خواجہ آصف کا شکار بھی ہو گیا ۔۔۔۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بھاری دل کے ساتھ جناب خواجہ آصف صاحب کو تاحیات کے لئے نااہل قرار دیا ہے ،ویسے پاکستان میں عجب موسم ہے کہ نااہلی اب ایک دو یا پانچ سال کے لئے نہیں بلکہ ساری زندگی کے لئے سیاستدان کو نااہل قرار دیا جاتا ہے ۔۔۔نوازشریف گروپ کے تمام اہم سیاسی پہلوانوں پر تاحیات نااہلی کی تلوار چل رہی ہے،پھر ایک وقت آئے گا جب عمران خان گروپ کے تمام اہم کھلاڑیوں کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا ،یہ منظر بھی ہم دیکھیں گے ،آج نہیں تو دو ہزار اکیس یا بائیس میں ضرور دیکھیں گے ۔۔۔اس ملک میں تاحیات نااہلی صرف سیاستدانوں کی ہی ہوتی ہے ،سیاستدان اس ملک میں پیدا ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ نام نہاد اقتدار کا حصہ بنیں رہیں ،انہیں گالیاں دی جائیں ،اور آخر میں انہیں سیکیورٹی رسک قرار دیکر نااہل قرار دیا جائے ۔۔۔چھوڑیں اس بحث کو آگے چلتے ہیں کہ آخر انہیں کیوں نااہل قرار دیا گیا ؟جج صاحبان نے خواجہ آصف کو آئین کی شق باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا ۔۔۔ ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ہے ۔۔۔اب معلوم نہیں قومی اسمبلی کی سیٹ سے محرومی اور تاحیات نااہلی کے بعد انہیں وزیر خارجہ یا وزیر دفاع کہنا چاہیئے یا نہیں ؟خواجہ جی کہتے ہیں کہ انہوں نے تو کبھی اقامہ چھپایا ہی نہیں تھا ،تو سزا کیسی ؟جس پر عدالت کا یہ کہنا تھا کہ جناب کون کہتا ہے کہ آپ کو اقامہ رکھنے پر سزا دی گئی ہے؟آپ کو تو اقامہ کو ملازمت کے استعمال کرنے پر نااہل کیا گیا ہے ۔۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کیونکہ خواجہ آصف بھائی نے جان بوجھ کر نوکری اور تنخواہ ظاہر نہیں کی ،اس لئے وہ اتنی بڑی اور عظیم سزا کے حقدار ٹھہرے۔۔۔سنا ہے خواجہ جی وکیل بھی ہیں ،انہیں معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ نوکری اور تنخواہ نہیں چھپانی چاہیئے ۔۔۔پھر بھی وہ ایسا نہ کرسکے ۔۔سوال یہ ہے کہ خواجہ صاحب نے دو ہزار تیرہ میں انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے ،اگر اہل نہیں تھے تو کیسے الیکشن میں ھصہ لیا؟اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ کو شاید یہ معلوم نہیں تھا کہ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے ہی خواجہ آصف کے حق میں دو ہزار تیرہ میں ہی فیصلہ سنایا تھا کہ اقامے ،ملازمت اور نوکری کے باوجود وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔۔۔خواجہ آصف پر یہ اعتراضات اٹھائے گئے تھے ،لیکن کورٹ کے ٹریبونل نے کہا وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں ۔۔۔وہ لڑے ،وہ جیت گئے ،اب ساڑھے چار سال بعد وہ نااہل ہو گئے ۔۔۔۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی چھلنی سے بھی گزرے ،لاہور ہائی کورٹ کی چھلنی سے بھی گزر گئے ،لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی چھلنی میں ساڑھے چار سال بعد اٹک گئے ،اب ساری زندگی اٹکے رہیں گے ،سمجھ تو آپ گئے ہوں گے کہ میں کہنا کیا چاہا رہا ہوں؟ خواجہ آصف کی نااہلی کے حوالے سے ججوں کی ریمارکس بڑے دلچسپ اور عجیب و غریب تھے ،ان کے کمنٹس سے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ خواجہ صاحب کو تاحیات نااہل نہیں کرنا چاہتے تھے ،لیکن مجبوری تھی ،وہ مجبوری کیا تھی ،اس کو سمجھنے کے لئے ججوں کے کمنٹس پر غور کرتے ہیں ،فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی عدالت کے لئے یہ خوشی کا موقع نہیں ہوتا ،جب کوئی منتخب نمائندہ نااہل ہو جائے ۔۔۔فیصلے میں کہا گیا کہ جب سیاسی قوتیں سیاسی سطح پر مسائل حل کرنے کی بجائے عدالتوں کا رخ کرلیتی ہیں تو اس کے اثرات دوسرے اداروں اور عوام پر بھی پڑتے ہیں ۔۔۔اگر اس طرح کے معاملات پارلیمنٹ کی بجائے عدالتوں میں آئیں گے تو پھر عدالت قانون کے مطابق فیصلہ دے گی ۔۔۔ججوں نے فیصلے میں کہا کہ انہوں نے بھاری دل کے ساتھ فیصلہ سنایا ہے ،نہ صرف اس لئے کہ ایک منجھا ہوا سیاستدان نااہل ہوا ہے ،بلکہ لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ ووٹروں کی امیدوں اور خوابوں کو بھی ٹھیس پہنچی ہے ۔۔۔ججوں کے ان ریمارکس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟اور کتنے مجبور ہیں ؟ججوں کے یہ ریمارکس سیاستدانوں کے لئے میگنا کارٹا کا درجہ رکھتے ہیں ،وہ جو کچھ اور جس انداز میں کہنا چاہتے تھے ،کہہ گئے ،لیکن سیاستدان اب بھی نہیں سمجھیں گے ،جب ایوب خان سیاستدانوں کو نااہل کررہا تھا ،انہیں سمجھ جانا چاہیئے تھا ،جب یحیی،ضیا اور مشرف ان سیاستدانوں کو نااہل کررہا تھا تب سمجھ جانا چاہیئے تھا ۔۔۔اب تاحیات نااہلی کا جمعہ بازار سجا ہے ،اب بھی شاید یہ نہیں سمجھیں گے ،پھر ایک وقت آئے گا جب شہباز شریف گروپ کے سیاستدان نااہل ہوں گے،پھر ایک اور وقت آئے گا جب عمران اینڈ کمپنی کے ساتھ ایسا ہوگا ۔۔۔اس کی وجہ یہ کہ عمران بھائی بھی تو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹرینز کو لعنتی کہہ چکے ہیں ،اس لئے وہ بھی مسائل پارلیمنٹ کی بجائے عدالتوں میں یا کہیں اور حل کریں گے اور اس طرح کے سنگین نتائج بھگتیں گے ۔۔۔سیاستدان جمہوریت اور سیاست کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اور قوم کے مسائل کو پارلیمنٹ میں حل کرنا ہوگا ،یہی وہ جج بھی کہہ رہے ہیں جو نااہل کررہے ہیں ،بات صرف انڈر اسٹنڈنگ کی ہے ؟پاناما کیس کے بعد تاحیات پابندیوں کا جو کھیل شروع ہوا ہے ،یہ تھمے گا نہیں ،کیونکہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔۔۔آج نواز شریف کی باری ہے ،کل شہباز شریف کی باری آئے گی ،پھر عمران کا نمبر لگے گا اور یہ سلسلہ بلاول تک جائے گا اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تھمے گا ؟خواجہ صاحب نے نااہلی کے بعد اب سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔۔۔۔خواجہ صاحب کے اس فیصلے پر رونے اور ہنسنے کو جی کرتا ہے ،ایسا کیوں یہ نہیں بتاوں گا ۔بھائی سپریم کورٹ تو پہلے ہی باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا کو تاحیات قرار دے چکی ہے ۔۔۔کیسے اور کس بنیاد پر خواجہ صاحب کو انصاف ملے گا ؟اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہچیلنج بھی ہوگیا تو ریلیف نہیں ملے گا ۔۔۔آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔