کیا آپ نے ابو زید سروجی کا نام سنا ہے؟
ابو زید سروجی ایک کردار ہے جسے کلاسیکی عربی ادب کے نامور ادیب ابو محمد قاسم حریری نے تخلیق کیا۔ گیارہویں صدی میں حریری نے اپنی مشہور کتاب ’مقاماتِ حریری‘ لکھی۔ مقامہ ایک صنف ہے جو کہانی‘ سفرنامے‘ تاریخ‘ ادب‘ شاعری‘ تنقید اور فلسفے کا مجموعہ ہے۔ کل پچاس مقامے ہیں۔ ہر مقامے میں ابو زید سروجی انوکھے اور غیر متوقع کردار میں سامنے آتا ہے کبھی بھکاری اور کبھی سیاح کے روپ میں۔ جس موضوع پر بھی بات کرتا ہے‘ علم و حکمت‘ ادب اور لغت کے دریا بہا دیتا ہے۔ ایسے ایسے ذومعنی فقرے بولتا ہے کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے ہیں۔ پھر وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اگلے مقامے میں کسی اور شہر سے‘ کسی اور روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی یہ کتاب ہر زمانے میں مقبولیت کے عروج پر رہی۔ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔
آج ابو زید سروجی یوں یاد آیا کہ میں نے بھی آوارگی کے قصوں سے کچھ سنگریزے نکالنے ہیں۔ سنگریزے اس لیے کہ موتی لٹانا تو حریری کے ابو زید سروجی جیسوں کا کام ہے۔ ایسے کردار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے کتنے ہی ان کا ذکر کر کے‘ ان جیسا ادب تخلیق کرنے کی ناکام حسرتوں میں ڈوب کر زمانے کے پار ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ کردار‘ یہ ادب‘ زندۂ جاوید رہتا ہے!
زمانے کی گردش نے ایک بار مجھے گھر سے بے گھر کیا۔ سفر کی کشتیوں پر میں نے غریب الوطنی کے بادبان باندھے۔ کوئی دہلیز تھی دلاسہ دینے کے لیے نہ ہی کوئی دیوار تھی جو امان بنتی۔ دن کسی ایئرپورٹ پر گزرتا تو رات کسی بندرگاہ پر۔ پھرتے پھراتے انگلستان نکل گیا۔ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ گلوسٹر اس کا نام تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قرار پکڑا۔ پیدل چلنا ہی بہترین سواری تھی جو میسر تھی۔ بازاروں اور گلیوں میں پھرتا۔ دکانیں اور بڑے بڑے سپر سٹور آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھتا۔ رنگ رنگ کی مخلوقات خدا کی وہاں نظر آتیں۔ کہیں سفید چمڑی‘ کہیں افریقہ کی سیاہ رنگت اور کہیں جنوبی ایشیا کے گندمی چہرے۔ بازار کے ایک طرف ایک مسجد تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ظہر یا عصر کی نماز وہاں پڑھتا۔
اُس دن نماز پڑھ کر باہر نکل رہا تھا کہ ایک سفید ریش معمر شخص جو چہرے سے جنوبی ایشیا ہی کا لگ رہا تھا‘ میری طرف بڑھا۔ ہاتھ ملایا۔ پھر کہنے لگا‘ ’’آپ کو کچھ دن سے مسجد میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ کا تعلق برصغیر کے کس حصے سے ہے؟‘‘ بتایا تو مسکراتے چہرے سے فراخ دلی بکھیرتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آپ مسافر بھی ہیں اور مہمان بھی! کیا ممکن ہے کہ چائے کا ایک کپ میں آپ کو پلا سکوں‘‘۔ جواب اثبات میں پا کر انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور ایک طرف چل پڑے۔ چند قدم کے فاصلے پر ان کا گھر تھا۔ ایسے ہی جیسے برطانیہ میں چھوٹے چھوٹے گھر ہوتے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے جو ضعیف تھیں اور بیمار بھی‘ شفقت کرتے ہوئے چائے بنائی۔ نرم گفتار میزبان سے ذریعہ معاش پوچھا تو جواب دلچسپ تھا۔
کیا آپ نے برصغیر کے نقشے پر کبھی گوا کو ڈھونڈا ہے؟ بھارت کی سب سے چھوٹی‘ ننھی منی ریاست جو مغربی ساحل پر واقع ہے۔ ایک طرف اس کے مہاراشٹر ہے اور دوسری طرف کرناٹک۔ گوا کی تاریخ عجیب و غریب ہے۔ چودھویں صدی عیسوی کے شروع میں یہ خلجی سلطنت میں شامل تھا۔ پھر دہلی کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ جنوبی ہند میں تین بڑی سلطنتیں تھیں۔ وجیانگر‘ ہندوئوں کی اور بہمنی اور عادل شاہی مسلمانوں کی۔ گوا ان تینوں کے درمیان فٹ بال بنا رہا۔ 1510ء میں پرتگال نے گوا کا علاقہ عادل شاہی حکمرانوں سے چھین لیا۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ پرتگالیوں نے گوا پر کتنا عرصہ حکومت کی ہوگی؟ پورے ساڑھے چار سو سال! حیرت انگیز معاملہ یہ ہوا کہ انگریزوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ ایک انچ بھی نہ چھوڑا‘ اس میں سری لنکا بھی شامل تھا اور برما بھی! مگر انہوں نے گوا کو نہیں چھیڑا۔ اس کی وجہ یورپ کی سیاست تھی جہاں برطانیہ اور پرتگال کے تعلقات اچھے تھے۔
بھارت آزاد ملک بنا تو اس نے پرتگال سے کہا کہ ہمارے علاقے واپس کرو۔ پرتگال نے انکار کردیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کر کے گوا پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے گوا کے رہنے والے بھارتیوں پر قسمت نے ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ پرتگال نے اُن تمام لوگوں کو پرتگال کے پاسپورٹ جاری کر دیے جو 1961ء سے پہلے گوا میں پیدا ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے بچوں اور پوتوں کو بھی! عبدالقادر کھوت صاحب‘ جو مجھے چائے پلا رہے تھے‘ انہی میں سے تھے۔ کھوت گوا کی مقامی گوت یعنی ذات ہے۔ اب جب پرتگال کا پاسپورٹ مل گیا تو یورپی یونین کارکن ہونے کی وجہ سے یہ پاسپورٹ پورے یورپ میں چلنے لگا۔ برطانیہ میں اس پاسپورٹ پر وہی مراعات حاصل ہیں جو خود برطانویوں کو حاصل ہیں!
عبدالقادر کھوت صاحب کو برطانوی حکومت کی طرف سے مفت مکان ملا ہوا ہے۔ انہیں سوشل سکیورٹی یعنی بیروزگاری کا وظیفہ ملتا ہے۔ ان کا علاج معالجہ مفت ہے۔ بوڑھوں کو برطانیہ میں جو سہولیات ملتی ہیں‘ وہ ساری کھوت صاحب اور ان کی اہلیہ کو حاصل ہیں۔
وقت کی لہروں نے ایک بار پھر مجھے بحرالکاہل کے کنارے انڈیل دیا۔ نیوزی لینڈ کا ایک شہر تھا۔ ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔ لمبی سفید داڑھی‘ سر پر سفید ٹوپی‘ شلوار قمیض میں ملبوس! سائنس کے ایک مضمون میں پی ایچ ڈی۔ پندرہ سال سے نیوزی لینڈ میں رہ رہے تھے۔ شروع میں سات آٹھ سال کام کیا مگر اب چھ سات سال سے ’’فارغ‘‘ تھے۔ لیکن تھے تو نیوزی لینڈ کے شہری! مکان حکومت کی طرف سے مفت ملا ہوا تھا۔ بیروزگاری الائونس ان کا اور ان کی اہلیہ کا اس کے علاوہ تھا۔ علاج معالجہ سرکار کی طرف سے تھا۔ بچوں کی تعلیم مفت تھی۔ جب کبھی موڈ ہوتا‘ کچھ دن کے لیے چھوٹا موٹا کام کر لیتے۔ جب موڈ ہوتا چھوڑ دیتے۔
عبدالقادر کھوت صاحب مسلمان ہیں۔ پی ایچ ڈی مولانا صاحب بھی ہیں۔ برطانوی اور نیوزی لینڈ کی حکومتیں‘ ان کی دیکھ بھال اس لیے نہیں کر رہیں کہ وہ مسلمان ہیں‘ لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنا ہاتھ روک بھی نہیں رہیں۔ ان حکومتوں کو صرف اور صرف اپنے شہریوں سے غرض ہے خواہ وہ مسلمان ہیں یا عیسائی یا ہندو یا لامذہب! یہ فلاحی ریاستیں ہیں۔ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ ہسپانیہ اور کئی اور ممالک بھی اپنے شہریوں کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں‘ نومولود بچوں کو وظیفے دیتے ہیں۔ بیروزگاروں کو بھوکا نہیں مرنے دیتے۔ بے گھروں کو چھت فراہم کرتے ہیں۔ بوڑھوں کو اولاد کا محتاج نہیں ہونے دیتے۔ یہاں تک کہ بہت سے ملکوں میں بوڑھے بسوں‘ ٹراموں اور ٹرینوں میں سفر بھی مفت کرتے ہیں۔
یہ ممالک‘ ہمارے ملک کی نسبت زیادہ امیر ہیں نہ ہمارا ملک ان کی نسبت غریب۔ دنیا میں اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ پاکستان غریب ملک ہے۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ ڈنمارک وغیرہ امیر ممالک ہیں۔ ان میں سے کسی ملک میں بھی درختوں پر روپے نہیں لگتے۔ ان کے شہری جب صبح بیدار ہوتے ہیں تو ان کے تکیوں کے نیچے ڈالروں سے بھری تھیلیاں نہیں رکھی ہوتیں۔ کسی چھت میں سوراخ نہیں جہاں سے ہُن برس رہا ہو۔ ان ملکوں کی نام نہاد امارت کی صرف دو وجوہ ہیں۔ ایک‘ ہر شخص اپنے حصے کا ٹیکس دیتا ہے۔ وزیر بھی‘ بیوروکریٹ بھی‘ صنعت کار بھی‘ دکاندار بھی‘ کسان بھی‘ مزدور بھی‘ سیاست دان بھی۔ دو‘ ان ملکوں کے حکمران اپنے ملکوں کو چراگاہ نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے ملکوں کو لوٹتے نہیں۔ قوم کے وسائل اپنی ذات‘ اپنے خاندان اور اپنے کاروبار کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ پولیس ہو یا نوکر شاہی‘ جہاز ہوں یا کاریں‘ غیر ملکی دورے ہوں یا مال اور ٹیکس کے محکمے‘ کسی کو اپنی ذات کے لیے نہیں برتتے۔ کسی محکمے میں مداخلت نہیں کرتے۔ ٹرینوں میں عام مسافروں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ بغیر ٹکٹ پکڑے جائیں تو جرمانے ادا کرتے ہیں۔ ہسپتال میں وزیراعظم کی حیثیت سے جائیں اور ڈاکٹر باہر نکل جانے کا حکم دے تو خاموش ہو کر چلے جاتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر عاصم پکڑا جائے تو سیاسی جماعتیں طبلِ جنگ نہیں بجاتیں۔ سرکاری افسروں کے اہم تربیتی پروگرام اس لیے اندھے کنوئیں میں نہیں گر جاتے کہ منظوری دینے والی شخصیت نے خود ولایت جانا تھا!
پاکستان کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ پاکستان ایک امیر کبیر ملک ہے۔ اگر یہاں ہر شخص اپنے حصے کا ٹیکس دے اور اگر یہاں کے حکمران ایسے ہی بن جائیں جیسے دوسرے فلاحی ملکوں کے حکمران ہیں تو پاکستان میں بھی بے روزگاروں کو بیروزگاری الائونس دیا جا سکتا ہے۔ نومولود بچوں کی کفالت ریاست کر سکتی ہے۔ بوڑھوں کا بڑھاپا عزت سے گزر سکتا ہے۔ ہر شہری علاج معالجہ کی سہولیات حاصل کر سکتا ہے۔ یقین کیجیے‘ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سرکاری خزانہ بھرا ہوا ہوگا۔ سرکاری خزانے غربت کی وجہ سے نہیں‘ بددیانتی اور بدنیتی کی وجہ سے خالی ہوتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔