گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھہ لوگ پہچانے گئے
آج اس شعر کے خالق خاطر غزنوی کی دسویں برسی ہے۔
خاطر غزنوی 25 نومبر، 1925ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام مرزا ابراہیم بیگ تھا۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان پشاور سے کیا۔ بعد ازاں پشاور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور اسی شعبہ میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اس دوران وہ دو ادبی جرائد سنگ میل اور احساس سے منسلک رہے۔ 1984ء میں انہیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔
خاطرغزنوی جدید اردو اور ہندکو شاعری اور نثر میں ایک منفرد حیثیت کے حامل تھے۔ ان کی شاعری میں انسان بولتا ہے، وقت اپنی راگنی سناتا ہے، ماحول اپنے نغمے الاپتا ہے۔ جدید دور کی زندگی میں جو کچھہ ہے، جو کچھہ ہو سکتا ہے یا جو کچھہ ہونا چاہیے، اس کی ان گنت تصویریں خاطر کی شاعری میں نمایاں ہو کر مجموعی طور پر اس کو نئی زندگی کا مرقع بلکہ نگار خانہ بناتی ہیں اور یہی ان کی شاعری کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔
حکومت پاکستان نے خاطر غزنوی کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدراتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
ان کی شاعری کے مجموعےروپ رنگ ، خواب درخواب ، شام کی چھتری اورکونجاں کے عنوان سے شائع ہوئے ۔نثر کی کتابوں میں اُردو زبان کا مآخذ ہندکو ، زندگی کے لیے پھول ، پھول اور پتھر ،چٹانیں اور رومان ،رزم نامہ ، سرحد کے رومان ، پشتو متلونہ ، دستار نامہ ، پٹھان اور جذباتِ لطیف ، خوشحال نامہ چین نامہ ، اصناف ادب ، ایک کمرہ ، جدید اُردو ادب شامل ہیں۔
خاطر غزنوی نے 7 جولائی 2008ء کو پشاور میں وفات پائی اور قبرستان رحمٰن بابا پشاور میں سپردِ خاک کئے گئے۔
ان کے کچھہ اور شعر
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھہ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتیں کچھہ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھہ ویرانے گئے
کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
ایک ایک کر کےلوگ نکل آئے دھوپ میں
جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں
فضائیں چپ ہیں کچھہ ایسی کہ درد بولتا ہے
بدن کے شور میں کس کو پکاریں کیا مانگیں
گلوں کی محفل رنگیں میں خار بن نہ سکے
بہار آئی تو ہم گلستاں سے لوٹ آئے
اک تجسس دل میں ہے یہ کیا ہوا کیسے ہوا
جو کبھی اپنا نہ تھا وہ غیر کا کیسے ہوا
انساں ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
جو پھول آیا سبز قدم ہو کے رہ گیا
کب فصل گل ہے فصل طرب اپنے شہر میں
کیسی چلی ہے اب کے ہوا تیرے شہر میں
بندے بھی ہو گئے ہیں خدا تیرے شہر میں
خاطرؔ اب اہل دل بھی بنے ہیں زمانہ ساز
کس سے کریں وفا کی طلب اپنے شہر میں
لوگوں نے تو سورج کی چکا چوند کو پوجا
میں نے تو ترے سائے کو بھی سجدہ کیا ہے
قطرے کی جرأتوں نے صدف سے لیا خراج
دریا سمندروں میں ملے اور مر گئے
سر رکھہ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں
تو نہیں پاس تری یاد تو ہے
تو ہی تو سوجھے جہاں تک سوچوں
وحشتیں کچھہ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھہ ویرانے گئے
یہ کون چپکے چپکے اٹھا اور چل دیا
خاطرؔ یہ کس نے لوٹ لیں محفل کی دھڑکنیں
جب اس زلف کی بات چلی
ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"