میں نے پچھلے ہفتہ اسلامی ممالک کہ حوالہ سے سعدیہ زاہدی کی کتاب کا تزکرہ کیا تھا جس میں سعدیہ نے زبردست ڈیٹا اور مثالوں سے مسلم خاتون کی آزادی اور برابری کا مقدمہ لڑا ۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ اسلامی ممالک میں عورت کی تعلیم ، کاروبار اور نوکریوں کا مسئلہ رہا اور ہے ، لیکن اس کا ایک دوسرا بھیانک رُخ بھی ہے ۔ ووٹ کا حق ، ڈرائیونگ کی اجازت یا چادر اور چار دیواری میں رہنے کی پابندیاں اس کی ترقی میں حائل تو تھیں لیکن یہ اگر ضرورت کہ تحت ہوں تو ٹھیک ہے لیکن ایک اصول اور فلسفہ کہ تحت یہ معاملہ گلے پڑ گیا ہے ۔انسانیت کی بنیادی اقدار کی جڑیں کھوکھلی کر گیا ۔ جیسے حضرت خدیجہ کا والد کی وفات کہ بعد کاروبار سنبھالنا اور حضرت محمد ص کا حلیمہ کہ ساتھ پیدائش کہ بعد چھ سال گزارنا کیونکہ والدہ فوت ہو گئیں تھیں ایک ضرورت کہ نظریہ کہ تحت والا معاملہ تھا ۔ دوسرا یہ ایک خاص ماحول میں ممکن ہے۔ جیسے کہ اس وقت کی عرب کی tribal سوسائٹی تھی جس کا تزکرہ Amy Chau کرتی ہے ۔
آج کل nanny اور اولڈ ہوم سینٹرز یا ڈے کئیر سینٹر بنیادی طور پر انسانی محبت ، روحانیت اور سوشل responsibility کی نفی کر رہے ہیں ۔ مغرب اس سے واپس آ رہا ہے ۔ نیوکلیر فیملی کہ خاتمہ کا سوچا جا رہا ہے دوبارہ جائنٹ فیملی کی بات ہو رہی ہے ۔ میری تو پاکستان جیسے ملک کہ باسیوں اور معاشروں کو یہی مشاورت ہو گی کہ اگر مغرب پوائنٹ A سے پوائنٹ B پر گیا اور اب واپس اس تکون کہ پوائنٹ C پر آ رہا ہے ۔ کیوں نہ ہم بجائے اسی طرح B سے ہو کر واپس C پر آئیں ، ابھی اس طرف رُخ کر لیں راستہ چھوٹا ، وقت کی بچت اور قدرتی ہدف حاصل ۔
اسی موقف کو امریکہ کی مشہور لکھاری اور کالمنسٹ Mona Charen
اپنی حال ہی میں چھپنے والی کتاب Sex Mattters میں بہت دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہے ۔ سعدیہ کی کتاب کہ ساتھ ساتھ مسلم مرد اور خواتین کو یہ کتاب بھی پڑھنی ہو گی تا کہ سارا معاملہ holistically دیکھا جا سکے ۔
مونا نے اس سے پہلے بھی اہم معاشرتی موضوعات پر لکھا ہے ۔ اب سے کچھ گھنٹہ پہلے اس کا کالم سپریم کورٹ کہ nominee جج Kavanaugh پر ویب سائٹ پر ریلیز ہوا ہے ۔ جج پر ایک عورت نے ۳۶ سال بعد ایک اور عورت کہ زریعے rape کا الزام لگایا ہے ۔ اس وقت وہ ۱۷ سال کا تھا ۔ مونا نہ یہ بھی نقطہ اٹھایا ہے کہ کیا اس عمر میں انسان کو زمہ دار سمجھا جا سکتا ہے ؟ اور کیا اس واقعہ کی memory ابھی بھی ان کرداروں میں تازہ ہے ۔ اور کیا پتہ Kavanaugh ہمارے اپنے وزیر اعظم عمران خان کی طرح اسے سیتا وائیٹ کہ ساتھ والا بچپنا گردانے ۔ ابھی تک تو جج ڈٹا ہوا ہے کہ ایسا کوئ واقعہ اسے یاد نہیں ۔ تعلق ضرور ہو گا لیکن کوئ ریپ وغیرہ نہیں اور مونا کہتی ہے کہ ایک اور عورت اگر میدان میں آ گئ تو جج لگا جائے گا ۔ میں نے ایک بلاگ اس موضوع پر لکھا تھا کہ کس طرح امریکہ کا sexual harassment act
اور پاکستان کا blasphemy law
کا abuse ہوتا ہے اور kangaroo courts اس کا کچھ لوگوں کہ زاتی مفاد میں پہاڑ بنا دیتے ہیں ۔ جسے مونا اس آرٹیکل میں سےme too movementسے relate کرتی ہے ۔ کل میرے دوست خالد شریف ماورا پبلیکیشنز والوں نے مجھے شعر بھیجا کہ
“خود پسندی سے نکل آؤ تو مجھ سے ملنا
میں برابر کہ تعلق پہ یقیں رکھتا ہوں “
یہ سارا feminist تحریک کا معاملہ ہی کچھ اسی طرح کا ہے ۔ مونا اس کتاب میں اس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے ۔ میں اسماء جہانگیر پر اکثر تنقید کرتا تھا کہ women lib جیسی تحریکں دراصل عورتوں کو تزلیل کر رہی ہیں ۔اسے وہ مقام نہیں دے رہیں جو ہمارے پیارے نبی نے دیا ۔ یہ تو ایک نئے قسم کا استحصال شروع ہو گیا ہے عورت کا ۔ اس کو گھر سے بھی نکال دیا گیا ، مشین کہ سامنے لا کھڑا کیا اور اس کہ جو قدرت نے فرائض سونپے وہ ڈے کئیر اور اولڈ ایج والے کاروباری انداز میں ادا کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سب سے زیادہ نقصان بوڑھے والدین اور بچوں کو ہو رہا ہے ۔ معاشرہ شکست خردہ نظر آ رہا ہے۔ عورت کو یا تو sex machine بنا دیا گیا یا بھکاری ۔ سارا معاملہ ہی الٹا ہو گیا ۔ مونا بھی بہت زیادہ ڈیٹا اور ریسرچ کہ ساتھ اپنا بیانیہ پیش کر رہی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ کالج کی لڑکیاں تو اب porn دیکھنے سے یا اپنے کالج فیلو کو blow job دے کر اس ساری بک بک سے جان چھڑا رہی ہیں ۔ فاسٹ فُوڈ کہ بعد فاسٹ سیکس والا معاملہ ۔
مونا پوچھتی ہے ، کدھر گیا پیار ، رومانس ، ڈیٹنگ اور hooking up؟
وہی تو relationship کی جان تھا وہی تو قدرت کا انمول تحفہ تھا ۔ اب تو sex مونا کہتی Woody Allen والا joke بن کہ رہ گیا ہے ، جس میں woody کہتا ہے کہ
“Pizza is lot like sex. When it’s good, it’s really good. When it’s bad, it is still pretty good”
یہ بہت خوفناک معاملہ ہے ۔ مونا Abortion والے معاملہ کو جو ۱۹۷۳ کا Roe vs Wade بھی ابھی تک settle نہ کر سکا بڑا آسان قدرتی حل بتاتی ہے ۔ صرف عورت کی موت یا بچہ کی موت کہ خطرے میں جائز ہے ۔
“The only case of termination that strike me morally and logically sound are those in which pregnancy threatens the mother’s life “..
مونا مزید کہتی ہے کہ کتنے شرم کی بات ہے کہ
“We bury our dead pets, yet dispose of unborn babies in a trash”..
ماں اور بچہ کا رشتہ بہت زبردست ہوتا ہے جسے مونا کچھ اس طرح کہتی ہے
The mother child bond is the strongest to be found in nature. The father child bond is strong too, but it
depends more on father’s relationship with child’s mother “
والدہ کہ پاؤں تلے جنت کیوں کہی گئ؟ مونا کہ نزدیک عورت ہی اس دنیا کی محبت اور خوبصورتی ہے ۔ اسی کے وجود سے کائنات میں ہے رنگ ۔ کیا زبردست طریقے سے وہ بیان کرتی ہے
“The worst part that feminism has gotten wrong is in the perceiving women’s natural inclinations to be a burden. They are not. They are a treasure. They enhance the lives of men and children”
۱۴۰۰ سال پہلے بھی عرب میں ان کو burden سمجھ کر زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور آج بھی وہ burden ہیں ، خودکشیوں پر مجبور ہیں ، یہ ہمیں فیمیمزم نے تحفہ دیا ۔ اسے مرد نے مزید exploit اور بلیک میل کیا اپنی خواہشات کہ لیے ۔ کیونکہ مونا کہ نزدیک
“A typical male brain is stronger on math and weaker on emotions”
وہ پھر وکٹر فرینکلن کو quote کرتی ہے کہ خوشی دراصل ہے کیا ۔
“Happiness cannot be pursued; it must ensue, and it only does so as the unintended side effect of one’s personal dedication to a cause greater than one self or as the byproduct of one’s surrender to a person other than oneself “
بات پھر آ کر ختم ہوتی ہے ، خالد شریف کہ شعر اور رِیش کہ کامن گُڈ کہ بیانیہ پر ۔ محبت تو collectivity میں ہے ۔ cultivate کی جاتی ہے ۔ instant coffee نہیں ہے ۔
ہم اپنے والدین کہ ساتھ ،سب بہن بھائ کھانا کھایا کرتے تھے ۔ والدہ کھانا بناتی تھی ۔ بہنیں مدد کرتی تھیں ۔ سب نے تعلیم بھی حاصل کی لیکن والدین کہ بنیادی پیار سے محروم نہ ہوئے ۔ مجھے اس زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد ہے اور وہی میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ۔ ہمیں وہ پیار اور محبت دوبارہ پانی ہو گا ۔ یہ generations کا clash نہیں جیسے سعدیہ زاہدی سوچتی ہے بلکہ nature یا قدرت کہ ساتھ ہمارا clash ہو گیا ہے ۔ اسے درست کرنا ہو گا planet کی collective خوشی کہ لیے ۔ میں جب اسپوکین ، واشنگٹن میں رہتا تھا اکثر گوریاں تین تین ، چار چار بچوں کہ ساتھ بسوں پر بیٹھی ہوتی تھیں ۔ اب وہ iPhone اور Cadillac کہ کلچر سے باہر آ گئ ہیں ۔ قدرتی زندگی کی طرف دوبارہ چلی گئیں ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور خوش و خرم رکھے ۔ آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...