صوبۂ سندھ میں ایسا کون ہوگا جس نے ”کھڑی نیم کے نیچے“ گیت نہ سنا ہو۔ معنی و مفہوم سے ناآشنا ہونے کے باوجود آج بھی لوگ اس گیت کی اصل موسیقی اور گلوکار ہ کی آواز کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
تھر کی شادی بیاہ کی تقریبات میں لوک گیت گا کر گلوکاری کا آغاز کرنے والی مائی بھاگی صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئیں ۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا
اس زمانے میں تاریخ پیدائش یاد رکھنے کا رواج نہ تھا اس لئے جب بھی ان سے تاریخ پیدائش کا پوچھا جاتا تو وہ کہتی کہ ’میں تو تھری ہوں جہاں ہم صدیوں سے رہتے آرہے ہیں تاریخ اور عمر کا حساب تو تم شہری بابو رکھتے ہو
انھوں نے فن گلوکاری کی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتب کرتی تھیں۔
پہلی بار مائی نے ریڈیو پاکستان پر ”کھڑی نیم کے نیچے“ گایا تو اسے پسندیدگی کی وہ سند ملی کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پھر وہ وقت آیا کہ ڈھائی کے مارواڑی اور سندھی زبان میں گائے گئے گیت پسندیدگی کا پیمانہ ٹھہرے۔
ان کا لوک کلام ہر محفل میں سنا جاتا تھا، وہ جب اپنے مخصوص انداز میں کان پر ہاتھ رکھ کر راگ الاپتیں تو ان کی سریلی آواز شرکاءکو مسحور کردیتی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں جہاں بھی انہوں نے گائیکی کے جوہر دکھائے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو اپنی آواز کا گرویدہ بنا لیا۔
ملک کے مختلف اعلیٰ ایوارڈز کے علاوہ حسن کارکردگی پر صدارتی تمغہ بھی ان کے حصہ میں آیا۔ مائی بھاگی نے جہاں بھی پر فارم کیا لوگوں کی داد و تحسین حاصل کی۔ وہ جب گاتی تھیں تو وقت ٹھہر جاتا تھا۔
تھر کی کوئل مائی بھاگی جولائی 1986کو اس جہاں سے کو چ کر گئیں۔آج ان کے انتقال کے اتنے برس بعد بھی ان کی یادیں اور باتیں سندھ کے لوگوں کا اثاثہ ہیں ،ان کے گیت سندھ کے چپے چپے میں گونجتے ہیں۔وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی
جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے ،
یہ صحرائے تھر کی مقامی زبان ڈھاڈکی کا گیت ہے ، جو اپنے اندر ایک خاص موسم خاص وقت خاص تہذیب اور خالص عشق لئے صدیوں سے جاوداں ہے ،
ترجمہ
ﻣﯿﮟ ﻧﯿﻢ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﮞ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﺳﻔﺮ اے ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ
اس گیت کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ
جب روپلو کولھی کو انگریز پکڑ کے دار پر لٹکانے کے لیئے لے گئے تو ان سے آخری بار پوچھا گیا کہ ہم آپ کو چھوڑ سکتے زندگی بخش سکتے ہیں صرف ہمیں یہ بتا دو کہ آپ کا ٹھاکر راجپوت مُکھیہ کہاں روپوش ہے ؟ ہمیں اس کا ٹھکانہ بتاؤ ؟
مگر کوہلو ایک مظبوط راجپوت وطن پرست ایماندار وفادار صحرائی شیر تھا ایک لفظ نا بولا ،
اتنے میں روپلو کولھی کی شریک حیات تھر پارکر کی سرسوتی" رنگو بائی" کی آواز آتی ہے کہ روپلا اگر تم نے انہیں کچھ بتایا تو تھر پارکر کی کولہنیاں مجھے طعنے دیں گی مجھے آئے دن کوسیں گی کہ وہ دیکھ غدار کی بیوی ، میں تیرا مرا ہوا منہ تو دیکھ سکتی ہوں اپنے آپ کو ودھوا تو قبول کر سکتی ہوں لیکن ایک غدار کی بیوی نہیں ،
روپلو کے حوصلے بلند ہوئے زبان پر اور بڑا تالا لگا رسی کھینچی گئی روپلو درخت کی شاخ میں لٹکا رہا سانس جانے تک ، شریک حیات کا سُرخ سلام اُٹھتا ہے اور روپلو صدیوں تک امر ہو جاتا ہے ،
(مگر مذہبی تعصب ہماری اپنی مٹی کے اصل سورماؤں کو کھا گیا کوئی نہیں جانتا روپلو کوہلی کون تھا ؟ ، کبھی اس کردار پر بھی تفصیلی پوسٹ لکھوں گا )
اب تھر میں یہ رسم ٹہری کہ
سر کا سائیں گھر سے نکلتا تھا تو سُندری نیم کے نیچے کھڑی ہوکر لوک گیت گُنگناتی تھی ،
کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ھیکلی
جاتو ڑا بٹاڑو ماناں چھنے مانے دیکھ لے
رنگو بائی عمر بھر اس نیم کے پیڑ نیچے یہ گیت گنگاتی رہی ، اور اپنے قبیل کی عورتوں کے حوصلے کارونجھر پہاڑ جیسے بلند اور مظبوط کرتی رہی
تھر پارکر کی سانولی سنولی ناریاں سچ میں ہمت عزم اور وفا کا پہاڑ ہی ہیں ، محبوب کے لئے دنیا کی شگفتہ ترین مخلوق اور غیر کے لئے آگ ،
جھر مر جھر مر مھولا برسے،پون ھولو کھاوے
مور پپیہا میٹھا بولیں کوئل شور مچاوے
ہوں تھانا پچھاں چھیل بھمریا ہیکلی
جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے
یعنی !
ﺟﮭﺮ ﻣﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺳﺎﻭﻥ ﮐﯽ ﭨﭙﭩﭙﺎﺗﯽ ﺑﻮﻧﺪﯾﮟ ﺑﺮﺱ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﻮﮞ،
ﮬﻮﺍ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﻧﮑﮯ ﺟﮭﻮﻟﮯ کھا ﺭہے ﮨﻮﮞ،
ﻣﻮﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺪﮨﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺳﺎﺯﮔﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ، پپیحا ﺑﺎﺭﺵ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ، ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﻞ ﮐﯽ مدھر ﺁﻭﺍﺯ ہو
، ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﻔﺲ ﺍﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻠﮏ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ،
ﺍُﻭﭼﯽ ﻣﯿﮍﮬﯽ ﺍُﺟﮍﯼ ﺟﻨﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﻧﺒﺎﮌﯼ ﮐﮭﺎﭦ
ﺩﮬﻦ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻮﻟﻮ ﭘﻮﮈﮬﯿﺎ ﺳُﮕﻦ سیالے دی رات
ہوں تھانا پچھاں چھیل بھمریا ہیکلی
جاتورو باٹورو مانا چھانی مانی دیکھ لے
یعنی !
ﺍﻭﻧﭽﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﮌﯼ ﻧﻤﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﻮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻟﮯ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ لہروں ﺟﯿﺴﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ہو ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻔﺮﯾﺐ ﺳﻤﺎ، ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮨﻮ ،ﺟﺐ ﮨﻢ ﻣﻠﯿﮟ ﺗﻮ ﮔﺬﺭﺗﮯ لمحے ﺗﮭﻢ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﻧﯿﻢ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﮯ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ لے
آج میں بے بس کوہلیوں اور لاچار روپلوؤں کے بارے لکھنا چاہتا ہوں جو انگریز سے تو جیت گئے مگر وڈیروں کے ہاتھوں مارے گئے ، اپنی عزتیں نا بچا سکے ، آج بھی ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں ، کچھ تالپور کچھ سید کچھ ان ہی کے قوم کی اونچی ذات والے آج بھی ان کی بچیوں کی عزت تار تار کرتے ہیں
میں دکھی ہوں میری مائی بھاگی دکھی ہے میری رنگو بائی دکھی ہے
میرے آنسو میرا درد میرے تھر کے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں