نامعلوم مقام پر یہ اجلاس کئی گھنٹوں سے ہو رہا تھا۔
دروازے آہنی تھے، کھڑکیاں بند تھیں، برآمدوں پر جگہ جگہ سنگین بردار پہریدار کھڑے تھے۔ فصیل کے اوپر برج تھے اور ہر برج پر توپ نصب تھی۔ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مکھی کے بھنبھانے کی آواز بھی دھماکہ لگتی تھی۔ بڑے سے بڑا منصب دار بھی روکا جا رہا تھا، اجلاس کئی گھنٹوں سے جاری تھا۔
بھارتی اور امریکی مندوب اسرائیل کے نمائندے پر برس رہے تھے۔ ان کا موقع واضح تھا۔ اسرائیل کو انتظار کرنا چاہئے تھا۔ فلسطینیوں پر حملہ کرنے کا یہ کون سا وقت تھا؟ یہ سراسر حماقت کا ارتکاب تھا۔ بھارتی اور امریکی مندوب اسرائیل کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دن دیہاڑے کھلم کھلی جارحیت کا ارتکاب کر کے اسرائیل نے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا تھا۔ منصوبے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ شب خون مارے جائیں، ہر کام چھپ کر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو متحد ہو نے کا موقعہ نہ ملے۔ وہ غافل ہی رہیں پھر جب سب کچھ کھوکھلاہو جائے تو آخری وار کیا جائے اور آخری وار کا وقت ابھی نہیںآیا تھا۔ غزہ پر چڑھائی کر کے اسرائیل نے سارے پلان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان متحد ہو رہے ہیں۔ ہر ملک میں ہر شہر میں بھارتی، امریکی، اسرائیلی مکروہ اتحاد کی مذمت کی جا رہی ہے۔ یہ اتحاد خطرے کی علامت ہے اگر مسلمان اس طرح متحد ہو گئے تو منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائیگا۔ مسلمانوں کے اتحاد کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہئے۔
اسرائیل کا نمائندہ کئی گھنٹوں سے بھارتی اور امریکی مندوبوں کی تقریریں سن رہا تھا۔ اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا سوائے ایک تاثر کے اور وہ تاثر اطمینان کا تھا۔ مکمل اطمینان مکمل آسودگی!جب دونوں اپنے اپنے نکات ختم کر چکے تو اسرائیل کے مندوب نے کافی کا گھونٹ بھرا سگار سلگایا اور اپنے دونوں ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
میں تم دونوں کی تشویش اور خلوص کی قدر کرتا ہوں۔ بھارت اور امریکہ سے بڑا اسرائیل کا دوست آخر کون ہو سکتا ہے؟ آخر امریکی یہودی اور بھارتی ہندو سے بہتر اتحاد اسرائیل کو کہاں میسر آ سکتا ہے؟ یہ تو اسرائیل کی خوش بختی ہے کہ مسلمانوں کیساتھ جنگ میں امریکہ اور بھارت اسکے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن میں اپنے بھارتی اور امریکی دوستوں کو یقین دلاتا ہوں۔
اسرائیلی مندوب نے پہلو بدلا، اپنے کاغذوں کو دیکھا اور بیان جاری رکھا۔
’’آپ نے مسلمانوں کے اتحاد کی بات کی ہے۔ میں اس سے اختلاف کرتا ہوں اور ادب کیساتھ عرض کرتا ہوں کہ کون سا اتحاد؟ آپ کس اتحاد کی بات کر رہے ہیں؟ چند کمزور مسلمانوں کے احتجاجی جلوسوں کو امت مسلمہ کا اتحاد سمجھ لینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ یہ جلوس بھی چند اسلامی ملکوں میں نکل رہے ہیں۔ سب میں نہیں۔ احتجاجی جلوس چند مذہبی جماعتوں کے سر پھرے ارکان، چند طالب علم اور چند علمائے دین نکال رہے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے طاقتور گروہ شامل نہیں۔ ان میں مسلمان ملکوں کے اہل اقتدار شریک نہیں، ان میں پالیسیاں بنانے والے نہیں دکھائی دیتے چنانچہ ان احتجاجی جلوسوں کی عملی دنیا میں کوئی وقعت ہے نہ حیثیت، ہماری افواج کی پیشقدمی کو اس قسم کے سینکڑوں کیا ہزاروں احتجاجی جلسے اور جلوس بھی ذرہ بھر متاثر نہیں کر سکتے‘‘۔
’’اسرائیل نے سب کچھ دیکھ بھال کر وقت کو مناسب جان کر ہی حملہ کیا ہے۔ اس وقت مسلمان جس زوال سے گزر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی زوال نہیں ہو سکتا! آج اگر امریکہ کرہ ارض کا بلاشرکت غیرے بادشاہ ہے تو اس کی پشت پر تین چار سو سال کی محنت ہے۔ یہ چار سو سال امریکیوں نے صنعت و زراعت اور سائنس میں شدید محنت کر کے گذارے ہیں۔ ایجادات اور دریافتوں کا 80 فیصد حصہ امریکیوں کے کھاتے میں آتا ہے۔ اپنے بھارت کو دیکھ لیجئے، ساٹھ سال جمہویت میں کوئی رخنہ نہیں پڑا، اسکے مقابلے میں پاکستان چار فوجی آمر بھگتا چکا ہے اور ہر آمر نے اپنے پیشرو سے بڑھ کر پاکستان کو قعر مذلت میں گھسیٹا ہے۔ بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں یورپ کے ہم پلہ ہو چکا ہے پاکستان وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ پاکستانیوں کو صرف ایک فکر ہے کہ بھارت سے کرکٹ میں مار نہ کھائیں، انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ تعلیم سائنس جمہوریت تجارت اور دوسرے عملی میدانوں میں پاکستان بھارت کی برابری کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چند خاندان ہیں جو پاکستان کی سیاست پر قابض ہیں اور چند رشتہ داریاں ہیں جو پاکستان کے منتخب اداروں پر چھائی ہوئی ہیں اور تو اور مذہبی رہنما بھی منتخب اداروں میں اپنی رشتہ دار خواتین کے سوا کسی کو آگے نہیں آنے دیتے۔ پاکستان میں میرٹ اور اہلیت کی اس قدر تذلیل ہے کہ اسکے ٹیکنوکریٹ ملک سے باہر جا کر عافیت محسوس کرتے ہیں اور سجدہ ہائے شکر ادا کرتے ہیں۔ انکے جو رہنما وعدے کر رہے ہیں کہ اقتدار میں آکر عوام کے بارے غم دور کر دینگے۔ انکے عوام کیساتھ تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سینکڑوں کنال کے گھروں میں رہتے ہیں اور انکے رات دن عشرت و انبساط میں گذرتے ہیں۔ میں اپنے دونوں ساتھیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل قریب تو کیا بعید میں بھی پاکستان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسکے نمایاں ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ رہے عرب… تو آپ اسرائیل کیساتھ ان کا موازنہ کر لیجئے، کسی عرب سے کسی یورپی نے پوچھا تھا کہ تمہیں بارڈر پر ، جہاں زمینیں خلط ملط ہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ اسرائیل کا ہے اور یہ عربوں کا تو عرب نے جواب دیا تھا کہ بہت آسانی سے جو علاقہ ہرا بھرا سرسبز اور شاداب ہوتا ہے وہ اسرائیل کا ہوتا ہے اسرائیل میں جنگ کے دوران بھی انتخابات ملتوی نہیں ہوئے۔ کبھی آمریت بھی جمہوریت سے جیت سکتی ہے؟ مصری حسنی مبارک اور شامی اسد اور اس کے بیٹے کی تصویریں دیکھ دیکھ کر پاگل ہو چکے ہیں۔ مراکش سے لیکر خلیج کی ریاستوں تک چند خاندان ہیں جو مسلمانوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسکے مقابلے میں اسرائیل میں کتنے صدر بدلے اور کتنے وزیراعظم آئے اور اپنا اپنا حصہ اسرائیل کی طاقت میں ڈال کر رخصت ہوئے!
مجھے ہنسی آتی ہے کہ تم ان مسلمانوں سے خائف ہو جنکے پاس ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں جو دنیا کی ایک ہزار بہترین یونیورسٹیوں میں گنی جا سکے۔ انکی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ بش پر جوتے پھینکنے والے منتظر زیدی کو بحرین کا ایک باشندہ چھ دروازوں والی لیموزین کار پیش کر رہا ہے اور ایک سعودی اسکے جوتے کیلئے ایک کروڑ ڈالر خرچ کرنے کیلئے تیار ہے لیکن یہ لوگ تعلیم اور سائنس پر ایک درہم بھی خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں اس سے بڑا لطیفہ کیا ہو گا کہ جو امریکہ نے پورے دو ملک ہڑپ کر چکا ہے اسکے مقابلے کیلئے انکے پاس ایک طیارہ، ایک ٹینک، ایک طیارہ بردار جہاز اور ایک سپر کمپیوٹر تک نہیں۔ پوری امت نے مشکل سے بش کیلئے دو جوتے نکالے ہیں جن سے بش کی تذلیل تو ضرور ہوئی لیکن امریکی طاقت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ انکی حالت تو یہ ہے کہ سوات میں پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن کیا مولانا فضل الرحمن اور کیا قاضی حسین احمد اور کیا اپنے بیٹے کو اپنی زندگی میں جانشین مقرر کرانے والے ڈاکٹر اسرار احمد کسی کو مذمت کی بھی توفیق نہیں ہوئی‘ کیا میرے بھارتی اور امریکی دوست ان مسلمانوں سے ڈر رہے ہیں؟ اسرائیلی مندوب نے سگریٹ کا آخری حصہ ایش ٹرے میں بجھایا اور کاغذ سنبھالتا ہوا، سلام کرتا ‘ باہر نکل گیا!
http://columns.izharulhaq.net/2009_01_01_archive.html
“