مولانا، قائداعظم کے مزار پر کھڑے تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے۔ فاتحہ خوانی کر کے باہر نکلے تو میڈیا والوں نے گھیر لیا۔ ’’کیا بات ہے مولانا؟ آپ اور بانیٔ پاکستان کے مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی؟ ایسا تو آج تک نہ ہوا تھا‘‘ مولانا اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے ’’تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کبھی بھی نہ ہو گا! آخر دیکھیے، ہم پاکستان سے فائدہ اٹھانے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وزارتیں ہماری! کمیٹیاں ہماری! پروٹوکول، گاڑیاں، مراعات، اسمبلیاں، سب کچھ پاکستان ہی کے طفیل ہے تو پھر اس ہستی کے ہم احسان مند کیوں نہ ہوں جس کی جدوجہد کے باعث یہ ملک وجود میں آیا۔‘‘
اس کے بعد مولانا نے ایک خصوصی پریس کانفرنس کو خطاب کیا جس میں لندن بیٹھے ہوئے اس سیاست دان کو آڑے ہاتھوں لیا جو پاکستان کے بارے میں مسلسل ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ مولانا نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس بیان پر احتجاج کیا جس میں انڈیا کو اشتعال دلایا گیا اور کہا گیا کہ انڈیا میں غیرت ہوتی تو پاکستان کی سرزمین پر مہاجروں کا خون نہ ہونے دیتا! مولانا نے پوچھا کہ جو انڈیا گجرات میں مسلمانوں کا خون بہاتا ہے اس سے آپ کس برتے پر مدد مانگ رہے ہیں۔ مولانا نے یہ بھی پوچھا کہ نیٹو کی فوج کو کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟
مگر افسوس! صد افسوس! واحسرتا! یہ سب خواب تھا۔ چار سالہ پوتے نے اخبارات کا بنڈل مجھ پر پھینکتے ہوئے کہا۔ ابو اٹھیے! اخبار پڑھیے، اسے یقینا اس کی دادی نے ایسا کرنے کو کہا ہو گا!ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا! کہاں مولانا اور کہاں قائداعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی! اور لندن سے جاری ہونے والے پاکستانی دشمن بیانات کی وہ کیوں مذمت کریں، وہ تو ابھی عمران خان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور اس کارخیر میں حکومتی پارٹی، بالواسطہ، پوری طرح نہ صرف ممدومعاون ہے بلکہ لطف اندوز بھی ہو رہی ہے۔ عام غیر معیاری زبان میں، جیسے دہلی کی کرخنداری زبان تھی، اسے چسکے لینا کہتے ہیں! اسمبلی کو بھارت نواز بیانات کی تو فکر نہیں مگر عمران خان کے لیے سبحان اللہ! کیا کوثر و تسنیم سے دُھلی ہوئی زبان استعمال ہورہی ہے۔
’’انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کے بارے میں کہا کہ وہ خیرات بھی مانگتے ہیں اور غنڈہ گردی بھی کرتے ہیں۔ اس پر سپیکر نے مسکراتے ہوئے (’’مسکراتے ہوئے‘‘ پر غور فرمایئے) اعلان کیا کہ وہ لفظ غنڈہ گردی کو کارروائی سے حذف کرتے ہیں۔ اس پر مولانا نے کہا کہ بدمعاشی سے مانگتے ہیں۔ سپیکر نے کہا کہ اس لفظ کو بھی دیکھنا پڑے گا تو انہوں نے اسی لہجے میں کہا کہ خیرات بھی مانگتے ہیں اور دہشت گردی بھی کرتے ہیں۔ اس پر ایوان کشتِ زعفران کا منظر پیش کرنے لگا اور وزیراعظم بھی قہقہہ بار ہو گئے‘‘
بغداد پر چڑھائی ہو رہی تھی تو وہاں کے فقہا کوے کی حِلت و حرمت پر بحث کر رہے تھے۔ لندن سے بھارت اور نیٹو کو پکارا جا رہا ہے اور ہمارا منتخب ایوان تحریک اِنصاف کی مشکیں کسنے میں مصروف ہے!
ایک معاصر نے حضرت مولانا کی تقریر کی روانی اور زور خطابت کو ابوالکلام کے مرتبے پر فائز قرار دیا۔ یہ الگ بات کہ خطابت کے لیے ابو الکلام آزاد کی نسبت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری زیادہ مشہور ماڈل ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد تقریر کے میدان کے شہسوار بھی تھے لیکن اصلاً ان کی شہرت ان کی تصانیف کی وجہ سے ہے۔ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نکالا، پھر ’’تذکرہ‘‘ جیسی کتاب لکھی۔ تاہم ایک بات ضرور مشترک ہے۔ قیام پاکستان کی مخالفت جہاں مولانا ابوالکلام آزاد نے کی وہاں جمعیۃ العلماء ہند نے بھی کی۔ قائداعظم نے مولانا آزاد کو کانگریس کا شو بوائے کہا تھا۔ تقسیم کے بعد مولانا مرکزی حکومت ہند میں وزیر رہے مگر بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات سرانجام نہ دے سکے۔ روزنامہ دنیا کے لیے ’’مکتوب دہلی‘‘ لکھنے والے صحافی جناب افتخار گیلانی نے گزشتہ ہفتے ایک اہم حقیقت بیان کی۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’بی جے پی کے ایک مسلم وزیر نے مجھے بتایا تھا کہ بھارت میں چاہے کانگریس ہو یا بی جے پی، ان کو نمائشی مسلمان عہدوں کے لیے درکار ہوتے ہیں جن کا کمیونٹی کے ساتھ دور کا بھی ربط نہ ہو اور جو اپنی کمیونٹی کے لیے پاور میں حصہ داری کے لیے کوشاں بھی نہ ہوں‘‘
شورش کاشمیری مولانا ابوالکلام آزاد کے بہت بڑے عقیدت مند اور مداح تھے۔ سالہاسال پہلے شورش کاشمیری کی مولوی حضرات سے قلمی جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ معرکے کی تھی۔ ان کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ اس جنگ کا خاص میدان تھا۔ قبولیت کا یہ عالم تھا کہ آٹھ آنے کا پرچہ پانچ روپے میں خریدا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک صاحب کو، کہ خطابت میں شہرہ پایا تھا، ابو الکلام کہا جاتا تھا۔ شورش کاشمیری نے اس پر طنز کیا اور کہا ؎
اک وہ ابوالکلام تھا اک یہ ابوالکلام
وہ شہسوارِ علم تھا، یہ خنگِ بے لگام
کالم نگار اس وقت سکول کا طالب علم تھا۔ اس جنگ کے دوران قبولیت عامہ حاصل کرنے والے شورش کاشمیری کے کچھ دلچسپ اشعار اب بھی حافظے میں محفوظ ہیں ؎
حاشیہ ادرک کی چٹنی کا، پھریری دال پر
قورمہ، فرنی، پلائو، کیا یہی اسلام ہے؟
نوشگفتہ کونپلوں کو خواہش اولاد پر
اپنے پہلو میں بٹھائو، کیا یہی اسلام ہے؟
بپھر گئے ہو مزاروں کی روٹیاں کھا کر
تمہارے پیٹ کمر سے لگا کے چھوڑوں گا
باعث رسوائی دینِ حنیفہ ہو گیا
مفتیٔ لاہور آوارہ لطیفہ ہو گیا
ویسے الطاف حسین کے ’’حب الوطنی‘‘ میں ڈوبے ہوئے بیانات پر صرف مولانا ہی خاموش نہیں، جنرل پرویز مشرف بھی منقار زیر پر ہیں! یوں تو وہ بھارت کے حوالے سے خوب چوکس اور چوکنے رہتے ہیں مگر مفادات اور وابستگیوں کے بندھن بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ ہر شخص کو کسی نہ کسی موقع پر، جلد یا بدیر، برہنہ ضرور کر دیتے ہیں اور عکس اپنے اصل سے جدا ہو کر رہتا ہے! جنرل پرویز مشرف کے تذکرے سے ذہن این ایل سی سکینڈل کی طرف مڑ گیا ہے۔ یہ جنرل صاحب ہی کے عہدِ ہمایونی کے سلسلے ہیں جن کے کفارے اب ادا کیے جا رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے سالہاسال سے زیر التوا اس معاملے پر دو ٹوک فیصلہ کر کے تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے صفحے پر لکھوا لیا ہے جو تابناک ہے اور ہمیشہ تابناک رہے گا! کیا عجب یہ بارش کا پہلا قطرہ ہو!
این ایل سی کے معاملے میں منصوبہ بندی کمیشن نے ابتدائی انکوائری کے لیے اس فقیر کو مقرر کیا تھا مگر بیرون ملک پابہ رکاب ہونے کی وجہ سے معذرت کر دی تھی اور سابق وفاقی سیکرٹری جناب مرزا حامد حسین کا نام تجویز کیا تھا۔ یہ نام منظور کر لیا گیا اور ابتدائی انکوائری مرزا حامد حسن صاحب ہی کی قیادت میں ہوئی۔ یہ چھ سات سال پہلے کی بات ہے۔ نیک نام جنرل امتیاز اس وقت این ایل سی کے سربراہ تھے۔ اس ضمن میں کچھ اور بھی راز تو نہیں، واقعات ضرور ہیں۔ کچھ دلچسپ شخصیات کا تذکرہ بھی اس ضمن میں آتا ہے تاہم اس کی تفصیل زیر تالیف خود نوشت میں آئے گی کہ ایک اخباری کالم تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا!۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔