کھلونے دے کر بہلایا گیا ہوں / حب الوطنی کی تعریف گڑھنے والے جانتے ہی نہیں کہ قانون سازی میں غداری کی تعریف کیا ہے ؟
جے ان یو میں لفٹ کا پرچم لہرایا .یہ بھی بغاوت کی خاموش آواز ہے .یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں کے کیی نوجوانوں کو حکمران طبقہ اور میڈیا نے غدار وطن کہا تھا .آپ یہ بھی دیکھئے کہ ان چار برسوں میں دیش پریم کا سرٹیفکیٹ باٹنے والوں نے خود کو ہی کس طرح دھوکہ دیا ہے .بات زیادہ پرانی نہیں . انیس فروری ٢٠١٦ .اس وقت بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) معاملے میں مرکزی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر نشانہ لگاتے ہوئے سوال کیا تھا کہ جے این یو طالب علم یونین صدر کنہیا کمار کی گرفتاری کے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی پولیس اس کے خلاف غداری کا ثبوت نہیں جٹا سکی، تو ملک سے غداری کا الزام کیسا؟انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو اب ملک کے عوام کو بتانا چاہئے کہ ان کی نظر میں غداری کی تعریف کیا ہے؟ بی جے پی نے جبرا اس مسئلے کو اچھالا ہے، تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف مرکوز کی جا سکے.
نتیش اب کہاں ہیں دنیا جانتی ہے ..صحافت کے اصولوں میں سے ایک ہے کہ انتظامیہ اور سسٹم کی صحتمند تنقید کی جائے .اس سے عوام اور حکومت کے درمیان توازن برقرار رہتا ہے .ان چار برسوں میں نہ صرف دیش بھکتی کی نیی تعریف گڑھی گیی بلکہ جمہوریت کے چوتھے ستوں کو گرا کر اس توازن کو ختم کر دیا گیا —
آئین کی دفعہ 124 (ع) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص ملک کے خلاف لکھ کر، بول کر، یا پھر کسی بھی طرح کے اظہار سے بغاوت کرتا ہے، لوگوں کو اکساتا ہے، یا پھر نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے تو آئی پی سی کی کیس 124 (A) اس پر قائم ہے. اس قانون کے تحت، مجرم شخص کو قید کی سزا کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کا حکم گیا ہے. برطانوی حکومت میں یہ قانون بنا .جبکہ یہ قانون اب انکے یہاں بھی نہیں ہے .
اس دفعہ کو لے کر سپریم کورٹ نے بھی کچھ فیصلے سنائے ہیں کہ کوئی بھی حرکت، حکومت یا نظام کے خلاف ہو یا پھر کوئی تنقید ہوتی ہے تو اسے غداری نہیں کہا جا سکتا. بلکہ اس بغاوت کی وجہ سے کوئی تشدد اور قانون کا مسئلہ پیدا ہو تبھی غداری کا کیس بنے گا. سپریم کورٹ نے 1962 میں کیدارناتھ بمقابلہ بہار ریاست کے کیس میں تاریخی فیصلہ دیا تھا. اس معاملے میں سپریم کورٹ نے فیڈرل کورٹ آف انڈیا (برطانوی) سے اتفاق کیا. سپریم کورٹ نے کیدارناتھ کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت کی تنقید یا پھر انتظامیہ پر کیا گیا تبصرہ غداری کی زمرے میں نہیں آتا ہے.مارچ 2015 میں، سپریم کورٹ نے اسے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 66A کو منسوخ کرتے ہوئے صاف کیا تھا کہ آئینی حدود کے باہر کی چیزوں کے لئے مناسب کارروائی کی جا سکتی ہے. قانون ساز سولی سوراب جی نے کہا کہ حکومت پر تنقید کرنے والے غدار نہیں ہو سکتے . ابھی حال ہی میں گجرات میں ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک شروع کرنے والے ہاردک پٹیل کو بھی اکتوبر 2015 میں گجرات پولیس کی جانب سے غداری کے کیس کے تحت گرفتار کیا گیا تھا.. ستمبر 2012 میں كاٹورنسٹ اسیم ترویدی کو بدعنوانی مخالف تحریک کے وقت ویب سائٹ پر آئین سے منسلک تصاویر پوسٹ کرنے کی وجہ سے اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا. تاہم، اس کے بعد سے الزامات واپس لے گئے تھے. 2007 میں بنايك سین پر نکسل نظریات کو پھیلانے کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی. 2010 میں اروندھتی رائے اور حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی پر کشمیر-ماؤنوازوں کے حق میں ایک بیان دینے کی وجہ سے غداری کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا.
—–اصل غداری یہ ہے ….
حکومت ،مرکزی کابینہ ،وزرا کی طرف سے دیے جانے والے زیادہ تر مخالف بیانات کا پس منظر یہ رہا ،کہ دنگے بھڑکے نفرت کا پر تشدد ماحول پیدا ہوا .ملک کے حالات خراب ہوئے ..یہ غداری ہے…. ملک کے مختلف حصّوں میں آگ لگی .انسانیت داغدارہوئی — سامانوں کو نقصان پہچا .یہ وہ بیانات تھے جنہونے گووند پانسرے ،بھولکر ،کلبرگی ، پہلو خان ،اخلاق کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا .یہ وحشت اور دہشت کو زندہ کرنے والے ملک مخالف بیانات تھے جنہوں نے گاؤ رکشکوں کے متعدد مشتعل ہجوم کو پیدا کیا .انکے تشدد کے واقعات سڑکوں پر آج بھی عام ہیں ….پاکستان اور قبرستان بھیجو جیسے نعرے دینے والے ،قانون اور آیین کی شق سے ملک غدّاری اور دیش دروہ کے دائرے میں آتے ہیں .کیونکہ ایسے ہر اشتعال انگیز بیان کے بعد فسادات ،انسانوں کی ہلاکت ،جان و مال کے نقصان جیسی خبریں سامنے آی ہیں .اس مکمل جایزے پر آئیے تو میڈیا کی فروخت ایک سنسنی خیز اور خوفناک معاملہ بن کر سامنے آتا ہے .زی نیوز اور انڈیا tv کا مکمل اپروچ قانون اور آیین کی دھجیاں اڑاتا ہوا نظر آتا ہے .ان میں سے زیادہ تر چینلوں نے مخالف آگ بھڑکا کر انسانی جانوں کا زیاں کیا ہے .اور آج بھی کر رہے ہیں .اگر میڈیا بک گیا تو عوام کے پاس کیا رہ جاتا ہے ؟ اگر ترسیل اور ابلاغ پر حکومت دباؤ قایم کرتی ہے تو اخبارات اور ٹی وی چنیلز سے اعتماد اٹھ جاتا ہے .اگر مکمل میڈیا سرکاری ایجنسیوں کو فایدہ پہنچاتا ہے تو ظاہر ہے ، اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ کر پانا مشکل ہے .نوٹ بندی سے جی ایس ٹی تک میڈیا عوام کو بے وقوف بناتی رہی .کروڑوں کی تعداد میں ملک میں بے روزگاری آ گیی .یہ بھی کہا گیا کہ گاؤ رکشک در اصل بے روزگار نوجوان ہیں ،جنہیں آسانی سے اس کام کے پیسے مل جاتے ہیں . میڈیا نے بھروسے اور اعتماد کو توڑتے ہوئے ملک کو کمزور کرنے اور فسادات میں نمایاں کردار ادا کرنے کا کام کیا .یہ ملک سے غداری ہے .گوری لنکیش کے بعد کٹیا کہنے اور مسلمانوں کو کتے کے پلے بتانے والے بیانات ملک دشمنی کے دائرے میں آتے ہیں .کیونکہ اس کے بعد ملک میں جو پر تشدد ماحول قایم ہوتا ہے ،اسکی نظیر ملنی مشکل ہے .
امرتیہ سین ،اروندھتی رائے جیسے سیکولر لوگوں کی بے چینی بتاتی ہے کہ ملک کہاں جا رہا ہے .یہ میرا انڈیا کی موسیقی پر رقص کرنے والا عالمی شہرت یافتہ موسیقار رحمان اگر یہ کہتا ہے کہ یہ میرا انڈیا نہیں ہے ،تو فاشسٹ طاقتوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ درد کا کلمہ ادا کرتے ہوئے اسے کس قدر دکھ پہچا ہوگا .
حکومت نے میڈیا کا سہارا لے کر نصاب کی نیی کتابوں میں دیش بھکتی کے نیے باب کا خطرناک اضافہ کیا ہے .جو غلامی کے وقت فرنگیوں کے ساتھ تھے ،وہ حب الوطنی کا سبق پڑھا رہے ہیں .
اب حکمران طبقہ سے میڈیا تک کو ایک ہو کر پوری طاقت سے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ملک غداری کیا ہے اوروطن سے محبّت کیا ہے …
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"