بسم اللہ الرحمن الرحیم
عشق بلاخیزکاقافلہ سخت جاں
پاکستان:قصہ صدی گزشت
26فروری 1922
ہندوقیادت اپناکھیل کھیل چکی تھی اور منزل کے قریب پہنچی ہوئی تحریک خلافت اب سبوتاژہونے کوتھی۔لیکن مسلمان ابھی بھی مایوس نہیں تھے اورعوام کاجوش و خروش بھی دیدنی تھا۔اس سب پر مستزادیہ کہ خود ہندو ملت کے اندر بھی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت اورعوام الناس گاندھی جی کے اس فیصلے سے سخت نالاں تھے۔بلکہ صف اول کی ہندوقیادت جوابھی پابندسلاسل تھی ان کی طرف سے بھی گاندھی جی کے اس فیصلے پر شدیدردعمل آیاتھا۔غلط اوریک طرفہ فیصلے کے خلاف اس سلسلے نے گاندھی جی اور ان کے قریبی ہندوساتھیوں کو اخلاقی طورپر مجبورکردیاکہ وہ ”بارڈولی“میں کیے گئے فیصلوں پر نظرثانی کریں۔چنانچہ آل انڈیامشترکہ کمیٹی(AICC) کااجلاس حکیم اجمل خان (مرحوم)کے گھر24,25فروری1922کوواقع دہلی میں ہوا۔اس اجلاس میں بھی بہت ردوکدہوئی اور مسلمان راہنماؤں کی طرف سے اور ہندومسلم اتحاد کے حامی ہندوقیادت کی طرف سے بھی گاندھی جی کی شدید مخالفت ہوئی۔دو دن تقریروں اور دلائل اور بحث مباحثہ میں طرفین کی طرف سے دلائل دیے جاتے رہے۔اجلاس کے دوران بار بار اندازہ ہوتاکہ اب بازی الٹ جائے گی اور اب کایا بدل جائے گی اوراب پھرہندوستانی سیاست شیروشکر ہوجائے گی لیکن اس وقت یہ سب امیدیں دم توڑ گئیں جب گاندھی جی نے سب کیے کرائے پر پانی پھیردیا۔ہندومسلم اتحاد کی سب تدبیریں اور تحریک خلافت کی کامیابی سے وابسطہ تمام مساعی شاطر ہندوقیادت کی بھینٹ چڑھ چکیں۔گاندھی جی نے اجلاس کے آخر میں فیصلے کے طورپر ”باڈولی“کے فیصلوں کی توثیق مکرر کر دی اورمعاملہ وہیں کاوہیں رہاجہاں سے گویاچلاتھا۔”بارڈولی“ریاست گجرات کے ایک قصبے میں 12فروری 1922کو فیصلہ کیاگیاتھاکہ تحریک خلافت کے تمام احتجاج معطل کردیے جائیں،مظاہرے فوری طورپر بندکردیے جائیں،جلسے اور جلوس اورردعمل کے تمام جمہوری طرق سے دستبردارہوجایاجائے۔اس اجلاس میں یہ فیصلے بھی کیے گئے کہ گرفتارافراد کے لیے قانونی چارہ جوئی جاری رکھی جائے اورتعلیمی و ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بھی معطل نہیں ہوں گی۔تاہم 24,25فروری دہلی کے اس اجلاس میں اتناضرور ہواکہ اجلاس کے فیصلے کے طورپر اعلان کیاگیا کہ انفرادی سطح پر احتجاج جاری رکھاجاسکتاہے۔
یہ فیصلہ مسلمانوں کی تحریک خلافت کے ساتھ ایک اورسنگین مذاق تھاجو گاندھی جی اور ہندوقیادت نے کیا۔دورنبوت سے آج تک مسلمانوں کو بنی قریظہ سے واسطہ پڑتارہاہے۔ مومن سادہ لوح ہوتاہے اور اس کامطمع نظر دنیاکی بجائے آخرت کی کامیابی ہوتاہے اسی لیے مسلمان اپنے اخلاص و عالمگیرمحبت اوردردانسانیت میں کل بنی آدم کوساتھ لے کرچلناچاہتاہے لیکن اس وقت انتہائی مایوسی کاسامناکرناپڑتاہے جب دوسری طرف سے محبت کے جواب میں نفرت اور اخلاص کے ردعمل میں نفاق میسرآتاہے۔سقوط بغدادسے سقوط غرناطہ تک اور1857سے1971تک تاریخ اسلام کے سب صفحات اسی طرح کی داستانوں سے رنگین ہیں۔ہندوچاہتے تومسلمانوں کاساتھ دے کر ایک ہزارسالہ احسانات کا بہترین بدلہ چکاسکتے تھے،مسلمانوں کے ساتھ وفاکرتے توانہیں جواب میں اسی طرح کی راحت اورآسودگی سے بھرپور زندگی میسرآتی جیسی انہوں نے آشوک کے زمانے میں بھی نہ دیکھی تھی۔لیکن تاریخ کاپہیہ چلتارہتاہے اور ہرہرلمحہ اپنے آپ کو دہراتاہے۔کل تاریخ انسانی سے اہل ایمان سے غداری کرنے والوں کو ہمیشہ بدترین انجام میسرآیاہے لیکن تف ہے کہ بعدمیں آنے والوں نے کبھی اپنے پیش رؤں سے عبرت حاصل نہیں کی۔آج اکیسویں صدی کی دہلیزپر ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ہندو نچلی ذاتوں کی اقوام بھی چکی میں دانے کے ساتھ گھن کی طرح پس رہی ہیں اور مملکت کی تمام مراعات نسل درنسل صرف برہمن اوربرہمن زادوں کو میسر ہیں۔لیکن پھربھی کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتاہی رہا۔25فروری1922کے اجلاس میں کیے گئے یہ فیصلے مسلمانوں کے لیے دل شکنی اور فریب زدگی سواکچھ نہ تھے۔صدیوں کے ساتھ کو ہندوقیادت نے پاؤں کی ٹھوکرپررکھ چھوڑاتھااورآنکھیں ماتھے پر سجاکر مسلمان قیادت کو ٹھینگادکھاکرمنہ چڑادیاتھا۔
مسلمان قیادت ابھی بھی شایدمایوس نہیں تھی،کیونکہ اسی دن یعنی 25اور26فروری کو دہلی میں ”قصرچھوٹانی“میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ بیٹھک ہوئی۔یہ جگہ میاں محمدحاجی جان چھوٹانی(1873-1932)کی ملکیت تھی۔جناب چھوٹانی بنیادی طورپر مسلم لیگی راہنماتھے اور تحریک خلافت کی آل انڈیامرکزی کمیٹی کے رکن تھے اور اس کمیٹی میں مسلم لیگ کی نمائدگی بھی کرتے تھے۔انہوں نے آل انڈیامسلم لیگ کے آٹھویں اجلاس کی صدارت بھی کی تھی۔جناب چھوٹانی کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ وہ یورپ کادورہ کرنے والے تحریک خلافت کے وفدمیں بھی شامل تھے۔جناب حاجی جان چھوٹانی نے مسلمان راہنماؤں کی میزبانی کی اوردہلی میں اپنے ”قصرچھوٹانی“کے اندر انہیں مدعوکیااوردودن کااجلاس منعقد ہوا۔اس وقت کی لیگی قیادت اورآج کی لیگی قیادت میں یہ فرق واضع طورپردیکھاجاسکتاہے کہ اس وقت کے اعلی ظرف مسلمان راہنمااپنی جان،مال اور وقت کی قربانی دیتے تھے،اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مقاصدپر قربان کردیتے تھے،دوسروں کو کھلا پلاکرخوش ہوتے تھے،اپنی قوم اوراپنی ملت کی دل سے قیادت کرتے تھے،دشمنوں اور مخالفین سے وقت اورمواقع کی بھرپوراور توقع سے زیادہ قیمت وصول کرکے اپنی عوام پر نچھاورکردیتے تھے اوراخلاص،محبت،وارفتگی اوربے لوث خدمت اس قیادت پر ختم تھی اوراس کی وجہ صاف ظاہر ہے وہ مسلمانوں کے دورعروج کی باقیات میں سے تھے۔”اعمال کادورومدارنیتوں پرہے“کے مصداق جب اس جیسی قیادت تھی تو آزادی جیسی نعمت بھی میسرآگئی۔وطن عزیزدولخت ہوااورآج عالمی و قومی ذلت و پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں مقروض معیشیت کے اندراعلی ترین معیارزندگی کی لعنتوں اورمایوسیوں کی دلدل کے اندر پھنساہواہے تواس کی وجہ بھی موجودہ قیادت ہی ہے جوقبل ازآزادی کی قیادت کے بالکل متضادوعلی الرغم ہے اوروجہ صاف ظاہرہے کہ آزادی کے بعدکی قیادت غلامی کی باقیات السیات میں سے ہے۔
”قصرچھوٹانی“میں ہونے والا مسلمان راہنماؤں کااجلاس تحریک خلاف کو بچانے کی آخری کوشش تھا۔اس اجلاس میں چونکہ صرف مسلمان ہی شریک تھے اس لیے کھل کربات ہوئی،تقریریں ہوئیں اور دلائل دیے گئے اورحالات کے تمام پہلؤں کوزیربحث لایاگیا۔مسلمانوں کی بیدارمغزاورجرات مندقیادت نے اس موقع پر بہت زیرک اوردوراندیشانہ فیصلے کیے اور حقیقت یہی ہے اس وقت کے فیصلوں کا ثمرہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکل میں دنیاکے نقشے پر ایک مقدس و محترم خانہ خداکی صورت میں اوربستی نسل آدم کے اندر مسجدکی شکل میں موجودومحفوظ ہے۔25,26فروری1922ء کو”قصرچھوٹانی“میں فیصلہ کیاگیاکہ تحریک خلافت ہرصورت میں جاری رکھی جائے گی کیونکہ خلافت کی بقاکے لیے جدوجہدکاکوئی دوسراراستہ فی الحال نظر نہیں آرہاتھایاقابل عمل نہیں تھا۔اجلاس میں دوسرایہ فیصلہ تھاکہ ہندومسلم اتحادکی شکل کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گاکیونکہ تحریک خلافت کواس طرح زندہ رکھاجانا زیادہ آسان تھا۔بعد میں یہ فیصلہ تحریک پاکستان کی بنیادبن گیاکیونکہ انگریزسے آزادی کاحصول دراصل مسلم لیگ اورکانگریس دونوں کے منشورکاحصہ تھا۔اگراس وقت مسلمان قیادت جذبات میں آکر ہندؤں سے اپناراستہ جداکرلیتی تو ہندؤں نے انگریزکے ساتھ مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کاموقع ہاتھ سے نہ جانے دیناتھااور ہندوستان بھی مسلم ہولوکاسٹ کانقشہ پیش کررہاہوتا۔یہ امراس لیے بھی قرین قیاس ہے کہ انگریزکے جانے کے بعد سیکولربھارت کے ہاتھ میں موجودچھری آج تک خون مسلم سے رنگین ہے۔بلکہ اس وقت کی مسلمان قیادت کے اس فیصلے سے ہندوستان میں بسنے والے دیگر چھوٹے مذاہب کو بھی برہمن کی چیرہ دستی سے خلاصی میسر آگئی بصورت دیگر مسلمانوں کے بعد ہندوستان کی گلیوں سے ان مذاہب کے پیروکاروں کاخون رس رس کردریابن کربہہ رہاہوتا۔چنانچہ اس اجلاس کے بعد ہندوستان بھرکے مسلمانوں کو یہ کہ دیاگیاکہ وہ مقامی کانگریس کی قیادت اور کارکنوں کے ساتھ مل کر تحریک چلائیں اور باہمی تعاون کی حدودکار بھی متعین کرلیں۔یہ اس وجہ سے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت سے عدم تعاون کے واضع اشارے مل رہے تھے اور 24,25فروری1922کے فیصلے بھی صریحاََ مسلمان دشمنی اور تحریک خلافت کو سبوتازکرنے اور بحالی خلافت کے لیے دی گئی قربانیوں کو ضائع کرنے کے مترادف تھے۔بچی کھچی امیدیں جو باقی ہندوعوام سے تھیں تو مسلمان قیادت نے اسی کوبروئے کارلانے کادانش مندانہ فیصلہ کیا۔اس طرح مسلمان قیادت نے تائیدایزدی سے ہندوستان کے مسلمانوں کوایک بہت بڑے فسادسے بچالیا۔بالآخرتحریک خلافت سے خلافت عثمانیہ تونہ بچ سکی لیکن منافع میں اسلامی جمہوریہ پاکستان مل گیا۔سچ ہے کہ اللہ تعالی نیک لوگوں کااجرضائع نہیں کرتا۔اللہ تعالی بانیان و اکابرین وشہداتحریک پاکستان کو اپنے خاص جواررحمت میں جگہ عطاکرے،آمین۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...