خطہ عرب میں موسیقی کی تاریخ۔
عرب کو ہمیشہ ہمارے ہاں مخصوص تہذیبی نگاہ سے ہی دیکھا گیا، جبکہ عرب کئی قدیم تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے، عرب اسلام سے قبل تو کیا عیسائیت سے قبل بھی موسیقی سے واقف تھے۔ عرب موسیقی کی تاریخ کو کئی اہم ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
قبل از مسیح عرب موسیقی:
عیسوی دور سے قبل تک عرب تہذیب کے بارے میں زیادہ تاریخ موجود نہیں ہے، لیکن جو کچھ دنیا تک پہنچا ہے، اس سے عرب تہذیب اور دیگر تہذیبوں پر اس کی برتری کا انکار نہیں ہوسکتا۔ پہلے ہزار سال قبل مسیح میں واپس جائیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت کے عرب ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے، جس کے مطابق جزیرہ نما عرب کے جنوب میں عرب شہروں کے نشانات کے ساتھ ساتھ بابل اور اسوری کے آثار بھی پائے جاتے تھے۔ نوشتہ جات قدیم عرب تہذیب کے بارے میں معلومات کے موجود ہونے کے باوجود، موسیقی کا موضوع اس دور سے مبہم ہی رہا، یہاں تک کہ عربی موسیقی کا پہلا نشان سترھویں صدی قبل مسیح میں بنی پال کے ایک نوشتہ پر پایا گیا، وہ نوشتہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب اسوریوں کے قیدی ایک گانا گا رہے تھے، یہی نہیں بلکہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قدیم عربوں میں موسیقی کا تعلق مذہبی رسومات، شاعری اور جادو سے تھا اور اسے عربی نسل کے آلات موسیقی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، جس کا اثر پڑوسی تہذیبوں تک پہنچا، جن میں سب سے اہم موسیقی کی انداز بھی تھے۔ میسوپوٹیمیا کے باشندے، یونانی اور عبرانی تہذیچوں جو دیکھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے بعض آلات کے نام عربی کے ناموں سے اخذ کیے گئے ہیں، اور اس کی ایک مثال لفظ (طبلہ) ہے، جو عبرانی میں داخل ہوا ( تبیلا) اور بابل اور اشوریہ کے لوگوں کی زبان (تابولا) کہلایا۔
زمانہ قبل از اسلام (جاہلیہ) میں عربی موسیقی (پہلی صدی سے چھٹی صدی عیسوی تک):
قبل از اسلام دور مکمل طور پر “جاہلانہ” نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسی اصطلاح تھی، جسے اہل عرب میں صرف توحید سے نا آشنائی کی وجہ سے “جاہلیہ” کہا گیا تھا، یہ وہ دور تھا جس کا قدیم عرب ورثے کے تحفظ میں اہم کردار تھا، اہل عرب میں صرف عربوں کی اسلام کی تعلیمات سے ناواقفیت کی وجہ سے اسے “قبل از اسلام” جاہلیہ کہا جاتا ہے۔ دوسری صدی عیسوی کے آس پاس، جزیرہ نما عرب کا شمال جس میں خاص طور پر شام اور عراق جو ابھی تک سامی ثقافت کے سمندروں میں ڈوبا ہوا تھا، یہاں تک کہ اسلام سے پہلے کے عربوں نے جنوب سے شمال “شام، عراق اور جزیرہ نما عرب” کی طرف ہجرت شروع کر دی، اور اپنے ساتھ وہ چیزیں لے کر آئے، جو ترقی میں معاونت کرتی تھیں یعنی موسیقی بھی، اسی عہد میں حجاز اور مکہ میں موسیقی کی سرگرمیاں ابھریں، اور پوری عرب تہذیب کے سب سے معروف بازار “سوق عکاظ” کی محفلوں کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہوگا، جہاں موسیقاروں اور شاعروں کے باقاعدہ مقابلے ہوتے تھے، اس کے علاوہ مذہبی رسومات کے ساتھ جو خوشی اور بطور معاشی تہوار بھی منعقد کی جاتی تھیں۔ مکہ میں حاجیوں کی طرف سے گانے گائے جاتے تھے، تاہم مذہبی موسیقی عربوں کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی تھی جتنی کہ مغرب میں تھی، کیونکہ عرب سب ایک مذہب کے نہیں تھے، اس لیے سیکولر موسیقی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ریی۔
اسلام سے پہلے عربوں کی موسیقی میں انہیں موسیقی کی کمپوزیشن کا علم نہیں تھا، کیونکہ اس وقت موسیقی صرف گانا ہی تھی، جو اس وقت ہر گلوکار اپنے ذوق اور جذبات کے مطابق گاتا تھا۔ جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے جو اسلام سے پہلے کے دور میں موجود تھے، یہ آلات “الطبل والدف والصنوج والجلاجل” یعنی (ڈھول، دف، گھنگھرو اور جھنکار) اور انسانی پھونک یعنی ہوا کے ذریعے بجائے جانے والے آلات جیسے “المزمار بأنواعه” (ہر قسم کی بانسری) وغیرہ تھے۔ الفارابی کی تاریخ میں ہمیں قبل از اسلام کے دور میں تار والے آلات کے وجود کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے، جن کی نمائندگی اس وقت یہ جنہیں عربی والموتر والبربط تنبور، عود، مظہر (چمڑے کے چہرے کے ساتھ ایک لوٹ)، تار والے ساز کیا جاتا تھا , اسی کی ایک شکل (العود الفارسي) فارسی بربری بھی ہوتی تھی۔ اس وقت ایک گلوکار میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں وہ تھیں آواز کی خوبصورتی، اس کی تان ، اور وہ احساس جو آواز کو مسلسل اور بے ترتیب بناتا ہے۔
قبل از اسلام موسیقی کے قابل ذکر لوگوں میں، ہم عدی بن ربیعہ کا ذکر کرتے ہیں، جن کا عرفی نام المهلهل اور العیشہ ہے، جسے عربوں کے جھانجھ کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ وہ جزیرہ نما عرب میں گھومتے پھرتے، شاعری کرتے اور جھانجھ بجاتے تھے۔ عرب خواتین کا اسلام سے پہلے موسیقی میں بھی ایک کردار تھا، جیسا کہ قبائلی خواتین گانے گاتی تھیں، رقص کرتی تھیں اور آلات موسیقی بجاتی تھیں، اور وہاں اس کام سے منسوب “قیان” طبقہ تھا جو مالدار اور قبائلی رہنماؤں کے گھروں میں رہتا تھا اور گایا کرتا تھا۔ ان میں آلات موسیقی اور قایان کا مالک ہونا عربوں کے لیے باعث فخر تھا۔ ہم نے زمانہ جاہلیت کی مشہور خواتین گلوکاروں میں سے بنی عد کی قینات الخنساء میں سے طاد اور تمد اور ام حاتم الطائی ہند بنت عتبہ کا ذکر کیا ہے جو سفر کے بوجھ کو کم کرتی تھیں۔ اپنے قبیلے قریش کے جنگجوؤں کے لیے جنگی گیت گا کر اور مرنے والوں پر نوحہ خوانی کرنے کا کام بھی انہی کا تھا۔
اسلام اور موسیقی:
یہ واضح ہے کہ نئے مذہب “اسلام” نے جزیرہ نما عرب میں عربوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لائیں، جس کا آغاز اسلامی تہذیب کے گہوارہ حجاز سے ہوا، خاص طور پر وہ تبدیلیاں جو موسیقی میں واقع ہوئیں۔ قرآن مجید میں موسیقی کی ممانعت کا کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود اجتہاد بعض اوقات موسیقی کی ممانعت اور دوسرے اوقات میں اس کی اجازت دیتا رہا۔ کئی عرب محققین کا ماننا ہے کہ موسیقی اور گانے کی ممانعت کا تعلق شراب پینے اور تفریحی محفلوں کی ممانعت سے تھا جس میں موسیقی کی جاتی تھی، لیکن دوسری طرف آپ کو بہت سارے واقعات سیرت نبوی میں واضح ملتے ہیں کہ موسیقی سے تعلق رکھنے والی قینات یا ان لونڈیوں کو جو حضرت عائشہ کے گھر آیا کرتی تھیں، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے۔
اس موضوع پر آراء مختلف ہیں، اور یہ اس وقت میری بحث کا موضوع بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ بتانا کافی ہے کہ اسلام نے اپنی نئی تعلیمات کے ساتھ موسیقی کو نئے مراحل کی طرف گامزن کیا اور ایک فکری مباحث ہے، کہ جیسے دوسرے مذاہب میں بھی دعائیں یا عبادت کے لیے ندا مخصوص لے کے ساتھ ادا کی جاتی تھی، اذان بھی ان تبدیلیوں میں سے ایک تھی، مدینہ میں عرب فارسی قیدیوں کے ساتھ گھل مل گئے، اور عربی موسیقی اس مرحلے سے فارسی موسیقی سے متاثر ہونے لگی، اور گانے کی صنعت عرب مردوں تک پہنچی، اور ان میں سب سے پہلے اور سب سے مشہور گلوکار طویس تھے۔ جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے جو ابتدائی اسلام کے دور میں استعمال ہوتے تھے، وہ وہی ہیں جو قبل از اسلام میں استعمال ہوتے تھے۔
اموی دور (سنہء 661 تا سنہء 750) میں موسیقی:
رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد خلفاء اربعہ کے دور کے آغاز میں (632-661 عیسوی) تک ، موسیقی پر ابتدائی یعنی خاص طور پر دو خلفاء حضرت ابو بکر الصدیق اور حضرت عمر کی طرف سے ایک حقیقی روک ٹوک اور ممانعت دیکھنے میں آئی، لیکن تاریخی مصادر کے مطابق حضرت علی اور حضرت عثمان کے دور میں موسیقی اور غناء کے معاملے میں کافی آسانیاں نظر آتی ہیں، ان کے دور حکومت میں عربوں اور غیر عرب مسلمانوں کے درمیان سماجی زندگی کے پہلو بدل گئے، اور اس طرح موسیقی کی حوصلہ افزائی نظر آئی ، اس کے بعد جب خلافت بنو امیہ کے پاس گئی تو امویوں نے خلافت کے دار الحکومت دمشق میں خوبصورت ترین محلات تعمیر کرائے اور گانے بجانے کو محض غلاموں کی نوکری سے لے کر اعلیٰ سماجی عہدوں کے حامل وفاداروں کے کام کی طرف منتقل کر دیا گیا، جو خلیفہ کے محلات میں داخل ہو گئے۔ اس وقت موسیقی سے وابستہ افراد کو بے شمار تحائف اور انعامات سے نوازا گیا۔
عرب سلطنت کے مشرق میں ہندو پہاڑوں اور مغرب میں بحر اوقیانوس تک پھیلنے کا اثر عربی موسیقی پر بھی پڑا، کیونکہ یہ یونانی موسیقی کے نظریات اور فارسی موسیقی کی خصوصیات سے متاثر تھی، اور یہ اثرات دنیا میں نظر آتے ہیں۔ عربی موسیقی کی دھنیں آج تک۔ ہم ان سر اور تالوں میں سے سنتے ہیں، اموی دور میں بڑے پیمانے پر جو موسیقی کی اصطلاحات معروف خفيف الرمل (8/10)، وخفيف الثقيل (8/6) تھیں، اموی دور میں سب سے نمایاں عرب گلوکاروں میں سائب خائر اور خواتین میں عزة الميلاء اور جمیلہ شامل تھیں۔ اس کے علاوہ فضل ابن مسجع کو کیسے بھولا جا سکتا ہے، جو قدیم عربی موسیقی کے باپ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہوں نے سریلی آواز کو متعارف کرایا۔ ایجادات اور بجانے، گانے، اور کمپوزنگ کے لیے بنیادیں اور نظریات قائم کیے، ان کے بعد گلوکار اور موسیقار، جیسے ابن سریج اور ابن محرز ان کے نقش قدم پر چل پڑے، قابل غور بات یہ ہے کہ اموی دور میں انہوں نے “النغم” اور “القیان” کتابیں لکھیں، جن کے مصنف یونس نے بعد میں موسیقی کی فکری تحریک کے آغاز کی راہ ہموار کی۔
عباسی دور میں موسیقی (سنہء 750 تا سنہء 1258 ):
جب عباسی دور کا ذکر کیا جاتا ہے، تو عربوں اور مسلمانوں کے لیے وہ سنہری دور ذہن میں آتا ہے، جس کے دوران عباسی فارس میں قدیم ساسانیوں کی شان کو پیچھے چھوڑنا چاہتے تھے، اور سائنس اور دمشق سے بغداد منتقل ہونے کے بعد ان کے ہاتھوں فنون کو زندہ کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ، لیبارٹریز اور ہسپتال بنائے گئے۔ ہمیں عباسی خلفاء کے فن کے شوق کے بارے میں بتایا گیا تھا، یہاں تک کہ ان کے وفاداروں کے کمانڈروں کے دربار تقریباً موسیقی کے اداروں اور کونسلوں میں تبدیل ہو چکے تھے، اس کے علاوہ عباسی خلفاء موسیقاروں کو عطیات اور تحائف دیتے تھے۔ اس ماحول نے موسیقاروں کو ترقی دی، اور انہیں کئی طریقوں سے موسیقی کی سطح اور مرتبے کو بلند کرنے میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی، جس میں گانے کی کارکردگی، تحقیق اور موسیقی کا مطالعہ شامل ہے۔ ابن منجن کی كتاب “رسالة في الموسيقى” بھی اسی عہد کی شاندار تصنیف ہے، عربی موسیقی پر یہ قابل قدر تحقیقی کام ملا، جو کہ پندرہویں صدی تک استعمال کیا جاتا تھا، یہ “الفيثاغوری الإغريقي” پیمانے سے ملتا جلتا ہے، کیونکہ عربوں نے ترجمے کے ذریعے بہت زیادہ یونانی علوم سے استفادہ کیا، جو کہ اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے، نویں صدی عیسوی ہارون الرشید کا دور (سنہء 786 تا سنہء 809) ثقافت، ادب اور فن میں شان و شوکت سے بھرا ہوا دور تصور کیا جاتا ہے۔ موسیقی کی عظیم ترین صلاحیتوں والے افراد ابراہیم الموسیلی، اسحاق الموسیلی، ابن جامی، زلزل جیسے دوسرے لوگ اس کے دربار میں جمع ہوئے۔
نویں صدی تک گلوکاری عام اور غالب موسیقی کی سرگرمی رہی، ابو نصر فارابی نے بارہ سو صفحات کی کتاب “الموسیقی الکبیر” صرف فن موسیقی پر لکھی ہے یہ زریں دور تھا جب مسلمانوں نے ہر فن پر ناقابل فراموش کتابیں لکھیں، دسویں صدی عیسوی تک فارسیوں، منگولوں اور ترکوں کے ساتھ اختلاط سے حاصل کی گئی عربی موسیقی میں ایک نیا نقطہ نظر سامنے آیا۔ آلات کی کارکردگی کا طریقہ، اور اس کے بعد دیگر آلات کے ساتھ موسیقی کی اصلاح کا تعارف۔عود کے علاوہ، جسے موسیقی کے آلات کا بادشاہ یعنی
سيد الآلات، جیسے القانون جو دسویں صدی میں شام میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا تھا، اس کے علاوہ رباب بھی شامل تھا۔ جلد ہی، موسیقی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوئی، اور عربوں سے موسیقی کے نئے نظریات نے کارکردگی اور ساخت کے طریقوں سے جنم لیا، یہاں تک کہ مغرب نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ عربوں نے موسیقی میں ایک قابلیت کی ایک اوج بخشی ہے، کیونکہ وہ کمپوزیشن کے قابل تھے۔ نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان تمام فنون اور موسیقی کے علوم میں بہترین کام کیا گیا۔ 14ویں صدی میں ابو الفیدہ اور ابو الولید بن الشہنہ کی تحریروں میں العود ساز کے بارے میں اور تاریخ کی ممکنہ وضاحتیں موجود ہیں۔
جہاں تک موسیقی کی نشاۃ ثانیہ کے عروج کا تعلق ہے، یہ آٹھویں اور پندرہویں صدی کے درمیان اندلس میں ہوا، سنہء 713 میں اندلس میں اسلام کے داخل ہونے اور بغداد میں خلافت عباسیہ سے الگ اموی خلافت کے قیام کے ساتھ، قرطبہ اس کا دارالحکومت تھا۔ نویں صدی عیسوی میں ایسے اسکول قائم کیے گئے جن کا مقصد اسکولوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔بغداد میں سکولوں اور اداروں کا قیام سلامانکا میں پہلے میوزک کالج کے قیام پر منتج ہوا۔ قرطبہ میوزیکل کلچر کا گڑھ بن گیا، اور عرب گائیکی کے امام زریاب کی تخلیقی صلاحیتیں، جنہیں فارسی اور عربی موسیقی کی ابتدا غیر معمولی موسیقار اسحاق الموصلی کے ہاتھوں سکھائی گئی جو وہاں اور دوسرے مقامات میں بھی پروان چڑھی۔ پندرہویں صدی میں جیسے ہی اس نشاۃ ثانیہ کے شعلے دم توڑنا شروع ہوئے، مغرب نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سولہویں صدی کے اوائل میں اسے دوبارہ یورپ میں روشن کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عربی موسیقی کے آلات جیسے عود اور بربط اور طنبور کی یورپ تک ترسیل ہوئی۔ میوزیکل سائنس ان نظریات اور تحقیق کے سمندر میں صرف ایک قطرہ ہے جو مغرب نے سائنس کے مختلف شعبوں میں عربوں سے لیا، جس کے نتیجے میں یورپ میں تاریکی کے دور میں ڈوبنے کے بعد ترقی اور شہری زندگی کے بہترین نظم کے طریقہ کار کو زندہ کیا گیا، ظاہر ہے کہ معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کے بغیر سماجی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اندلس میں عرب تہذیب کے خاتمے کے بعد وہاں کی آبادی کی ایک بڑی تعداد شمالی افریقہ منتقل ہوگئی، اور اندلس کی موسیقی کے اثرات ان لوگوں کی موسیقی پر چھا گئے، اور اندلس کی موسیقی ایک مذہبی اور فنکارانہ نوعیت کی ثقافت کا حصہ بن گئی۔ یہ لوگ قدیم صوفی شاعری سے ماخوذ واعظ کے ساتھ تعریف کرتے ہیں، چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں، مذاق کرتے ہیں اور اس کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ پھر اس قسم کے فن کو دیگر مشرقی اثرات سے متاثر کیا گیا، اور اسے مراکش میں (الآلي) کے نام سے جانا جانے لگا، تاکہ اسے اس فن سے ممتاز کیا جا سکے جو صرف گلوکاروں کی آوازوں پر انحصار کرتا ہے۔ الجزائر میں اسے (الصنعة الجزائرية) کہا جاتا ہے، جبکہ تیونس اور لیبیا میں اسے (المالوف) کہا جاتا ہے۔
عثمانی دور میں موسیقی:
سنہء 1453 میں ترکوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا اور یہ اندلس میں عرب تہذیب کے زوال سے تقریباً چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ عثمانیوں نے دنیا کے ایک وسیع علاقے میں عثمانی اثر و رسوخ کو پھیلانے کے ایک ذریعہ کے طور پر اسلام قبول کیا، اور ان کی حکمرانی ایک وسیع و عریض سلطنت کی شکل اختیار کر گئی جو تقریباً سنہء 1529 میں ویانا پہنچ گئی۔ عثمانیوں کو موسیقی سے بہت محبت تھی، اور عثمانی خلیفہ کی موسیقی میں دلچسپی مذہبی پیروکاروں کی طرف سے خوف کی وجہ سے بڑھ گئی، جو ایک تحریک جو صوفیانہ طرز پر صوفی جلال الدین الرومی سے منسوب ہے – جو اس وقت موسیقی کے دن یا صنعت کہہ لیں اس کو کنٹرول کرتا تھا، سلطان سلیم سوم پہلے عثمانی سلطان تھے جنہوں نے “تكايا المولوية” یعنی مکربہ مولویہ سے موسیقی کو ہٹا کر قصر الخلافة” یعنی محل کی خلافت میں شامل کیا۔
عثمانی دور میں موسیقی پہلے ترک کردار سے متاثر تھی، یونانی، عربی اور فارسی نظریات دوسرے اور یورپی کردار تیسرے نمبر پر تھی۔ ترکوں میں موسیقی اور ترانہ سازی کی قسمیں مشہور تھیں، جیسے کہ بشرف، سماع، مواشہات اور قدود، اس سے عربی موسیقی کسی حد تک زوال کی حالت میں آگئی، خاص طور پر مملوکوں اور ایوبی ریاستوں کے دور میں۔ مصر میں فرانسیسیوں کے داخلے کے بعد مغربی موسیقی کے کردار سے موسیقی بہت زیادہ متاثر ہوئی، مستند عربی موسیقی کی تاریخی حیثیت کے مقام کو کھو جانے کی وجہ ترکوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
جدید دور میں عربی موسیقی:
عرب موسیقی کے نشاۃ ثانیہ کا دور (سنہء 1800 تا سنہء 1910)
موسیقی کےنشاۃ ثانیہ سے پہلے، عرب مشرق اپنے اندر بند ہو گیا تھا، جس نے عرب ممالک پر ترکی، فرانسیسی اور برطانوی حکمرانی کا طوق گھسیٹ لیا تھا۔ ان مغربی لوگوں کے ساتھ جبری رابطے نے آزادی کے خواہشمند عربوں میں انقلابی حیثیت پیدا کر دی، چنانچہ مصر، شام اور دیگر جگہوں پر انقلاب برپا ہو گئے اور انہوں نے اپنی آزادی اور خود مختار ریاست حاصل کر لی۔ انقلاب کے بعد کا دور قدرتی، انسانی اور قانونی حقوق کی سطحوں پر تعمیر، تجدید اور اصلاحات کے ثمرات دینے کا پابند تھا، تجارت، معیشت، زراعت، صنعت اور سائنس اپنی تمام شاخوں میں، اور فنون لطیفہ اپنے تمام پہلوؤں میں عرب نشاۃ ثانیہ کے دور میں موسیقی کے فن کو بہت زیادہ توجہ حاصل ہوئی، کیونکہ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں جدید عرب میوزیکل اسکول کے سائنسی اور نظریاتی شعبوں میں نشاۃ ثانیہ کا مشاہدہ کیا گیا، اور اس کے اثرات، کام اور شخصیات موجود تھیں۔ نہ صرف عربی موسیقی کے نقش قدم پر بلکہ مغربی موسیقی میں بھی اس مکتب کے علمبرداروں میں سے ایک محمد شہاب الدین ہیں، جو کتاب “سفينة شهاب” کے مصنف ہیں، جو انیسویں صدی میں موسیقی کی تحقیق کے ستونوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، انھوں نے اپنی نوٹ بک میں تقریباً ساڑھے تین سو گیت متعدد مقامات، پیمانے، نظموں اور تاثراتی انداز پر مبنی رکھے تھے۔ محمد عبد الرحیم، جو “المسلوب” کے لیے مشہور ہیں، عربوں نے پھر ان کا دور دیکھا، جو سب سے پہلے “الدور” گانے والے تھے۔ انیسویں صدی کے آخر تک، عربی ساز ‘عود’ مقبولیت میں برقرار رہا کیونکہ عرب موسیقی کھل گئی اور بیسویں صدی میں، ریکارڈنگ اور فلم میں تبدیل ہوئی۔ عود سا بنانے والے بھی پھلے پھولے۔ آج بھی موسیقاروں اور شوقیہ جمع کرنے والوں کے پاس اس عہد کے قیمتی عود موجود ہیں۔
سنہء 1910 کے بعد:
بیسویں صدی کا آغاز ہوا، اور عرب دنیا نے مہلک جہالت کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنا شروع کیا، اور مغربی جدیدیت کی تصویریں ایجادات اور دریافتوں تک پہنچ گئیں، اور قدیم و جدید کے درمیان کشمکش میں تجاوز کرنے والے یورپی استعمار نے عرب دنیا میں اپنی جگہ بنانا شروع کی۔ بیسویں صدی کا اختتام بیداری کی پہلی علامتیں لے کر آیا۔ صوفی نعرے لگانے والے گروہ نمودار ہوئے، جو عربی اشعار، نظمیں اور کردار اپنی اصلی اور شاندار شکل میں پیش کر رہے تھے۔ سنہء 1930 کی دہائی سے شام میں موسیقی کے ادارے بننے شروع ہوئے، اور مصر میں سنہء 1920 کی دہائی سے ان کا اغاز ہو چکا تھا ان میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں، یہ دور اپنے ساتھ بڑے حیران کن واقعات کا تسلسل لے کر آیا، جن میں سب سے اہم موسیقی کی تدوین کا آغاز تھا، جسے کچھ مورخین سنہء 1930 کی دہائی کے ساتھ ساتھ دھنوں کا مطالعہ کرنے کے لیے مصر میں سنہء 1932 میں پہلی عرب موسیقی کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ موسیقی کی تدوین اور عربی موسیقی سے متعلق ہر چیز، جدید دور میں موسیقی کی نمایاں شخصیات میں سے: ابو خلیل القبانی، محمد عثمان، عمر البطش، شیخ عبدو الحمولی، شیخ عثمان الموصلی، اور سید درویش شامل رہے۔
حوالہ جات :
[1] مصنف : ڈوننگٹن، رابرٹ، Donington, Robert : باروک میوزک: اسٹائل این پرفارمنس ، انگلینڈ: فیبر میوزک، 1985: 91
[2] الفارقی، لوئس ابسن Lois Ibsen: کی کتاب “Ornamentation in Arabian Improvisational Music موسیقی کی دنیا 20، 1978(1):17-32۔
[3] الیاس تیسیر،Elias Taiseer کی دی The Latent Regularity in Improvisation of Arab Music (taqsim) in Israel, in Terms of Learned and Natural Schemata، پی ایچ ڈی، Hebrew University of Jerusalem.
یہ غیر مسلم ریفرنسز باقاعدہ لکھے ہیں، وہ عرب موسیقی کی تاریخ کو قبول کرتے ہیں، ویسے عرب تاریخ کے حوالہ جات لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، مضمون میں ہی کئی کتب کے نام لکھ دئیے ہیں۔
2- ہمارے ہاں مذہب میں موسیقی کی فقہی اعتبار سے اختلافی آراء موجود ہیں، حالانکہ بیسیوں احادیث یا روایات عزت ماب رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے ادوار میں صحابہ کی زندگی سے بھی ملتی ہیں۔ رسول اللہﷺ کا استقبال مدینہ میں دف بجا کر کیا جارہا ہے، اور جیسے
ويروي النسائي أيضًا عن عامر بن سعد يقول: دخلت على قرظة بن كعب، وأبي مسعود الأنصاري في عرس، وإذا جوار يغنين، فقلت: أنتما صاحبا رسول الله، ومن أهل بدر، يفعل هذا عندكم؟ فقالا: «اجلس إن شئت فاسمع معنا، وإن شئت اذهب، فقد رُخّص لنا في اللهو عند العرس
ترجمہ : امام نسانی نے عامر بن سعد سے روایت کی کہ میں یعنی عامر قرظہ بن کعب اور ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا وہاں ایک لڑکی گانا گا رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا آپ دونوں نہ صرف صحابہ میں سے ہیں بلکہ بدری صحابہ ہیں اور آپ لوگ گانا سن رہے ہیں ۔۔
انہوں نے فرمایا ۔۔۔
اگر سننا ہے تو سنو ورنہ یہاں سے چلے جاؤ ۔۔
تحریر : منصور ندیم
مورخہ 31 دسمبر سنہء 2023
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...