بشارت نے دوپہر کا کھانا یتیم خانے کے بجائے مولوی بادل (عباد اللہ) کے ہاں کھایا جو اسی اسکول میں فارسی پڑھاتے تھے۔ مکھن سے چپڑی ہوئی گرم روٹی اور آلو کا بھُرتا اور لہسن کی چٹنی مزہ دے گئی۔ مولوی بادل نے اپنی شفقت اور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ برخور دار! میں تمہیں کھُونتے کو رفو کرنا، آٹا گوندھنا اور ہر طرح کا سالن پکانا سکھا دوں گا۔ بخدا! بیوی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گی۔ سرِ دست انہوں نے مُولی کی بھجیا بنانے کی جو ترکیب بتائی وہ خاصی پیچیدہ اور پُر خطر تھی۔ اس لیے کہ اس کی ابتدا مولی کے کھیت میں پو پھٹنے سے پہلے جانے سے ہوتی تھی۔ انھوں نے ہدایت کی کہ دیہات کے آداب کے خلاف، لہلہاتے کھیت میں علی الصبح منھ اٹھائے نہ گھس جاؤ، بلکہ مینڈھ پر پہلے اس طرح کھانسو کھنکھارو جیسے بے کواڑ یا ٹاٹ کے پردے والے بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے کھنکھارتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہدایت کہ ٹخنے سے ایک بالشت اونچا لہنگا اور ہنسلی سے دو بالشت نیچی چولی پہننے والی کھیت کی مالکن دھاپاں سے تازہ گدرائی ہوئی مولی کا محلِ وقوع اور اسے توڑنے کی اجازت کس طرح لی جائے کہ نظر دیدنی پر نہ پڑے۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ چمگادڑ سبزیاں مقوی اور کاسِر ریاح ہوتی ہیں۔ اس سے ان کی مراد وہ پودے تھے جو اپنے پیر آسمان کی طرف کیے رہتے ہیں۔ مثلاً گاجر، گوبھی، شلغم۔ پھر انھوں نے پتے دیکھ کر یہ پہچاننا بتایا کہ کون سی مُولی کھاری، پھپھس نکلے گی اور کون سی جڑیلی اور مچھیل۔ ایسی تیزابی کہ کھانے والا کھاتے وقت منہ پیٹ لے اور کھانے کے بعد پیٹ پیٹتا پھرے۔ اور کوئی ایسی سڈول، چکنی اور میٹھی کہ بے تحاشا جی چاہے کہ گز بھر کی ہوتی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کبھی غلطی سے تیزابی مولی اکھاڑ لو تو پھینکو مت۔ اس کا عرق نکال کے اونٹ کی کھال کی کُپّی میں محفوظ کر لو۔ چالیس دن بعد جہاں داد یا ایگزیما ہو وہاں پھریری سے لگاؤ۔ اللہ نے چاہا تو جلد ایسی نکل آئے گی جیسے نوزائیدہ بچے کی! کچھ عرصے بعد جیسے ہی بشارت نے اپنے ماموں کے ایگزیما کی پھنسیوں پر اس عرق کی پھریری پھیری تو بزرگوار بالکل نو زائدہ بچّے کی طرح چیخیں مارنے لگے۔
مشتاق یوسفی کی آب گم سے ایک شرارت!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...