خواجہ آصف اور قمر جاوید باجوہ ایک پیج پر
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ خطے میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد نہیں دیکھی گئی۔نئے اتحاد بن رہے ہیں ،جغرافیائی حالات معاشی حالات کے تابع ہورہے ہیں ۔ہمیں ان حالات کا جائزہ لیکر نئی سمت کا تعین کرنا ہوگا ۔اور یہ سب کچھ جلدی کرنا ہوگا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جو ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں ،دنیا ان کو مختلف انداز میں دیکھتی ہے ۔میڈیا بریفنگ کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف چین پہنچ گئے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ آج وہ چین کے وزیر خارجہ سے تفصیلی ملاقات کریں گے ۔اس ملاقات میں ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے دیئے جانے والے بیان پر بات ہوگی ،اس کے علاوہ برکس اعلامیہ میں پاکستان میں شدت پسند گروپوں کے بارے میں جو تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اس کے بارے میں بات ہوگی ۔اس سے پہلے اسلام آباد میں تین دن سفیروں کا بحث و مباحثہ ہوا ،جس میں پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کی اسٹرٹیجی پر پات کی گئی ،سفیروں کے تین روز بحث و مباحثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب پاکستان کو اپنی پرانی خارجہ پالیسی تبدیل کرنی ہوگی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی خارجہ پالیسی کے خدوخال کے حوالے سے جو نئی تجاویز سفیروں کی طرف سے دی گئی ہیں ،ان تجاویز کو کابینہ میں بھی بحث کے لئے پیش کیا جائے گا ،اس کے علاوہ یہ تجاویز قومی اسمبلی کی کمیٹی اور پارلیمنٹ کے سامنے بھی رکھی جائیں گی ۔خواجہ آصف نے اس کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ جو بھی خارجہ پالیسی کی ناکامیاں ہیں اس کی وجہ جنرل ضیاٗ اور جنرل مشرف ہیں ۔خواجہ آصف نے یہ بھی فرمایا کہ نئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے دوسرے ریاستی اداروں سے بھی بات کریں گے ۔غالبا ان کا اشارہ فوج کی طرف تھا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ 1979 میں ہم نے افغان وار میں شامل ہونے کا غلط فیصلہ کیا تھا ،اسی طرح نائن الیون کے بعد بھی غلط فیصلہ کیا گیا ۔ہمیں ان جنگوں میں پھنسایا گیا جو ہماری تھی ہی نہیں ۔یہ ایک حیران کن بات ہے کہ پچھلے پنتیس سالوں میں پہلی مرتبہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے ۔سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی کے نئے پہلووں پر بات کرنے کا خواجہ آصف کا فیصلہ زاتی نہیں ہے ۔جو ادارے پاکستان میں خارجہ پالیسی کے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں ،ان کے کہنے پر ہی خواجہ آصف اس طرح کی باتیں کررہے ہیں ۔پاکستان میں جس طرح رولنگ سیٹ اپ ہے ،اس کی موجودگی میں خواجہ آصف زاتی طور پر اس طرح کے بیانات نہیں دے سکتے ،یہ ماہرین کی رائے ہے ۔پاکستان کے آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ نے بھی چھ ستمبر کی تقریر کے دوران اس طرح کا اشارہ دیا تھا جس سے لگتا ہے کہ وہ بھی نئی خارجہ پالیسی کے متعلق موجودہ سویلین سیٹ اپ اور خواجہ آصف کے ساتھ ہیں ،مثلا چیف آف آرمی اسٹاف نے فرمایا تھا کہ ہم افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لر سکتے ۔خواجہ آصف نے تو نئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیان دبنگ انداز میں دے دیا ہے ،لیکن پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے نئی خارجہ پالیسی کے ریویو کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔وزیر اعظم پاکستان ابھی تک اس بارے میں خاموش نظر آرہے ہیں ۔برکس اعلامیہ اور ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف بیان پر کابینہ اجلاس میں تشویش کا اظہار ضرور کیا گیا تھا ۔دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق خواجہ آصف کے بیانات سے لگتا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں ۔اس لئے کسی قسم کی کنفیوزن نہیں ہے ۔دونوں خارجہ پالیسی کے نئے بیانیئے پر ایک ہی پیج پر ہیں۔چیف آف آرمی اسٹاف نے چھ ستمبر کی تقریر کے دوران یہ بھی فرمایا تھا کہ جہاد کا اعلان کرنا ریاست کا حق اور زمہ داری ہے ۔اس سے لگ رہا ہے کہ اب کچھ شدت پسند گروپوں کے خلاف ایکشن ہوگا ۔چیف آف آرمی اسٹاف نے یہ بھی فرمایا تھا کہ بھٹکے ہوئے لوگ جہاد نہیں فساد پھیلا رہے ہیں ۔،اس لئے اب انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا دہائیوں پرانی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں تبدیلیاں ہونے والی ہیں ۔کیا نیا بیانیہ آنے کو ہے؟ میری زاتی رائے یہ ہے کہ پاکستان کو ٹرمپ کے بیان اور بریکس اعلامیہ کی سنگینی کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے ۔ہمیں اب کھل کر اعتراف کرنا چاہیئے کہ ہماری ماضی کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں نقائص تھے ،جس کا خیمازہ ہم نے خوفناک انداز میں بھگتا ۔اب پاکستان کو حقیقی انداز میں اندرونی لرائی لڑنی ہوگی ۔اب یکسو ہو کر ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہماری جنگ ہے یا دوسروں کی ۔ایسے اقدامات اٹھانے کا وقت آگیا ہے جس سے دنیا بھی مطمن ہو اور پاکستان کے لئے ڈومور کرے ۔اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی امن اور آزاد پاکستان کا احساس نصیب ہو ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لازوال قربانیاں دی ،سینکڑوں فوجی شہید ہوئے ،ستر ہزار پاکستان اس جنگ میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ،لیکن دنیا اب بھی ہمیں شک کی نظر سے دیکھتی ہے ،ہم پر الزام لگاتی ہے کہ ہم شدت پسند گروپوں کو مدد فراہم کرتے ہیں ،اس لئے دنیا کے اس خیال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اب افغان وار کا دور گزر گیا ،نائن الیون بھی ہوگیا ،ہم نے غلطیاں بھی کر لی ،سوال یہ ہے کہ اب کیا کریں ؟معاشرے میں انتہا پسندی آگئی ہے ،اب انتہائی تعلیم یافتہ دہشت گردوں کا بھی انکشاف ہونے لگا ہے ،صورتحال انتہائی گھمبیر ہے ،اس لئے پاکستان کو بطور ریاست نیا سماجی ،سیاسی ،خارجی اور فلاحی بیانیہ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔انتہا پسندی اور شدت پسندوں گھروں سے اعلی تعلیمی درسگاہوں میں پہنچ چکی ہے۔جس کی وجہ سے معاشرہ اور سماج برباد ہو کر رہ گیا ہے ،اس لئے اب کچھ نیا کرنا ہوگا ۔امریکہ کے بعد چین بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معاملات پر پاکستان کا دفاع نہیں کر رہا ،اب دنیا کو اور ہمیں امن چاہیئے ۔اگر سی پیک کو کامیاب کرنا ہے تو اس زمین سے انتہا پسندی ،تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ٹھیک ہے چین ہمارا یار ہے ،لیکن بریکس میں اس نے بتا دیا کہ وہ دہشت گردی کے ایشو پر کسی کا یار نہیں ،پھر وہ باقی دنیا کے ساتھ کھڑا ہے۔پاکستان کی اشرافیہ ،حکمران اور اسٹیبلشمنٹ سب کے سب پریشان ہیں ،اس پریشانی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ نیا بیانیہ سامنے لایا جائے جو آزاد ہو ،انسانی ہو ،لبرل ہو ۔جس میں نئی اور جدید خیالات اور نظریات ہوں ۔کسی نے آئن سٹائن سے سوال کیا کہ یہ پاگل پن کیا ہوتا ہے ،تو اس پر اس نے کہا کہ پاگل پن یہ ہے کہ بار بار ایک چیز کرو اور توقع رکھو کہ اس بار نتیجہ مختلف آئے گا ۔سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔آج کے لئے بس اتنا ہی ۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔