روح نے انسانی شکل اختیار کرتے ہی جذبات واحساسات کی گٹھڑی پلو میں باندھ لی اور جب بھی موقع پایا خود کو ظاہر کرنے اس گٹھڑی سے کچھ نہ کچھ نکال لیا ۔دوسروں تک احساسات کی ترسیل کے لیۓ دنیا نے بہت سے ذراٸع استعمال کیۓ کبھی اشاروں کی زبان وسلہ بنی تو کبھی انسان ایلچی بن کر وسیلہ اظہار بنا کبھی انسان نے پرندوں کوسدھا کر دور دیس بسنے والوں کو سندیسے بھیجے جوں جوں پیام رسانی کے ذراٸع جدت اختیار کرتے گیۓ انسانی دکھ اور سکھ بھی نٸ اشکال پاتے گیۓایک دور ٹیلی گرام کا ڈنکا بجتا تھا اور ڈاکخانہ و ڈاکیا بہت معزز رتبہ رکھتے تھے معاشرہ میں،دور نزدیک کے پیامات لے خط کے ذریعے اور پیسے منی آرڈر کی صورت میں لے کر آنے والی شخصیت کا انتظار کرنے والے جس اذیت کا سامنا کرتے یہ دوسرا کوئی سمجھ نہیں سکتا،خوشی کی خبر اور منی آرڈر آنے کی صورت میں ڈاکیا انعام کا مستحق ٹھہرتا،ٹیلی فون آیا تو ڈاکیا کی اھمیت ختم نہ ہوٸ مگر کم ضرور ہوئی مگر موباٸل کا دور آیا توڈاکیا اپنے ڈاکخانے سمیت قصہ پارینہ بن گیا،ڈیجیٹل ایج نے خیالات کی رو کو بجلی کی رفتا رعطا کر دی اورپلک جھپکتے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رسائی عطا کر دی،مگر جو اہمیت انسانی زندگی میں خطوط کو حاصل رہی وہ دوسرا کوئی ذریعہ نہیں پا سکا،خطوط کسی بھی زبان میں لکھے گیۓ آج بھی عظیم شاہکار تصور ہوتے ہیں ،خطوط میں استعمال شدہ ادبی زبان آج کی تیز رفتار زندگی میں باعث تھکن قرار پاتی ہے اور محبت یا لڑائی دونوں صورتوں میں اختصار کی نٸ شکل کو ٹویٹ کہا جتا ہے ،جسے پڑھنے لکھنے کے لیۓ جدید ایجادات سے واقفیت ضروری ہے،خطوط نویسی نے انسانی ماضی کو دریافت کرنے میں بہت مدد کی ہے مشہور شخصیات کے خطوط سے اس وقت کے حالات اور ذات کے پوشیدہ گوشےوا ہوے مختلف تہوار پر عید کارڈ،سالگرہ کارڈ جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ تھے لوگ ان کارڈوں اور خطوط کی حفاظت کاخصوصی انتظام رکھتے ،دور بسنے والے محبوب کے الفاظ تنہائی میں حوصلہ دیتے اور ان خطوط کو بار با پڑھ کردل کو تسلی دی جاتی ،خطوط لکھنے والے اشعار اور ادبی زبان استعمال کر کے دوسروں کو اپنی علمیت سے مرعوب کرتے اور شاٸستگی کا ظہار کرتے ،لڑائی جھگڑے کی صورت میں بھی خاص حد تک محدود رہتے محبت میں جدائی کی صورت میں سب سے پہلا مطالبہ خطوط کی واپسی کا ہوتا۔
آج کی برق رفتار زندگی میں تیز رفتار ذراٸع ابلاغ کی اہمیت سے انکار ممکن نہی مگر اس تیز رفتاری نے رشتوں کو غیر مستحکم کر دیا ہے برق رفتار محبت تیز ترین اختتام کو گامزن ہو جاتی ہے کیونکہ فریقین کا غصہ ابھی عروج پر ہوتا ہے اور کوئی دوسرا ٹویٹ آکر جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے جبکہ خطوط کی شکل میں جدائی ہونے سے پہلے عصہ ٹھنڈا ہوجاتا اور ایک دوسے کی غلطی پر نظر ثانی کا موقع مل جاتا اور رشتے بچ جاتے ۔آج کا انسان اپنی یادوں کو تازہ کرنے کے لیۓ بجلی کا محتاج ہے واٸفائی ،چارجر کے بغیر سفر ادھورا ہوتا ہے اور پھر معاشی حالات بھی اس قابل ہو کہ ان سہولیات سے مستفید ہوا جا سکے
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...