ساتویں صدی عیسوی میں دریائے فرات کے قریب ایک جنگ شروع ہوئی۔جسے جنگ صفین کہتےہیں۔اس جنگ میں اسلام کےدو گروپوں میں لڑائی ہوئی۔اسی لڑائی کے اختتام پر اسلام میں ایک فرقہ کا جنم ہوا۔جسےاسلام کا پہلا جمہوری فرقہ قرار دیا گیا۔جسے خوارج کا گروہ کہا گیا۔یہ لوگ "لا حکم الا للہ"کے قائل تھے۔
خوارج کا فرقہ اپنی بات کا آغاز"لا حکم الاللہ"سےکرتا اور اسی پر ختم کرتا۔ان کا دوسرا نعرہ حریت ,مساوات اور اخوت تھا۔وہ اسلامی حکومت میں برابری کے قائل تھے۔جنگ صفین کا اختتام تحکیم کےفیصلے پر ہوا تھا۔اس تحکیم کو پہلےماننے کا شور بھی خوارج نے کیا۔اور اسکا ماننےسے انکار بھی پہلے کیا۔
خوارج کا اسلام سےخلوص اورمحبت کسی سےپوشیدہ نہیں تھی۔یہ خانہ بدوش لوگ تھے۔حضرت علی(ع) نے ابن عباس(رض) کو انکےپاس بحث کیلئےبھیجا تو انہوں نے دیکھا کے وہ طویل سجدے کرتےہیں۔جسکے باعث انکےہاتھوں اور ماتھوں پر نشان پڑےہوئے ہیں۔انکےکپڑے پسینےسے شرابور تھے۔اسی وجہ سےلوگ گمراہ ہوجاتے تھے۔
خوارج کاتعلق عرب کےربعیہ قبائل سےتھا۔یہ خانہ بدوش اورغریب تھے۔اسلام قبول کرنے وجہ اسکی سادہ روی تھے۔مگر انکے حالات تبدیل نہیں ہوئے۔ان کی عرب کے قبائل مضر سے دشمنی تھی۔جو بعد میں کھل کر سامنے آئی۔اسلام کے خلفاء کاتعلق مضری قبائل سے تھا۔تیس سال کی طویل حکمرانی نے انکو بدظن کیا تھا۔
خوارج خلیفہ کےآزادانہ انتخاب کےقائل تھے۔جس میں تمام مسمانوں کی شمولیت ضروری تھی۔خلیفہ کاتعلق کسی بھی علاقے اورگروہ سے ہوسکتا تھا۔انکا خیال تھاخلیفہ عجمی ہو توبہتر ہے۔کیونکہ اسکوہٹانا اور معزول کرنا آسان ہوگا۔انہی کا ایک گروہ جسے نجداف کہتےہیں سرے سےکسی خلیفہ یا امام کاانکاری تھا۔
خوارج کی بڑی کمزوری اپنے عقائد کا دفاع تھی۔چاھے وہ کتنی ہی اسلام مخالف کیوں نہ ہو۔وہ اسکی دلیل نکال لیتے تھے۔خوارج قرآن کے ظاھری حکم کو قبول کرلیتے اور گہرائی جاننے کی کوشش نہیں کرتےتھے۔جو مفہوم انو سمجھا دیا جاتا۔اسی پر قائم رھتے۔اسی بنا پر انہوں نے ابن عباس سے کافی بحث کی۔
خوارج کےنزدیک کوئی ہستی غلطی سے مبرا نہیں تھی۔یہاں تک کہ وہ انبیاء کی کوتاہی کی دلیل دیتےتھے۔ہدہد اور سلیمان(ع)کے واقعےکو بطور دلیل پیش کرتے کہ انبیاء خداکے علاوہ بھی کسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔اس سلسلےمیں خوارج کے امیر نافع بن الازرق اور ابن عباس کے درمیان ایک طویل مناظرہ بھی ہوا۔
خوارج اپنے مسلک کی تبلیغ میں شدت کے قائل تھے۔فصاحت اور خوش بیانی انکا وصف تھی۔وہ بے باک انداز میں دلائل دیتے اور جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔جب انکو دلیل میسر نہ ہوتی تو خودساختہ کلام رسول اللہ(ص) سے منسوب کردیتے۔اسی بنا پر ان سے یہ لوگ کفر کی حد تک پہنچ گئے۔
خوارج بھی دیگراسلامی گروپوں کی طرح مختلف حصوں میں تقسیم ہوئے۔سب سے نمایاں گروہ ازارقہ تھا۔جو نافع بن الا زرق سے منسب تھا۔یہ گروہ امیوں اور ابن زبیر سے19 سال تک لڑتارہا۔علامہ اقبال ان سے متاثر رھے۔اقبال خوارج کو اسلام کا پہلا جمہوری فرقہ قرار دیتے تھے۔ازراقہ کا وجود مٹ چکا ہے۔
خوارج کےدیگر گروہ درج ذیل ہیں:
فرقہ نجدات:بانی نجدہ بن عویمرتھا۔بحرین اور طائف پر قابض رہے۔مزید 3گروہوں میں تقسیم ہوئے۔
فرقہ صفریہ:زیاد بن الاصفر بانی تھا۔یزید کےدور میں انہوں نے بغاوت کی۔ابن زیاد نے انکو کچل دیا۔
فرقہ عجاردہ:بانی عبدالکریم بن عجرد تھا۔یہ2گروہوں میں تقسیم ہوئے۔
فرقہ اباضیہ:بانی عبداللہ بن اباض تھا۔یہ لوگ اعتدال پسند تھے۔عمدہ فقہ ترتیب دی۔یہ آج بھی وجود رکھتے ہیں۔
فرقہ یزیدیہ:بانی یزید بن ابی انیسہ تھا۔یہ لوگ شریعت محمد کی منسوخی کے قائل تھے۔انکے بقول اگلا رسول عجم سے آئے گا۔جو نئی شریعت جاری کریگا۔انکے کچھ پیروکار آج بھی موجود ہیں۔
فرقہ میمونیہ:بانی میمونہ عجردی تھا۔یہ لوگ بہن بھائی کے نکاح کو جائز قرار دیتا تھا۔سورۃ یوسف کو قرآن سے خارج سمجھتا تھا کہ خدا ایسی باتیں نہیں کرتا۔تحریف قرآن کے نظرئیے پر انکا کام نمایاں رہا۔
خوارج کی اہم خوبی فدائیت تھی۔یہ لوگ اپنے مقصد کیلئے جان دینے کے قائل تھے۔آج بھی اسلام میں فدائیت کی جوتحریکیں موجود ہیں۔انکے پس پردہ کہیں کہیں خوارج کا اثر موجقد ہے۔چاھے وہ باطنیہ تحریک ہو,القاعدہ ہو,داعش ہو,تحریک طالبان ہو یا کوئی بھی۔اسلام میں فدائی حملوں کو ترویج انہوں نے دی۔
حالہ جات:
اکامل۔۔مبرد
شرح نہج البلاغہ۔۔ابن ابی حدید
الفرق بین الفرق البغدادی
کتاب الملل و النحل۔۔محمد بن عبدالکریم شہرستانی
الااسلام خواطر و سوانح ترجمہ فتحی زغلول
encyclopedia of islam by Gibbs.
Black flag..joby warrick.