خربوزے
میڈیا کچھ اس طرح سے ہماری زندگیوں میں گھس گیا ہے کہ اب نہ چاہتے ہوئے بھی وہی چیز اپنانے کو جی کرتا ہے جو سکرین پر نظر آتی ہے۔ میں ساری زندگی یہی سمجھتا رہا کہ شوہر کو نام کے علاوہ منے کے ابا‘ گھر والا‘ یا Husband کہہ کرپکارا جاتا ہے لیکن کل ایک ایسا نام سننے کو ملا کہ روح تازہ ہوگئی۔ ہمارے علاقے میں گھروں کا کچرا اٹھانے والے میاں بیوی ہیں جو ایک ریڑھی پر ہر دروازے کے سامنے رکتے ہیں‘ کچرا لے کر اپنی ریڑھی پر ڈالتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کافی عرصے سے یہ دونوں اکٹھے ہی کام کرتے ہیں لیکن دو تین دن سے صرف خاتون ریڑھی چلاتی نظر آرہی تھیں۔ کل میں نے پوچھ ہی لیا کہ خیر تو ہے آپ اکیلے کام کر رہی ہیں۔ آہ بھر کر بولی ’’ہاں۔۔۔وہ میرے Hubby کی طبیعت ٹھیک نہیں‘‘۔۔۔یہ سنتے ہی پہلے تو مجھے نیم گرم غش پڑا‘ پھرتھوڑا سنبھل کر پوچھ ہی لیا کہ Hubby کس کو کہتے ہیں؟ خاتون لاپرواہی سے بولیں’’جیرے کو‘‘۔
میڈیا کی بدولت اب خواتین کو بھی خاوندوں کے روایتی جملوں کے بڑے شاندار جواب دینا آگئے ہیں۔بعض اوقات یہ جواب ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ضرور کسی نے پٹی پڑھائی ہے۔میرے محلے دار شیخ نذیر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ صبح سویرے خاصی پریشانی کے عالم میں پارک کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جاگنگ شروع کی تو شیخ صاحب پر نظر پڑتے ہی ر ک گیا۔ عموماً شیخ صاحب پریشان ہوتے نہیں کرتے ہیں لیکن اُس روز وہ خود کچھ الجھے الجھے سے نظر آئے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد بتانے لگے کہ ان کی بیوی کو کوئی عقل سکھا رہا ہے۔ پہلے تو یہ جملہ سن کر مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ اہلیہ کی تعریف کر رہے ہیں یا شک ؟ پھر پوچھ ہی لیا کہ قبلہ کچھ تفصیل تو بتائیے؟ انہوں نے دُکھی دل کے ساتھ بتایا کہُ ان کی ان پڑھ بیوی ایسے ایسے ڈائیلاگ بولنے لگتی ہے کہ لگتا ہے انعام رانا سے ٹیویشن پڑھتی ہے۔ میں نے چونک کر پوچھا’’یہ انعام رانا صاحب کون ہیں؟‘‘۔ آہ بھر کر بولے’’ہے ایک ملک و ملت کا دشمن‘ کم بخت سوشل میڈیا پر ایسی کاٹ دار تحریر لکھتاہے کہ بے بسوں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ خواتین کے حقوق کے لیے کمر بستہ بلکہ ’قلم بستہ‘ رہتا ہے۔‘‘ میں نے قہقہہ لگایا’’شیخ صاحب! میری معلومات کے مطابق تو آپ کی اہلیہ کو انٹرنیٹ استعمال کرنا آتاہے نہ ان کے پاس اینڈرائڈ فون ہے‘‘۔ شیخ صاحب نے ڈبل آہ بھری’’ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔میں تو صرف مثال دے رہا تھا ‘ لیکن کچھ بھی ہوکوئی تو ہے جو اسے بیوی کی بجائے شوہر بنانے پر تلا ہوا ہے‘‘۔ شیخ صاحب نے تفصیل بتائی تو پتا چلا کہ پہلے جب ان کی اپنی اہلیہ سے لڑائی ہوتی تھی تو وہ اسے کہتے تھے کہ ’’جاؤ اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ‘‘ اور اہلیہ سہم جاتی تھی۔ تاہم پچھلے دنوں جب شیخ صاحب نے اسے یہ جملہ کہا تو آگے سے آواز آئی’’ عورت جب خود ماں بن جائے تو پھر اپنی ماں کے گھر جاتی اچھی نہیں لگتی۔۔۔ماں کی مجھے نہیں تمہیں زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دفعہ جب شیخ صاحب نے اسے غصے سے کہا کہ ’’اگر تم نے اپنی زبان بند نہ کی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا‘‘ تو چار جماعتیں پاس اہلیہ خم ٹھونک کر سامنے کھڑی ہوگئی اورگرج کر بولی’’طلاق تمہارا حق ہے ہتھیار نہیں‘ تم اپنا حق گھر میں استعمال کرو ‘ میں عدالت میں نمٹوں گی۔۔۔‘‘
شیخ صاحب بری طرح سٹپٹائے پھرتے ہیں۔ پہلے تو کافی عرصے تک انہیں سمجھ ہی نہ آئی کہ اہلیہ یہ بمباسٹک قسم کے ڈائیلاگ کہاں سے حاصل کر رہی ہے‘ پھر ایک ہفتہ تحقیق کی تو پتا چلا کہ ٹی وی ڈراموں نے اہلیہ کو ’گمراہ‘ کیا ہے۔ایک دن انہوں نے آزمائشی طور پر اہلیہ کی نظروں سے بچتے ہوئے صوفے کے پیچھے چھپ کر پورا ڈرامہ دیکھا اور اگلے دن کھانا کھاتے ہوئے بولے’’شکیلہ! سالن میں نمک زیادہ ہے چکھ تو لیا کرو‘‘۔ کچن سے غراہٹ بلند ہوئی’’زندگی میں مرچیں بھری ہوں تو کھانے میں نمک کسے محسوس ہوتاہے۔‘‘ شیخ صاحب کی دبی دبی چیخ نکل گئی۔ یہ وہی ڈائیلاگ تھا جو رات ڈرامے میں بولا گیا تھا۔مزید کنفرمیشن کے لیے انہوں نے کچھ سوچا اورچلائے’’کھانا نہیں بنانا آتا تو بتا دیا کرو میں باہر سے ہی کھا آیا کروں‘‘۔ جواب خاصا ادبی قسم کا موصول ہوا’’مرد ہوناں! باہر سے کھا سکتے ہو‘ میں تو اپنے وجود کی کرچیاں سمیٹتے سمیٹتے ایسی بستی میں نکل آئی ہوں جہاں رزق کے ذائقے کا شعور ہی نہیں رہا‘‘۔ یہ سنتے ہی شیخ صاحب نے سینے پر دوہتھڑ مارے اور ’’ہائے اوئے میریا رباّ‘‘ کہتے ہوئے فرش پر گرگئے۔
پہلے تو شیخ صاحب نے کوشش کی کہ کیبل اتروا دیں لیکن ناکامی ہوئی کیونکہ محلے میں کیبل کا نیٹ ورک ان کے سالے کی ملکیت تھا۔ پھر سوچا ’خطرناک چینلز‘ آؤٹ کردیتے ہیں لیکن یہاں بھی نامرادی ہوئی کیونکہ اگلے ہی دن بیگم نے ٹی وی کی سیٹنگ آن کرکے ’آٹو‘ کا بٹن دبایا اور سارے چینل پورے طمطراق سے دوبارہ نمودار ہوگئے۔بے چینی حد سے بڑھی تو انہوں نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں۔ کبھی ریموٹ کے سیل نکال دیتے‘ کبھی چھت پر جاکر کیبل کے ’’Splitter ‘ میں ایلفی ڈال آتے-ایک دفعہ تو حد ہی کردی‘ مٹی کا تیل اور ماچس لے کر سالے کی دوکان کو آگ لگانے نکل پڑے لیکن شکر ہے اسی دوران ان کی مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے انہیں بمشکل اس حرکت سے روکا اور سمجھایا کہ بات بگڑ گئی تو آپ سیدھے جیل جائیں گے۔ اپنے بال نوچتے ہوئے بولے’’تو پھر کیا کروں؟ وہ کم بخت ایسا ایسا جواب دیتی ہے کہ دیوار میں ٹکریں مارنے کو جی چاہتا ہے‘ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے کہا کہ ہر وقت ڈرامے دیکھنے سے آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں تو آگے سے بولی۔۔۔جب آنکھوں سے نیند اور سپنے روٹھ جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا دیکھا جارہا ہے ‘ جو میں دیکھتی ہوں وہ نہیں دیکھتی اور جو نہیں دیکھتی وہ مجھے دل کے نہاں خانوں سے دکھائی دینے لگتاہے‘‘۔
’’آپ نیوز چینل لگا لیا کریں تاکہ وہ ڈرامے نہ دیکھ سکے‘‘ میں نے تجویز دی۔ وہ روپڑے’’یہ بھی کرکے دیکھ لیا ہے لیکن ڈرامے تین تین دفعہ repeat ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔ صبح میں دفتر جاتا ہوں تو واپسی پر وہ رات کے تمام بچے کھچے ڈرامے حفظ کر چکی ہوتی ہے۔‘‘
شیخ صاحب کی اس پریشانی کو ایک ماہ سے زیادہ گذر گیا تھا۔ دو ہفتوں سے ان سے ملاقات بھی نہیں ہوئی ۔ کل اچانک وہ دوکان سے کچھ سامان خریدتے ہوئے نظر آئے ۔ دعا سلام کے بعد حیرت انگیز اطلاع ملی کہ شیخ صاحب اپنی اہلیہ کی ڈراموں والی ڈائیلاگ بازی سے چھٹکارا پاچکے ہیں۔ میں گنگ رہ گیا۔ انہوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا۔ میں نے بے چینی سے پوچھا’’طلاق تو نہیں دے دی؟‘‘۔ انہوں نے نفی میں سرہلایا۔میں نے جلدی سے کہا’’تو پھریہ انقلاب کیسے آیا؟‘‘۔ شیخ صاحب ایک دم سے رک گئے۔۔۔کچھ دیر میری آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔اورپھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھمبیر آواز میں بولے’’ انقلاب بذات خود کوئی چیز نہیں‘ انسان باطنی وجود سے آشنا ہوجائے تو بعض اوقات اندر کا آتش فشاں نئے رستے تلاش لیتا ہے جو ذات کی اتھاہ گہرائیوں تک جا پہنچتے ہیں ‘ معلوم سے نامعلوم تک کے اس سفر میں کایا کلپ نہ بھی ہو پھر بھی مناظر کی ترتیب بہرحال بدل جاتی ہے اور۔۔۔!!!‘‘
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“