وہ دیکھتی تھی اور خون کے آنسو روتی تھی۔
اُسے ہر طرف اندھیرا نظر آرہا تھا۔یوں لگتا تھا اُس کی آنکھیں رو رو کر بینائی کھو دیں گی۔اس کا جُھریوں سے اٹا چہرہ آنکھوں سے بہتے پانی کی گذر گاہ بن کر رہ گیا تھا۔ہاتھ مُڑ گئے تھے۔بال جو کسی زمانے میں ریشم کے لچھے تھے۔اب اس طرح ہوگئے تھے جیسے شاعر نے انہی کے بارے میں کہا تھا….
برگد کی جٹائیں بال اس کے
زنبورِ سیاہ خال اس کے
وہ دیکھتی تھی اور روتی تھی۔ حالات دگرگوں تھے۔ہر آنے والا دن، گذرے ہوئے دن سے بدتر تھا۔ ملک تھا یا غارت گردی کا عشرت کدہ تھا۔کبھی خبر آتی تھی کہ حکومت نے حاجیوں کی رقم سے سینکڑوں معززین کو حج کرایا ہے۔کبھی خبر آتی تھی کہ ڈاکوﺅں نے ناکہ لگا کر درجنوں شہریوں کو لوٹ لیا۔کسی کے گھر سے سولہ لاکھ، کہیں سے ستر لاکھ اور کسی فیکٹری سے کروڑوں روپے کا سامان ، کبھی بیس گاڑیوں اور دس موٹر سائیکلوں کی چوری کی خبر آتی اور کبھی دن دیہاڑے بسوں کو لوٹ کر مسافروں کو نذرِ آتش کردینے کے واقعات رپورٹ ہوتے۔چالیس ارب روپے کی سرکاری املاک چند کروڑ میں فروخت کی جارہی تھیں۔مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ کرائے ہفتہ وار بڑھ رہے تھے۔پٹرول سو روپے فی لٹر تک پہنچنے کے قریب تھا۔عوام کی اکثریت دو یا تین کلو سے زیادہ آٹا ایک وقت میں خرید ہی نہیں سکتی تھی۔ نوجوان ڈاکٹروں کی ہڑتال سے الگ افراتفری مچی ہوئی تھی اور مریض چوہے بلیوں کی طرح مر رہے تھے، امن و امان کی حالت جنگل سے بدتر تھی۔بسوں سے مسافروں کو اتارا جاتا شناختی کارڈ دیکھے جاتے اور گولی ماردی جاتی۔بلوچستان میں غیر مقامی افراد کوچُن چُن کر مارا جارہا تھا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ دھماکے روزمرہ کا معمول تھے، کبھی مسجدوں میں، کبھی مزاروں پر، کبھی درس گاہوں میں اور کبھی لوگوں سے چھلکتے ہوئے بازاروں اور چوراہوں میںدھماکے ہوتے، بم چلتے، لاشیں گرتیں، جنازے اٹھتے، کہرام مچتے اور سرکاری بیان ہر موقع پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم پر مشتمل ہوتا!
وہ یہ سب کچھ دیکھتی تھی اور خون کے آنسو روتی تھی۔ لیکن کب تک! آخر اُس نے ملک کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا۔اُس نے نے انگڑائی لی، اُٹھی، بالوں کو خضاب لگایا، انہیں شیمپو سے دھویا، کنگھی کی، خوشبو لگائی، گلے کے لٹکے ہوئے گوشت اور اندر دھنسے ہوئے رخساروں کو پلاسٹک سرجن کی مہارت سے تازہ اور سڈول بنوایا۔ پلاسٹک کے خوبصورت ہاتھ اور فائبر گلاس سے بنی ہوئی طاقت ور ٹانگیں لگوائیں، اصلی ڈائمنڈ سے چمکتے ہوئے زیورات پہنے، بنارسی ساڑھی باندھی، اٹلی سے درآمد کیے ہوئے خالص چمڑے کے ہائی ہیل جوتے پاﺅں میں ڈالے اور یوں بن ٹھن کر۔ جوان ہوکر۔ حُسن کو چار چاند لگا کر۔ قاف لیگ نے پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ اقتدار میں شرکت کی! اس لیے کہ ملک کو تباہی کے کنارے سے واپس موڑنے کی اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔ اگر قاف لیگ اسی طرح بیٹھی رہتی تو ملک کا کیا بنتا؟ خدانخواستہ، میرے منہ میں خاک، کچھ ہوجاتا تو قاف لیگ خود اپنے آپ کو معاف کرتی نہ عوام اسے بخشتے!
سو، اے بھوکے ننگے عوام! شکر کا سجدہ ادا کرو، جشن مناﺅ، مٹھائیاں بانٹو! پھول بکھیرو، بھنگڑے ڈالو، رقص کرتے کرتے بے حال ہوجاﺅ، آسمانوں سے تمہاری دعاﺅں کا جواب آگیا ہے۔اندھیرے کا پردہ چاک ہوا ہے،سورج کی کرنیں زمین کا رُخ کر رہی ہیں،قاف لیگ نے اقتدار میں شرکت کرلی ہے،تمہارے دن بدلنے کو ہیں،مقدر جاگ اٹھا ہے۔ حاسد لاکھ کہیں کہ قاف لیگ نے یہ انقلابی قدم دراصل اپنے پیاروں کو جیل سے نکلوانے کیلئے اٹھایا ہے لیکن ایسانہیں ہے۔قاف لیگ تو دانشوروں اور دردمندوں پر مشتمل ایک مخلص گروہ ہے۔اس میں ایسے ایسے عظیم دماغ ہیں جنہوں نے ” لُٹو تے پُھٹو“ (لوٹو اور بھاگو) جیسی طبع زاد پھبتیاں ایجاد کی تھیں۔ قاف لیگ میں کوئی ایک سیاست دان بھی ایسا نہیں جس نے اپنی زندگی میں کسی پارٹی سے بے وفائی کی ہو اور ایک پارٹی کو خیر باد کہہ کر دوسری پارٹی میں شرکت اختیار کرلی ہو۔ سب سے بڑا مژدہ اہلِ وطن کو یہ ہے کہ قاف لیگ ساری کی ساری مڈل کلاس پر مشتمل ہے،یہ لوگ عام محلوں میں چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔انکم ٹیکس پورا دیتے ہیں۔ اکثریت مزدوروں پر مشتمل ہے۔اس میں لوٹے ہیں نہ لُوٹنے والے ہیں۔نیکو کاروں اور مخلصین کا ایک صاف شفاف گروہ ہے جو صرف اور صرف عوام کے مفاد میں شریکِ اقتدار ہوا ہے۔ ان کے ایجنڈے پر ایک اور صرف ایک پوائنٹ ہے۔ عوام کی حالت میں تبدیلی! چنانچہ اے اہلِ وطن! مبارک ہو، اب یہ کوئی دن کی بات ہے کہ تبدیلی صاف نظر آنے لگے گی۔ ڈرون حملے رکنے کو ہیں۔ بم دھماکے ماضی کا قصہ سمجھو، پٹرول پچاس روپے فی لٹر اور سی این جی بیس روپے ہونے کو ہے، امن و امان کی حالت یہ ہوگی کہ ایک عورت زیورات سے لدی پھندی، دونوں ہاتھوں میں کرنسی سے بھرے ہوئے بریف کیس اٹھائے، تن تنہا، رات کو گجرات سے روانہ ہوگی اور جھنگ سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچ جائے گی لیکن اُس کی طرف کوئی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ لوڈشیڈنگ اس طرح ختم ہوگی کہ یُو پی ایس کا کاروبار کرنے والے خودکشیاں کر رہے ہوں گے۔ انکم ٹیکس نہ دینے والوں کو قاف لیگ شاہراہوں کے کنارے جلتے ہوئے تنوروں میں زندہ بھسم کرڈالے گی۔
رہے بین الاقوامی معاملات تو قاف لیگ نے اس پہلو سے بھی پورا پورا انتظام کیا ہوا ہے۔یہ معجزہ بھی دنیا دیکھے گی کہ صدر اوباما حکومت پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری سے بات کر رہے ہونگے ۔من موہن سنگھ دہلی میں متعین ہمارے سفیر سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کرینگے ۔ مشرقِ وسطی کے امیر ممالک ہمارے معاملات میں آئے دن خل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکیں گے۔افغانستان سے بھارت یوں بھاگے گا جیسے گیدڑ شہر سے بھاگتا ہے۔ بلوچستان میں ہر قریہ خوشحالی کا ہنستا بستا باغ بن جائے گا۔ سرکاری ملازم کوئٹہ میں تعینات ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور صنعت کار پورے ملک سے بلوچستان کا رُخ کر رہے ہونگے!
قاف لیگ نے عزم کررکھا ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر زرعی اصلاحات نافذ کرکے جاگیرداری کا خاتمہ کردےگی، تعلیمی اصلاحات سے مدرسہ اور کالج کا درمیانی فاصلہ پاٹ دےگی۔ مسجدیں اور امام بارگاہیں محبت اور اخوت کے مراکز میں بدل جائیں گی۔غرض کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جس سے قاف لیگ غافل ہو۔ اے اہلِ وطن! مژدہ ہوکہ قاف لیگ نے صرف اور صرف تمہارے لئے، تم بدبخت عوام کیلئے،اس عمر میں خضاب لگایا ہے، پلاسٹک سرجری کرائی ہے، فائبر گلاس کی ٹانگیں لگوائی ہیں۔ صرف اور صرف تمہارے لئے، بدبختو! اس کا شکریہ ادا کرو۔