کھرا سونا
" جی وہ لمبی ناک والے آئے تھے"
" اچھا! جامع آئے تھے"
یہ مکالمہ میرے اور چچا کے درمیان ہورہا تھا۔ دادی نے انہیں بتایا کہ ان کے دوست آئے تھے۔ دادی دوست کا نام نہیں جانتی تھیں۔ نام میں بھی نہیں جانتا تھا۔ لیکن ان کی لمبی سی ناک کی بدولت انہیں ' لمبی ناک والا' کہتا تھا۔
چچا کے ان دوست کا نام ' جامع الحسن موہانی" تھا۔ چچا نے بتایا کہ یہ مولانا حسرت موہانی کے نواسے ہیں۔
اب یہ حسرت موہانی کون ہیں۔ اس پر کبھی سوچنے کا کشٹ ہی نہیں کیا۔ میں تب چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔چچا اور ان کے دوست جو کالج میں پڑھتے تھے، ان کی گفتگو میں جگر مرادآبادی، جوش ملیح آبادی، ماہر القادری جیسے نام سنائی دیتے۔ بہار کالونی، ناظم آباد، لالوکھیت، جہانگیر روڈ، پی آئی بی کالونی وغیرہ میں ان ناموں کے لوگ عام رہتے تھے۔ یہ حسرت موہانی بھی یہیں کہیں رہتے ہوں گے۔
اور جب میں خود نویں دسویں پہنچا تو میر و غالب، درد، سودا، جگر، اصغر گونڈوی، یاس یگانہ چنگیزی، نادر کاکو روی کے ساتھ حسرت کو بھی کورس کی کتابوں میں پڑھا اور امتحان کے لئے رٹّے لگا تا تھا۔
نام سید فضل الحسنُ حسرت تخلص، چار اکتوبر اٹھارہ سو اٹھتّر کو یوپی کے ضلع اناؤ کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے!!
نام سید فضل الحسن حسرت تخلص، چار اکتوبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں رئیس المتغزلین کہا جاتا ہے، ان کی شاعری میں ۔۔۔۔۔۔۔
میں یہ سب کچھ رٹتا لیکن کہیں ذرہ برابر یہ جاننے کی خواہش نہ تھی کہ رئیس المتغزلین کیا ہوتا ہے اور حسرت اور دوسرے شاعروں میں کیا فرق ہے۔
اور اسی دوران کہیں ان کی تصویر پر نظر پڑی۔ عجیب جھاڑ جھنکار سی داڑھی، پچکی سی ٹوپی، حکیموں جیسی لیکن ٹوٹی کمانی کی عینک، کھدر کی آچکن ۔۔۔ ایک غیر متاثر کن تصویر ،بھلا کون اس پر توجہ دیتا۔
پھر ایک دن ریڈیو پر سن رہا تھا، " چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ..گانا اچھا لگ رہا تھا ۔ اور جب یہ بول سنے وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے، اور وہ تیرا دانتوں میں انگلی دبانا یاد ہے،،،،تو یوں لگا کوئی ہم لونڈوں کی عشق کی گلی کوچوں ، چھت کی منڈیروں پر پلنے والی عشق کی وارداتیں بیان کررہا ے۔
۔گانا ختم ہوا اور اناؤنسر نے بتانا شروع کیا، ابھی آپ غلام علی کی آواز میں حسرت موہانی کی غزل سن رہے تھے، موسیقی ترتیب دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسرت،۔ حسرت موہانی، وہی جھاڑجھنکار سی داڑھی والے؟؟؟ اور یہ نوخیز عشق کی داستان۔۔۔ کچھ سمجھ نہ آیا لیکن یہ سمجھ آگیا کہ یہ بوڑھے عمر رسیدہ سے شاعر نوجوان دلوں کی کیفیت بھی کس کمال سے بیان کرتے ہیں۔ پہلی بار ان شاعروں کو انگریزی ترکیب کے مطابق ' سنجیدگی سے لیا۔
اب یہ بھی سمجھ میں آتا گیا کہ رئیس المتغزلین کیا ہوتا ہے اور حسرت کس درجے کے شاعر تھے۔۔۔یعنی جوش ، جگر، اصغر، یگانہ وغیرہ جیسے تھے لیکن غزل میں انہیں سب سے اونچا درجہ حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔
پھر یاد نہیں کہ کہاں پڑھا کہ حسرت ہندوستان میں ہی رہ گئے اور پاکستان نہیں آئے تاکہ وہاں ہندوستان کے مسلمانوں کی دیکھ بھال اور رہنمائی کرسکیں۔
پتہ چلا کہ وہ صرف شاعر ہی نہیں بہت بڑے سیاسی رہنما بھی ہیں۔
کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کس جماعت سے وابستہ تھے۔۔۔کہیں ان کا نام مجلس خلافت کے ساتھ سنائی دیتا۔ کبھی ان کا کوئی واقعہ پڑھنے میں آتا کہ کانگریس کے جلسوں میں انہوں نے کیا کہا۔ پھر کہیں یہ پڑھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت حسرت موہانی نے کی۔ پاکستان میں سوشلزم کا غلغلہ اٹھا تو اشتراکیت اور کمیونسٹ پارٹی وغیرہ کی اصطلاحات سننے میں آئیں۔ یہ بھی جانا کہ کمیونسٹ پارٹی کے باںی اراکین میں حسرت موہانی بھی شامل تھے۔ مجلس احرار کے ساتھ بھی ان کا نام جڑا ہوا تھا۔
لیکن جو تھوڑا بہت حسرت اور انکی سیاست کے بارے میں سنا اور پڑھا تو ایک بات ذہن میں روز روشن کی طرح صاف ہوگئی کہ حسرت ذرا وکھرے قسم کے سیاستدان تھے۔ برصغیر کی سیاست کے بڑے نام یعنی گاندھی، جناح، نہرو، نشتر، پٹیل، مولانا آزاد وغیرہ کے بارے میں خط تقسیم کے دونوں جانب متضاد رائے ہیں۔ جو لکیر کے اس طرف ہیرو ہے وہ دوسری جانب ولین نظر آتا ہے۔ اور پھر یہ کہ بہت سے رہنما، ذہانت، فطانت، سیاست، سیادت اور قیادت میں تو یکتا ہیں لیکن ذاتی زندگی کی کہانیاں کچھ اور ہیں۔ کسی کو اپنی ذہانت کا اس قدر زعم ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے فیصلے کیا کرتے، تو کوئی تکبر کا شکار نظر آتا، تو کسی کی عام زندگی کے واقعات اس قدر قابل رشک نہ ہوتے یا یہاں کے مروجہ، اخلاقی، سماجی اور مذہبی اقدار سے لگّا نہ کھاتے۔
لیکن حسرت کی سیاست اور ان کی ذاتی زندگی ہر طرح کی آلودگی سے پاک، شیشے کی طرح شفاف اور سونے جیسی کھری تھی۔ سیاست جیسی کوئلے کی دلالی میں حسرت کے ہاتھ نہ صرف صاف اور اجلے رہے بلکہ نہ دامن پہ کوئی دھبہ نہ دل پر کوئی داغ ندامت ۔ یہ مقام انہیں میسر آتا ہے جن کے دل ریا سے اور غرض سے خالی ہوتے ہیں۔
تعلیمی میدان میں انتہائی شاندار ریکارڈ رکھنے والے فضل الحسن کے لئے مال وزر کمانا اور شاندار زندگی گذارنا کیا مشکل تھا لیکن انہوں نے اپنی ضروریات کو بہت ہی محدود رکھا۔ ابو ذر غفاری کے مثل انہوں نہ دنیاوی اسباب کو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی۔تھوڑا بہت اگر کمایا تو اسے گنوانا یا سو طریقوں سے۔
طبیعت کا ایسا بھی غنی کوئی ہوگا کہ کسی مشاعرے کے بعد پندرہ روپے معاوضہ ملا تو بارہ روپے یہ کہہ کر واپس کردئے کہ یہاں سے میرے شہر کا ریل کا کرایہ صرف تین روپے ہے۔
اور یہ بھی تھا کہ انگریز کے باغی کو سرکاری نوکری تو کیا ملتی، غیرسرکاری ادارے بھی ایسے شخص کو ملازمت دے کر کیوں کرمصیبت مول لیتے۔
سیاست اور شاعری دونوں یکسوئی اور توجہ چاہتے ہیں۔ انسان پھر انہی کا ہوکے رہ جاتا ہے لیکن حسرت نہ صرف ایک با شرع بلکہ باعمل مسلمان تھے۔ یہ درویشی اسی دینداری کی بدولت تھی۔ واقعی ان کی طبیعت طرفہ تماشہ تھی کہ بقول مختار مسعود حسرت کی ذات کی تقسیم یوں ہوئی کہ دماغ سیاست کو ملا، دل شاعری کو بخشا گیا اور پیشانی عبادت کے لئے وقف ہوگئی۔
کئی بار حج کئے، مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو خط لکھا کہ انہیں چشتیہ سلسلے کی بیعت کی اجازت دی جائے، مزاروں اور درگاہوں پر حاضری دیتے اور سماع کا شوق رکھتے، لیکن شرع کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ عبادت وریاضت کی یہ کیفیت تھی کہ اذان کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے مسجد جاتے۔ کسی نے ٹوکا کہ اس طرح دوڑنا مناسب نہیں ہے تو جواب دیا کہ اگر تمہارا مالک تمہیں پکارے تو کیا تم فوراً اس کی طرف دوڑ نہ پڑوگے۔
یہ درویش صفت اور صوفی منش شخص لیکن استعمار سے بغاوت میں کوئی مصلحت روا نہیں رکھتا تھا۔ انگریز کی غلامی انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی۔
یوپی کے کسی شہر میں شب برات کے موقع پر مجسٹریٹ نے آتش بازی پر پابندی کا حکم نافذ کیا۔ مولانا کو خبر ہوئی اور گوکہ وہ خود ان خرافات کو برا سمجھتے تھے، لیکن پٹاخے اور پھلجڑیاں لے کر مجسٹریٹ کے دفتر کر سامنے پہنچے کہ یہ کون ہوتا ہے ہمارے دینی معاملات میں مداخلت کرنے والا۔۔ میں نے کہا ناں کہ وکھرے قسم کے سیاستدان تھے۔
اور سب سے پہلے معاشی انصاف کا نعرہ بھی حسرت نے ہی بلند کیا، برصغیر کی سیاست جس پر راجے مہاراجوں، نوابوں اور اشرافیہ کا راج تھا وہاں یہ ایک اجنبی آواز تھی۔
اور جب گاندھی اور جناح آزادی کے نعرے سے بہت دور تھے، یہ پیکر حرّیت ، حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے کامل آزادی کا نعرہ لگایا۔
بھلا ایسے اکل کھرے اور منہ زور کو کون سی حکومت برداشت کرتی اور پھر حسرت کے ساتھ وہی ہوا جو ایسی باغی فطرت کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی آئے دن کی زندگی قیدوبند میں گزرنے لگی۔ جو مصیبتیں اور مشقتیں حسرت نے جھیلیں، اگر طبقہ اشرافیہ کے سیاستدان ایک دن کے لئے بھی جھیلتے تو دوسرے دن ہی سیاست سے ہاتھ دھو لیتے۔
ذرا تصور کریں علیگڑھ کے امتحانوں میں اوّل آنے والا، رئیس المتغزلین کا لقب پانے والا ، پولیس کی لاری میں جانوروں کی طرح اٹھا کر پھینکا جارہا ہے۔ جیل میں صرف ایک جانگیہ اور کرتا اور اور ٹاٹ میسر ہے، عینک کی کمانی ٹوٹی ہوئی ہے، روزانہ ایک من گندم پیسنے کا حکم ملتا ہے اور بے مزہ ہوئے بغیر کہتے ہیں
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
اور جیسے سخت جان وہ خود ، بیوی ان سے بڑھ کر استقامت پسند۔ حسرت جیل جاتے ہیں تو وہ بجائے رونے پیٹنے کے، انہیں خط لکھتی ہیں کہ تم پر جو مصیبت پڑے اسے مردانہ وار برداشت کرنا اور میرا یا گھر والوں کا مطلق خیال نہ لانا۔
یہ وہی بیوی کہہ سکتی ہے جس کا ساتھی استقامت اور عزیمت کا کوہ گراں ہو۔ ورنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ سیاستدان کے جیل جاتے ہی اس کی بیوی یا بیٹی دنیا بھر میں دہائی مچا دیتی ہیں حالانکہ لیڈر صاحب جیل میں گھر جیسے آرام کے ساتھ مزے کررہے ہوتے ہیں یا بیماری کے بہانے پنج ستارہ اسپتال میں پڑے اینڈ رہے ہوتے ہیں۔
حسرت کی درویشی اور ریاضت کی بات کی جائے تو سیاست کہیں چھپ جاتی ہے، ان کی سیاست پر بات کی جائے تو شاعر ی ایک جانب رہ جاتی ہے۔
اس قدر اکھڑ، اور درویش صفت لیکن شاعری میں جو سادگی ، برجستگی، رنگیں بیانی، ندرت، لطافت اور شیرینی ہے وہ بہت کم کو نصیب ہوتی ہے۔ عام طور پر شاعر کسی خاص دبستاں سے منسلک ہوتے ہیں یعنی لکھنوی یا دہلوی، لیکن حسرت کے ہاں لکھنو کی رنگینی خیال اور دلی کی سادگی پر کاری دونوں کمال کے درجے پر نظر آتی ہیں کہ وہ تسلیم لکھنوی اور نسیم دہلوی کے شاگرد تھے۔
حسرت نے شاعری کو درباراور بازار حسن سے نکال کر ہمارے گلی کوچوں اور محلوں میں لا کھڑا کیا۔ جہاں چلمنوں کی اوٹ اور چھتوں اور چوباروں پر دل کے معاملات طے ہوتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجودعشق ومحبت کی تمام تر لطافت ان کے ایک ایک شعر میں رچی اور بسی ہوئی ہے۔
ذرا یہ اشعار دیکھیں
حسن بے پرواہ کو خود بین و خود آرا کردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا
نہ بھولے گا وہ وقت رخصت کسی کا
مجھے مڑ کے پھر اک نظر دیکھ لینا
اور یہ تو لگتا ہے کہ ہماری اپنی کوئی پرانی کیفیت بیان کردی
بزم اغیار میں ہر چند وہ بیگانہ رہے
ہاتھ آہستہ مرا پھر بھی دبا کر چھوڑا
جب عاشقی کے زمانوں کی بات ہو تو محبوب کی جسمانی خوبیاں بھی تو نظر آئیں گی۔
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
اور دلوں کے معاملات میں بدگمانیاں تو ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہوجائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائیے۔
اس قدر نرم خو، لطیف اور رنگین شاعری کرنے والے کی خود کی زندگی ہر طرح کی لطافت سے عاری تھی۔ ساری زندگی شدید مشکلات اور مصائب سہے لیکن ثابت قدم رہے۔ یہاں تک عزیز از جان رفیقہ حیات کی موت پر بھی خود کو تسلی دیتے رہے۔
غیر ممکن ہے تیرے بعد ہوس
دل کسی اور سے لگانے کی
ان کے بعد اب وہ کیا ہوئی حسرت
دلفریبی تیرے فسانے کی
حسن وعشق کی کیفیات بیان کرنے والا سچا شاعر، اپنی رائے میں شدید، اپنے موقف پر اٹل ، راہ اختیار کی تو ہمیشہ خطرے کی راہ اپنانے والا رہنما، اور ریاضت وعبادت میں ابو ذر غفاری کی مثال، جب دنیا سے جانے لگا تو فکرمند اعزہ کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات ہورہی ہے کیا؟
میں سمجھتا تھا کہ نفس مطمئنہ کے مالک صرف انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہی ہوتے ہونگے۔ لیکن حسرت جیسی درویشانہ، بے غرض ، بے ریا زندگی دیکھ کر لگتا ہے کہ ایسوں کو بھی کچھ نہ کچھ حصہ نفس مطمئنہ کا ضرور میسر آتا ہوگا۔
اور ایسے ہی لوگوں کو مالک حقیقی یہ کہہ کر خوش آمدید کہتا ہوگا کہ آؤ میرے خاص بندوں میں شامل ہوجاؤ اور میری جنت میں چلے آؤ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔