میں لوگ عام طور پر ننگے پاؤں رہتے تھے لیکن پھر خوبصورت چپلیں استعمال ہونے لگیں۔ عورتیں بالوں کو سنوارتیں اور ان میں موتیوں اور دانوں وغیرہ کی لڑیاں پروتیں، خوشبو سے اپنے آپ کو معطر کرتیں۔ مرد چھڑیاں لے کر نکلتے اور معبدوں کے پروہت چغے کے ساتھ اونچی نوک دار ٹوپیاں پہنتے۔ قدیم ایرانیوں نے بڑی حد تک مدائن کی تہذیب اور اس کے لباس اختیار کر لیے تھے۔ وہ ٹوپی پہنتے یا پگڑی باندھتے۔ ان کا سارا جسم ڈھکا رہتا۔ سوائے چہرے کے جسم کے کسی اور حصہ کو کھلا رکھنا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ عورتوں اور مردوں کے کپڑوں میں بہت کم فرق ہوتا۔ مرد عام طور پر داڑھی رکھتے۔ دونوں بناؤ سنگھار کرتے۔ جلد کو بہتر بنانے کے لیے کریم استعمال کرتے۔ عطر کا اتنا شوق تھا کہ بادشاہ اور امرا جب جنگ پر جاتے تو مختلف عطریات کا پورا ڈبہ ساتھ لے جاتے۔ عہدقدیم کے ہندوستانی لباس کی کچھ جھلک ایلورا اور اجنتا نامی غاروں اور اڑیسہ و کھجوراہو کے مندروں میں بنے پیکروں سے ملتی ہے۔ اس دور کے لوگ صفائی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ برہمنوں کے لیے اکثر صورتوں میں نہانا بھی لازم تھا۔ ہندوستان کا موسم عام طور پر اتنا گرم و مرطوب ہے کہ لوگ کم کپڑے پہنتے۔ دھوتی اور لنگوٹ کا رواج عام تھا۔ راجپوت مختلف رنگوں کی شلواریں پہنتے، گلے میں مفلر پڑا ہوتا، پیروں میں چپل یا جوتا اور سر پر پگڑی ہوتی۔ پگڑی اصل میں مسلمانوں کے آنے کے بعد زیادہ استعمال ہونے لگی۔ عورتیں ساڑھیاں اور مختلف اقسام کی چوڑیاں پہنتیں۔ سر میں تیل ڈالتیں۔ بناؤ سنگار اور زیورات کا عام چلن تھا۔ مسلمان حکمرانوں کے آنے کے بعد اعلیٰ طبقوں اور شہروں میں ایرانی اور مشرق وسطیٰ کے لباس کا چلن پڑا لیکن دیہات اسی ڈگر پر قائم رہے۔ قدیم یونان کا لباس انتہائی سادہ ہوتا تھا۔ چغے پہنے جاتے تھے جو پیروں تک پہنچتے تھے۔ رومن عہد کے لباس پر اس کا گہرا اثر تھا۔ ایک قسم کا لباس ٹوگا اس دور کی خصوصیت ہے۔ رومن سلطنت کے زوال کے بعد یورپ کے لباس میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائی مشرق قریب سے طرح طرح کے سوت اور ریشم کے کپڑے اپنے ساتھ لائے۔ نئے فیشن لائے اور اسی کے ساتھ عہد وسطیٰ کے یورپ کا کپڑوں کا اپنا فیشن ترقی پانے لگا۔ 1300ء تک کپڑوں کی سلائی ایک فن بن گئی۔ بٹن کا استعمال شروع ہوا اور اسے طرح طرح سے استعمال کیا جانے لگا۔ کپڑے جسم سے زیادہ چمٹے ہوتے تھے۔ لیکن پھر اس میں تبدیلی آئی اور ڈھیلے ڈھالے کپڑوں کا رواج شروع ہوا۔ پھر بھاری بھرکم چغے پہنے جانے لگے۔ پتلون، اونچے بوٹ اور کالر مقبول ہوئے۔ سترہویں صدی میں یورپ اور انگلستان میں کپڑوں میں ربن، پر اور کھالوں کا استعمال بڑھا۔ اٹھارویں صدی میں لوئی چہارم دہم کے دور میں فرانس فیشن کا مرکز بن گیا۔ انیسویں صدی میں سادگی کا رجحان پھر بڑھنے لگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...