عثمانی خلافت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکہ خلافت کو جزیہ دیتا تھا۔ 1783ء میں جب پہلی بار امریکی بیڑے بین الاقوامی پانیوں میں اُترے تو دو سال بعد ہی عثمانی بحری فوج نے ان کو قابو کر لیا۔ 1793 تک مزید 12بحری بیڑے قابو میں کر لیے گئے۔ آخر کار 1795ء میں امریکہ عثمانی خلافت سے لاحق اس پریشانی اور خطرے کی وجہ سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گیا جس کو’’Barbary Treaty ‘‘ کا نام دیا گیا۔ باربیری کا لفظ خلافت کے شمالی افریقہ کے ولایوں الجیریا‘ تیونس اور تریپولی کے لیے استعمال ہوتاتھا۔ اس معاہدے کی شرائط یہ تھیں۔
1۔اس معاہدہ کے مطابق امریکہ 463.992 لاکھ ڈالر پہلی دفعہ ادا کرنے ہوں گے۔
۲۔قابو کی ہوئی امر یکی کشتیاں واپس کر دی جائیں گی اور امریکی بحری بیڑوں کو بحرَاوقیانوس اور بحرَروم کے درمیان کشتیاں چلانے کی اجازت ہوگئی۔
۳۔اس کے بدلے میں امریکہ لاکھ ڈالر سونے کی صورت میں ادا کرے گا۔
۴۔ امریکہ ۱۲ ہزار ڈالر سالانہ ٹیکس سونے کی مد میں ادا کرے گا۔
۵۔575000 ڈالر گرفتار شدہ سیلرز کی مد میں ادا کیے جائیں گے.
٦۔ایک اعلی معیار کا بحری بیڑا عثمانی خلافت کے لیے تیار کیا جائے گا جس کے تمام اخراجات امریکہ برداشت کرے گا۔
یہ معاہدہ تُرک زبان میں لکھا گیا جس پر امریکی صدر واشنگٹن نے دستخط کیے۔ یہ واحد امریکی سرکاری دستاویز ہیں جو کسی بیرونی زبان میں لکھی گی اور یہ واحد معاہدہ ہے جس پر امریکہ دستخط کر کے کسی دوسری قوم کو سالانہ ٹیکس دینے پر مجبور ہوا ہو۔ یہ تھی اسلامی ریاست کی طاقت جس نے آج کی سپر پاور کو گھٹنے پر مجبور کر دیا تھا.
مگر آج ہم اقوام متحدہ کو جزیہ دے رہے ہیں اور اسی امریکہ سے بھیک مانگ رہے ہیں ۔جس سے ہم بزور بندوق جزیہ وصول کرتے تھے۔
کاش کہ مسلمان کو سمجھ آئے.
(خلافت زندہ باد)