کافی دِنوں سے میں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں کیونکہ جب میں سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو صبح کے پانچ بج چکے ہوتے ہیں ‘ اس حساب سے اگر کبھی کوئی بھولا بھٹکا خواب آبھی جائے تو اُس میں بھی مجھے اپنا آپ گہری نیند سویا ہوا نظر آتاہے۔ہر عمر کے اپنے خواب ہوتے ہیں ۔آپ کو 80 سال کی عمر کبھی یہ خواب نہیں آسکتا کہ آپ سپورٹس کار چلا رہے ہیں۔اسی طرح 26 سال کا لڑکا کس طرح کے خواب دیکھتاہے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ چلئے بچپن سے شروع کرتے ہیں۔
چھ سے آٹھ سال تک کی عمر کا بچہ عموماً خواب میں رنگ برنگی تتلیاں ‘ پھول اور خوفناک شکلیں دیکھتاہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ ہنسنے لگتاہے اور کبھی چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہے۔بعض اوقات اس کی چیخ اس لیے بھی نکل جاتی ہے کہ وہ اپنی ممی کی طرف منہ کرکے سویا ہوتاہے اور اچانک رات کے کسی پہر جب اس کی تھوڑی سی آنکھ کھلتی ہے تو میک اپ کے بغیر ممی کا چہرہ دیکھ کر اسے ایسا ہی لگتا ہے جیسے یہ واقعی کوئی’’ممی‘‘ ہے۔
آٹھ سے چودہ سال کی عمر لڑکپن کا آغاز ہوتی ہے۔ اس عمر میں بچے کو خواب میں جو خوبصورت چیز نظر آتی ہے وہ کارٹون ہوتے ہیں‘ نیلے پیلے‘ مضحکہ خیز شکلوں والے کارٹون۔ اور خوفناک خواب وہ ہوتے ہیں جن میں اسے کوئی اُٹھا رہا ہوتاہے کہ ’’اُٹھ جا شکیل ، سکول سے دیر ہورہی ہے‘‘۔اِس عمر میں اکثر خوابو ں میں چاکلیٹ بھی نظر آتے ہیں لیکن آنکھ کھلنے پر ’’پاپے‘‘ نکلتے ہیں۔
چودہ سے اٹھارہ سال کی عمر نہایت تلاطم خیز ہوتی ہے۔ اس عمر میں خواب بھی ایسے آتے ہیں جن کی تعبیرنہ کسی کتاب میں ملتی ہے نہ کسی سیانے سے پوچھی جاسکتی ہے۔خواب کا ڈراؤنا حصہ وہ ہوتاہے جب خواب ٹوٹ جاتاہے۔اس عمر میں پتا چلانا بڑا آسان ہوتا ہے کہ رات کون سا خواب دیکھا تھا‘ ہر خواب یاد رہتا ہے اور اگلی رات سلسلہ وہیں سے جڑتاہے جہاں سے ٹوٹتا ہے۔عموماً ہر تیسرے چوتھے روز خواب کی تعبیر بھی دیکھنے کو ملتی رہتی ہے۔
اٹھارہ سے پچیس سال تک کی عمر میں جو خواب آتے ہیں اُن میں سب سے حسین خواب کسی بحری جہاز کا کریش ہوجانا اور اپنے ساتھ ایک حسینہ کا ویران جزیرے پر زندہ بچ جاناہے۔یہ اِس عمر کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا خواب ہے اور ابھی تک اس کی ریٹنگ فائیو سٹار جارہی ہے۔ رہی بات خوفناک خواب کی ‘ تو وہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتاہے کہ جزیرے پر کچھ اور نوجوان بھی موجود ہیں۔ تاہم اپنی قوت ارادی سے کام لے کرخواب میں اِن غیر نوجوانوں کو باآسانی گہرے پانیوں میں غوطے لگوائے جاسکتے ہیں۔میں جب پچیس سال کی عمر میں ایسے خواب دیکھتا تھا تو احتیاطاً جہاز کو دو تین دفعہ کریش کرواتا تھا۔
پچیس سے تیس سال کی عمر میں چونکہ کسی بھی وقت شادی ہوجاتی ہے لہذا خوابوں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے‘ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اس عمر میں عموماً پرانے خواب ہی دوبارہ ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔کبھی کبھار کوئی نیا خواب بھی پکڑ میں آجاتا ہے لیکن اپنے ہی خراٹوں کی آواز سے آنکھ کھل جاتی ہے اور یوں کوئی خواب پورا نہیں دیکھا جاسکتا۔ ویسے بھی شادی کے بعد چھیچھڑوں کے خواب دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے ٹانگ کٹوا کرریس میں دوڑنے کا ارادہ رکھنا۔
تیس سے پینتیس سال کی عمر میں خواب آتے نہیں‘ لانے پڑتے ہیں۔ یہ بڑا جان جوکھوں کا کام ہے‘ کیونکہ جونہی آپ کا خواب سٹارٹ ہوتاہے ‘ بچہ رونے لگتاہے یا بیگم سوتے میں یوں کروٹ بدلتی ہے کہ پورا بیڈ ہل جاتاہے۔اس عمر میں جو خواب خودبخود آجاتے ہیں وہ اتنے بے ضرر ہوتے ہیں کہ خواب میں بھی پتا چل جاتاہے کہ یہ سب خواب ہے۔اگر بھولے بھٹکے سے کوئی سہانا خواب آبھی جائے تو وہ یہی ہوتاہے کہ ’’سالے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے‘‘۔
پینتیس سے چالیس سال تک کی عمر میں ایک چھوٹے سے گھر کا خواب جنم لیتا ہے‘ اپنا گھر‘ جس کے باہر لگی نیم پلیٹ تک خواب میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس عمر میں خواب میں اگر کوئی مسماۃ نظر بھی آجائے تو بندہ جان بوجھ کر خواب توڑ لیتا ہے ۔۔۔بھلا اپنے گھر کے خواب میں اس طر ح کی ’انٹر کٹنگ‘ کیوں؟ خوفناک خوابوں کے معاملے میں یہ عمر بڑی خطرناک ہوتی ہے‘ آئے دن کوئی نہ کوئی خطرناک خواب لہراتا رہتا ہے۔۔۔کرایہ بڑھ گیا ہے‘ نوکری چھوٹ گئی ہے‘ بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ میں گڑبڑ ہے‘ ٹینکی میں پانی نہیں ہے‘ پانچ سو کا نوٹ سڑک پر گر گیا ہے‘ پٹرول پمپ والوں نے ہڑتال کر دی ہے‘ وائی فائی کا پاس ورڈ چوری ہوگیا ہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔!!!
چالیس سے چھیالیس تک کی عمر میں صرف وہی خواب آتے ہیں جو لوگ آپ کو دکھاتے ہیں۔ مثلاً بے نظیر انکم سپورٹ میں آپ کا پچیس ہزار نکل آیا ہے‘ الشکیل ہاؤسنگ سوسائٹی میں پانچ مرلے کا پلاٹ نہایت آسان قسطوں پر مل رہا ہے‘ پرانی گاڑیاں خرید کر مرمت کروا کے بیچنے کا دھندا بہت اچھا ہے‘ چار پانچ انعامی بانڈز خرید کر رکھ لینے چاہئیں‘ موبائل کی دوکان کھول لیں تو بڑا پرافٹ ہے‘ سیکنڈ ہینڈ لیپ ٹاپ کی کھیپ منگوا لی جائے تو ایک ہفتے میں سارا مال ہاتھوں ہاتھ نکل جاتاہے۔۔۔!!
آگے پچاس سال کی عمر تک بندہ خواب میں اُن لوگوں کوپکڑ پکڑ کر پھانسی لگاتاہے جنہوں نے اس کی زندگی برباد کی ہوتی ہے۔یہ عمر کا وہ حصہ ہوتاہے جب خواب میں بھی کوئی بزرگ جوڑوں کے درد کی دوائی گفٹ کرجاتاہے۔ اس عمر میں خوفناک خواب نہیں آتے ‘ صرف پریشان کن خواب آتے ہیں‘ بچوں کے رشتوں کے خواب۔۔۔اپنے مختصر سے مستقبل کے خواب۔۔۔اور ماضی کے خواب۔ یہ عمر جاگتی آنکھوں سے خواب دکھاتی ہے لیکن فائدہ یہ ہوتاہے کہ چٹکی کاٹنے پر بھی یہ خواب نہیں ٹوٹتے۔۔۔!!!
پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر میں اچانک بے تحاشا خواب آنا شروع ہوجاتے ہیں لیکن ہر خواب حقیقت ثابت ہوتاہے۔اس عمر میں خواب بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں‘ سلوموشن میں دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو انسان خواب دیکھتے دیکھتے خود بھی اِ س خواب نگری کا حصہ بن جاتاہے۔اس عمر کے خوابوں میں خوفناکی اور پریشانی عنقا ہوجاتی ہے‘ خواب میں بھی ایسا لگتاہے جیسے کوئی اشارے سے بلا رہا ہے کہ ’آجا بھئی۔۔۔اب تیری باری ہے‘۔
ساٹھ سے آگے کی عمر میں خواب بھی جوان اولاد کی طرح منہ موڑ لیتے ہیں۔یہ گہری نیند سونے پر بھی نہیں آتے‘ آنکھیں بند کرنے پر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ خواب میں اپنا آپ نظر نہیں آتا‘ صرف دوسرے ہی نظر آتے ہیں۔جب اپنا آپ بھی ساتھ چھوڑ جائے توزندگی میں جو کچھ باقی بچتا ہے وہ خواب نہیں عذاب کہلاتاہے۔۔۔!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔