خلافتِ عثمانیہ ترکیہ اور ہالینڈ میں جنگ
روٹرڈیم میں ترکوں اور پولیس کے مابین تصادم۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال۔
ہالینڈ کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں ساڑھے چار لاکھ ترک ہیں۔
اور اردوگان کو اپنے اختیارات میں توسیع کے بارے میں ہونے والے ریفرینڈم کے لئے ان ترکوں کا ووٹ درکار ہے۔ اس کے لئے پہلے ان کے وزیرِ خارجہ ایک جلسے کیلئے تشریف انا چاہتے تھے جس کی اجازت نہیں دی گئی اور کل خاتون وزیرِ گھریلو امور، فاطمہ بتول، روٹرڈیم کا دورہ کرنا چاہتی تھیں، جنہیں پولیس نے دوبارہ جرمنی کی سرحد تک واپس لوٹا دیا جہاں سے وہ آئی تھیں۔ وہ روٹرڈیم میں ریلی منعقد کرنا چاہتی تھیں، جس کی اجازت ڈچ حکومت نے نہیں دی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ہالینڈ میں ترک سیاست کے ایشوز پر سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ترک حکومت نے اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ انقرہ میں ڈچ سفیر جو اس وقت ترکی سے باہر ہیں انہیں فی الحال واپس نہ آنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اور ہالینڈ کے خلاف جلد ہی مزید کاروائیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔
یہاں مقیم ترک اردوگان کے بارے میں منقسم ہیں لیکن اکثریت اس کی حمائت کرتی ہے۔ ان کا شمارسری نامیوں اور مراکشویوں کے ساتھ ہالینڈ میں مقیم غیر ملکیوں کے سب سے بڑی کمیونیٹوں میں ہوتا ہے۔ جو زیادہ تر روٹرڈیم اور ایمسٹرڈیم میں مقیم ہیں۔ یہ لوگ بیشتر ان ترکوں کی اولاد ہیں جن کو ستر کی دہائی میں ڈچ حکومت نے خود اپنے یہاں کے سخت اور کم مرتبہ کام کرنے کے لئے مدعو کیا تھا۔
یاد رہے کہ ۱۵۵ مارچ کو ہالینڈ میں بھی قومی انتخابات ہو رہے ہیں جن میں دائیں انتہا پسند لیڈر وِلڈرز کے فاتح بننے کے واضح امکانات ہیں۔ جن کا نعرہ ہے کہ قران کو ہالینڈ میں بین کر دینا چاہئیے اور انتہا پسند دائیں بازو کی چڑھتی ہوئی لہر کے سامنے بائیں، معتدل اور لبرل سیاستدان کے لئے بھی یہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے جو امیرالمومنین اردوگان کے جارحانہ اقدامات سے پیدا ہو رہی ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے ترک حکومت ان اقدامات کو نازی ازم اور فاشزم سے تعبیر کرتی ہے جبکہ خود ترکی میں مخالفین کے لئے قرونِ اولیٰ والی بربریت کا راج ہے۔
؎ ”جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی“
چت بھی میری، پٹ بھی میری۔ کر لو جو کچھ کرنا ہے!
(شمعون سلیم: ہارلم، ہالینڈ )
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔