تعارف و تبصرہ ،،، صدف مرزا
تخیلات و تصورات کی تجسیم کرتی، درد اور اذیت کے چہرے کی شکنیں گنتی، قدم قدم خود شناسائی کے مراحل طے کرتی، کہی کبھی اپنی ہی تلاش میں خود سے الجھتی
لیکن اس تلاش میں کہیں نارسائی کا اندیشہ نہیں ہے
ہلکورے لیتا ایک عزم، دل کی نا دریافت گہرائیوں میں آہستگی سے آنکھیں کھولتے درد کی پیشانی پر ہاتھ رکھتا امید بھرا ایک سکون شامل ہے ۔ کبھی صرف ایک تیتری کی بات پر معصوم سہمے ہوئے زرد غنچے مسکرانے لگتے ہیں
گلناز کی ڈکشن، لفظیات و معنیات
استعارے، اجتماعی طور پر نظم کی بھر پور کیفیت اور تاثر
دل نجانے کیوں ہر دم سوگوار رہتا ہے، دور کے مسافر کا انتظار رہتا ہے۔
آفٹر بلاسٹ “”، “”یقیں نہ ہو تو نیلگوں ہوا کو چھو کے دیکھ لو””
دھڑک رہے تھے ہم یہاں، یہی کہیں
اندیشوں سے لرزتی سطریں
فطرت سے ہمکلام ادا پیڑ سے لپٹے جھونکے، گھاس میں الجھی خوشبو، جل تھل ہوائیں، دھرتی کے بھیگتے شانے، اس کو یہی بہت ہے۔
پیڑوں سے لپٹی تنہائی، کمروں میں سانسیں لیتا سناٹا، آنکھوں کی ڈولتی پتلیاں، خشک چہرے کی سلوٹیں،
خشک ہاتھوں میں تھامی ہوئی اک امید
کانتے پاتھ اور تصور میں مہکی ہوئی سوندھی روٹی کا چہرہ، روشنیوں سے معمور عشرت کدوں کے پچھواڑے میں فاقہ کش سسکتی انسانیت کا نوحہ۔ اس نظم نے اس پر بے روئے آنسئوں کی چادر چڑھائی ہے۔
کفیات کا یہ تضادات نا آسودہ تن لوگوں کے تصور سے فزوں تر حقییقت ہے
مٹی سے دور ہو کر بھی ، سرد اجنبی نامانوس فضاؤں میں بھی اپنی مٹی کی روایات اور شب و روز کو یاد کرتی ہے۔
کہیں کرسمس ٹری سجتا ہے تو انہیں سجانے والے ننھے ہاتھوں کو بتاتی ہے کہ جہاں سے وہ آئی ہے اس دھرتی کی شفاف پیالی میں بھرے تارے بھی جھلملاتے تھے۔
گلناز کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے عام روزمرہ زندگی سے موضوعات چنے ہیں اور پھر ان ہی عام، معمولی اور ناقابلِ توجہ حقائق کو جن کے متعلق کوئی شاید کبھی سنجیدگی سے سوچتا بھی
نہ ہو ، نہ ان کی موجودگی کا ادراک بھی کرتا ہو، گلناز ان ہی عام مضامین میں اپنی انفرادیت اور گہرے مشاہدے کے گل کھلاتی ہے۔
”بس ایک بوند زندگی” ۔
انسانیت کا نوحہ ہے لیکن یہاں پر انداز دیکھئے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک بے بس، اپنے وجود سے بھی نا آشنا ایک بوند کو، جسے ماننے یا نہ ماننے کا بھی اختیار حاصل نہیں ہے ، ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دیتی ہے۔
وہ معاشرے پر نفرین نہیں بھیجتی بلکہ اپنے بے تکلف، سادہ اور بے ریا انداز میں نشاندہی کرتی ہے
بلند لہجے اور خشونت بھری لعنت بھیجنے کی بجائے وہ احتجاج کی پتلی گلی سے گزر کر مظلوم کی ڈھارس بندھاتی ہے۔
اس کے ہاں بے بسی نہیں شعور ہے، زندگی کی تلخ حقیقتوں اور اپنے انتخاب پر معذرت نہیں غرور ہے
جدوجہد حیات میں بار ہا گرنے اور گر کر پھر اٹھنے پر ندامت نہیں بلکہ ہار نہ ماننے کا البیلا سرور ہے۔
وہ معاشرے کی غیر متوازن تقسیم پر اپنے احساس کی سخاوت نہیں دیتی بلکہ بساط بھر، یا یوں کہئے حیات بھر پونجی بھی دان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے اس کی جس نظم نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے پڑھوں اور بار با ر پڑھوں وہ ایندھن ہے ۔ وہ ایک محنت کش لڑکی کے ساتھ اپنا موازنہ کرتی ہے اور زمستانی شدتوں
کے تھپیڑوں سے نڈھال لڑکی کو اپنی کتابوں کا ایندھن دیتی ہے۔
کسی اییسے شہنشاہ کی مانند جو اپنی ساری سلطنت کسی کے قدموں میں رکھ دے
اس کا گہرا مشاہدہ کانوں میں گونج پیدا نہیں کرتا بلکہ ایک مدھم سی پکار اور اس کی نظمیں نیند سے جاگنے سے ذرا دیر پہلے کی کیفیت طاری کر کے آنکھیں کھولنے پر مجبور کرتی ہیں، اور اگر کوئی نہ بھی اٹھ کر بیٹھے تو غافل رہنے کا مزہ بھی نہیں لینے دیتیں۔
اس کی سطروں میں وہی چبھن ہے جو اس کے بے تکلف مزاج میں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا کلام ہجرو وصال اور اذیت و لذت کے نئے باب قلمبند نہیں کرتا اس کے ہاں عام نسائی ادب کی طرح یا سراسر بے رخی یا کامل خود سپردگی نہیں ملے گی بلکہ بے حد بیدار ، متحرک اور خود آشنا کیفیت طاری کرتا ہے۔
اس کی تخلیقات گواہی دیتی ہیں کہ ان کے پیچھے ایک با اصول ذہن کارفرما ہے جو اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے سفینہ حیات کا رخ بدل کر ایک نئی سمت اختیار کرنے پہ ہر لحظہ آمادہ و تیار ہے۔
کلام کی گہرائی میں اترنے سے ہی خبر ملتی ہے کہ یہاں خیمے کاندھوں پر پڑے ہیں اور پیروں میں سفر باندھے ، منزلوں کی منتظر نگاہوں کو نظر انداز کرکے فاتحانہ گزر جانے کا حوصلہ بھی ہے ۔
بہت جیو گلناز، جی بھر کے جیو اور تمہارے خوابوں کی ہتھیلیوں پر ستارے جگمگاتے رہیں، تقدیر کی لکیروں کو ان کی ضیا پاشی میں تم خود از سرِ نو بناؤ، ہر زمین تمہارے لئے آسمان ہو رہے اور یونہی یہ حر ف وزباں اور ہاتھوں کی تین انگلیوں میں
دبا ، بظاہر سادہ و خاموش قلم مشاہدے کی رنگین چھڑی گھما کر رنگا رنگ مناظر مجسم کرتا رہے۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1813434208887561/