قسط اول..
خطۂ پیر پنجال کا پہلا معتبر جدید شاعر
فاروق مضطر…(ولادت١۹٥۴ء..)/از غنی غیور
کب سے دوہرا رہا ہوں میں مضطر
ایک فہرست چند ناموں کی
یہ سرِ راہ قطار پیڑوں کی
اور پھیلے گا آگ کا دریا.
خدا کے نام جھوٹ سچ کے سلسلے
خدا بہت ہے نامدار شہر میں
مچھلیاں خود فریب ہوتی ہیں
اک مچھیرے نے تبصرہ لکھا
خود سے روشناس ابھی تک نہ ہوسکا
یہ اتفاق ہے کہ جو تم سے ملا ہوں میں
مثالِ برق گری ایک آن تیغِ ہوا
ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے
میں بولتا رہا تو کسی نے نہیں سنا
میں چپ ہوا تو سارا شہر گونجنے لگا
دیکھو میری جبیں پہ میرے عہد کے نقوش
رکھو مجھے سنبھال کہ اک آئینہ ہوں میں
جانے کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر؟
جانے کیوں سوجھتی رہتی ہیں یہ الٹی باتیں؟
شب کو ٹھٹھریں گے سب درو دیوار
دھوپ کچھ اپنے نام لکھ رکھیں
خوشبؤں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام
پیڑ بے انددیشۂ انجام سوکھا تو نہ تھا
محمد فاروق مضطر کا تعلق راجوری کے تھنہ منڈی تحصیل سے ہے انکی ادبی سرگرمیوں کی عمر فقط دس سال ہے.اا اس دوران انہوں نے معیاری اردو رسالہ "دھنک " رسالہ کی ادارت بھی کی..انکے علاوہ خطہ پیر پنجال میں محمد ایوب شبنم (مؤلف.ادبیات پونچھ ) جن کا تعلق سرنکوٹ سے ہے نے "ستاروں سے آگے " ادبی و سیاسی مجلہ نکالا کرتے تھے..لیکن مضطر صاحب کا دھنک مکمل طور پر معیاری ادبی رسالہ تھا..
فاروق مضطر کی شاعری کی پہلی پرواز بہت ہی اچھی تھی .وہ خطۂ پیر پنجال کے پہلے جدید شاعر ہیں انکی شاعری کسی تحریک سے وابستہ نہیں .
البتہ وہ ظفر اقبال ، بانی سے سخت متاثر تھے اور کہیں کہیں انکی تراکیب شکیب جلالی سے بھی ملتی جلتی ہیں .
ہماری ریاست میں پرتھپال سنگھ بیتاب فاروق نازکی اور رفیق راز جیسے قد آور شعرا انکے معاصر ہیں. جدید اردو شاعری میں انکے پیشرو اور معاصرشعراء ظفر اقبال، عادل منصوری، بانی، زیب غوری، محمد علوی! کمار پاشی جیسے معتبر اسمائے گرامی ہیں.
مضطر کی شاعر میں کئی انواع کے پیکر،بصری سمعی وغیرہ ملتے ہیں .
انکی بعض اشعار پڑھ کر ہوا میں رنگ اور خوشبو میں رنگ دکھائی دینے لگتے ہیں.. ان دھندلکوں کے دیکھنے اور محسوس کرنے سے باذوق قاری کو کیف و سرور ملتا ہے..
کہیں کہیں بعض اشعار میں معانی ہاتھ سے سلیپ slip کرجاتے ہیں ..تا ہم
پسِ ساختیات post structuralism
اور ساخت شکن یا رد تشکیل
Deconstruction
کے قائلین کے مطابق…
اس قسم کی مبہم شاعری کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے..اسطرح
انکی شاعری انکی ذات سے کاٹ کر یا الگ کرکے دیکھی جاتی ہے اور متن سے قاری اپنے ذوق کے مطابق لطف حاصل کرتا ہے اور کچھ حظ بھی پالیتا ہے ..
خصوصیات کلام:
مضطر کا ایک شعر
ایک دن ساری کتابوں کو لپک جائے گی آگ
اور پھر اس راکھ سے اک حرف لکھا جائے گا..
بائبل میں لکھا ہے..
In the beginning was word, and the word was with God,and the word was God…
مزکورہ بالا شعر میں بائبل کی کمانڈ کو سمو دیا گیا ہے بلکہ شعر میں اس سے زائد بھی کچھ مل جاتاہے..
اختصار ہی روحِ اعجاز ہے اگر یہ سچ ہے تو یہ شعر ، بااعتبارِکفایت لفظی ،نادر ہے
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں …
مضطر کا ایک دو اور اشعار.
شاہراہوں سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر
عادتاً پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا.
اسکو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے
ورنہ سطح آئینہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا..
سطحِ آئنہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا ….
خوبصورت شعر ہے.. چہروں کو سطحِ آئینہ اور …ورق کہہ کر زندگی کو کتاب کہہ دینے سے یہ شعر بالکل نیا اور اچھوتا ہوجاتا ہے.
مضطر نے یہ شعر/غزل جموں کے پرانے بزرگ شاعر ،عرش صہبائی (المتولد ١۹٣۰ءجو ابھی بقید حیات ہیں )کی زمیں میں کہی ہے. انکی غزل اسقدر مشہور ہے کہ عرصہ تک میٹرک کے نصاب میں شامل رہی.
عرش صہبائی کے دو اشعار ملاحظہ کریں :
ہم نکل سکتے بھی تو کیونکر حصارِ ذات سے ؟
صرف دیواریں ہی دیواریں تھیں دروازہ نہ تھا
عرش انکی جھیل سی آنکھوں کا اس میں کیا قصور؟
ڈوبنے والے کو گہرائی کا اندازہ نہ تھا!
ظاہر ہے عرش صہبائی صاحب کی غزل میں تغزل ہے اور بہت کچھ ہے.
جبکہ مضطر صاحب نے مستعار زمیں اپنے ہی منفرد رنگ میں خوبصورت اشعار کہے..
مضطر کے اشعار میں گہرائی ہے اور جدت خیال …اور بھرپور تازگی…
اس طرح مضطر صاحب نے عرش صہبائی کی زمین میں بہتر غزل کہہ کر یہ ثابت کیا کہ کسی کی زمین کو اسلوب کی تازہ کاری سے اپنا بھی بنایا جاسکتا ہے …ویسے بھی دوسروں کی زمیں اردو کے عظیم شعراء کی سقہ روایت ہے.
پتہ نہیں کیوں اور مضطر کو یاس و حرمان کے سیاہ بادلوں نے گھیر لیا… اطراف کے گھٹاٹوپ اندھیرے اور سرد مہرئ اہلِ زمانہ سے متاثر ہوکر یا کسی دوسری مصلحت کے پیشِ نظر ہمارے اس بڑے شاعر نے شاعری کو خیر آباد کہہ دیا.
کلام کی کمیت کے باوجود اس میں
برجستہ و موزوں اشعار مل جاتے ہیں . ہیں .جدت اور تازگی کے باعث امید کی جاتی ہے یہ شاعری دیر تک زندہ رہے گے
مضطر کی قنوطیت مندرجہ ذیل اشعار سے واضح ہے.
مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے اجالے تھے؟
ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے…
ہم بھی پگھلیں گے. سائے بھی نہ ٹھریں گے
جانے کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہوجائے گا
پیڑ اگلیں گے سیاہی کا سمندر
موسمِ خوش رنگ زخم پا ہوجائے گا..
ہر کمالے را زوال….
پیڑوں کا سیاہی اگلنا … بہار میں پتوں سے ڈھانپ جانا اور سایوں کا دبیز ہونا یعنی چھتنار ہونا مراد ہے .. بہار میں پیڑوں کی canopy
کے اندر سیاہی کا سمندر ہی ہوتا ہے
لیکن یہ بہار کاسفر بالآخر اسکے پاوں کا زخم بن ہوجاتا ہے…مطلب یہ سلسلہ پھر رک جاتا ہے اور stagnation breeds reptile …اور جمود حشرات پیدا کرتا ہے.آخر میں بہار کا سفر لنگڑا جاتا ہے اور.اپاہج …
ہوا کے ساتھ کہاں تک اڑان بھرتا ہوں
حدودِ جسم میں اک پر کٹا پرندہ ہوں ..
مضطر صاحب نے یہ شعر یقیناً شکیب جلالی سے متاثر ہوکر کہا ہوگا ..
شکیب جلالی کا شعر دیکھیں
فصیلِ جسم پر تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
فاروق مضطر کا یہ خوبصورت شعر:
چہار سمت گھرا ہوں میں پانیوں میں یہاں
مِرا یہ کرب کہ اک ڈوبتا جزیرہ ہوں
پانیوں میں گھرنا….
ڈوبتا جزیرہ …
شعر بہت اچھا ہے منفرد ہے ہے لیکن یہ تراکیب ظفر اقبال سے متاثر ہوکر ہی لکھی گئی ہیں یہ غیر شعوری عمل ہوسکتا ہے.
ظفر اقبال کا مشہور شعر
میں ڈوبتا جزیرہ موجوں کی مار پر
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا
انہوں نے کل پندرہ بیس غزلیں کہی اور اسی قدر نظمیں بھی… شبخون میں انکا کلام چھپتا رہا لیکن کئی وجوہات کی بنا پر انہوں جلد ہی شاعری چھوڑدی …
وہ ماحول سے نامید تھے ویسے بھی ہمارے معاشرے میں آرٹ اورشاعری کی پزیرائی کا سوال ہی نہیں اٹھتا بلکہ ان سے منسلک لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.. مضطر صاحب نے حال ہی
میں انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مولنا وحید الدین خاں صاحب سے ملنے کے بعد شاعری ترک کردی اور ادارہ سازی کی طرف مائل ہوئے آج کی تاریخ انکے اپنے دو تین کالج ہیں تقریباً دوہزار طلباء و طالبات کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرتے ہیں.
سخی مزاج ہیں سیکڑوں طلباء کو فیس معاف کر رکھی متعدد بوڑھوں کو اپنی گرہ سے ماہوار پنشن دیتے ہیں. کالج کی لائبریری میں چالیس ہزار کتابیں اور کٹلاگنگ سسٹم دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے..
مضطر نے نظمیں بھی کہی ہیں ..
انکی کچھ نظمیں آسان فہم نہیں …بعض نظمیں مختصر مگر دبنگ ہیں ..
شہر کی آنکھوں میں..
نظم
میں پہاڑوں سے اتر آیا
تو مجھ پر یہ کھلا
اب پلٹ جانے کی خواہش ہے فضول
سارے رستے بند ہیں
شہر کی آنکھوں میں اک پیغام ہے میرے لئے.
اسی طرح ایک اور نظم ایک عہد کے نہیں بلکہ عہد بہ عہد مجہول الحال لوگوں کے اندھے سفر پر کاری ضرب ہے.
اندھا سفر
جانے کب سے یونہی جسموں کے خرابوں میں ہیں
آوارہ یہ لوگ
چہرہ چہرہ گرد گرد
ہونٹ آنکھیں – بے صدا
دست و پا-درماندگی
جانے کب تک لوگ یوں چلتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پر لئے ان دیکھا بوجھ
(اندھا سفر)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“