جد و جہد آزادی کی تاریخ میں ۷؍ جون ۱۸۵۷ءکو خاص اہمیت حاصل ہے۔اسی دن مولوی لیاقت علی نے الہ آباد کا انگریزوں کی حکومت سے آزادی کا اعلان کیا ۔شہر کوتوالی پر بادشاہ کا جھنڈا لہرایا گیا۔ انھوں نے خسرو باغ کو اپنا مرکز بنایا اور فرمان جاری کیا ؎
’ملک بادشاہ کا حکم لیاقت علی کا‘
دس دن تک انھوں نے الہ آباد کو (۶؍جون تا ۱۶؍جون )انگریزوں کے چنگل سے چھڑائے رکھا تھا۔۷؍ جون سے قبل اور اس کے بعد الہ آباد اور اس کے گرد ونواح میں حالات نے پل پل کروٹیں بدلیں۔ ہندوستانی عوام پرانگریزوں کے مظالم حد سے زیادہ بڑھ چکے تھے۔عوام میں پوری طرح بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔میرٹھ میں بغاوت کا بگل بج چکا تھا اور اسی کی چنگاری نے الہ آباد میں آگ لگا دی اور مولوی لیاقت علی کی شکل میں ایک شعلہ بھڑکا جس نے تاریخ رقم کر دی۔
مغلوں کے زمانے سے ہی الہ آباد کے جغرافیائی محل وقوع کی بڑی اہمیت رہی۔ اس کی وجہ اس کا دو آبہ میں واقع ہونا ہے ۔ دو بڑے دریا یہاں سے ہو کر بہتے ہیں جو ہر دور میں ذریعہ آمد و رفت ہونے کے ساتھ تجارت اور فوجی نگہداشت میں بھی بہت مددگار ثابت ہوئے۔مغلوں نے یہیں سے پورے شمالی ہندوستان پر نگاہ رکھی۔جس کے دو خاص پہلو تھے ۔ایک تو دہلی سے یہاں پہنچنا زیادہ مشکل نہیں تھا دوسرے یہاں سے ہوتے ہوئے بنگال کا راستہ جاتا تھا۔اکبر جیسے دور اندیش بادشاہ نے گنگا کنارے قلعہ تعمیر کروایا اور اپنی فوجیں یہاں رکھیں۔انگریزوں نے بھی اس قلعے کو اسی مقصد سے استعمال کیا اور ۱۸۵۷ءکی الہ آباد کی تاریخ اسی قلعے کے ارد گرد گھومتی ہے۔
جنگ آزادی ایک ملک گیر عوامی تحریک تھی۔بلا تفریق مذہب و ملت بوڑھے بچے جوان مرد عورت سب کے سب آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے۔ان جاں نثاروں میں علماء کرام کی تعداد بھی بعید از قیاس رہی۔انگریز سب سے زیادہ خائف بھی اسی جماعت سے تھے جس نے وطن عزیز کی آزادی کی خاطر پھانسی کا پھندا گوارا کیا مگر دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔انھیں علماء دین کی جماعت سے ایک نام مولوی لیاقت علی کا ابھراجو انگریزوں کے لئے خطرے کے نشان سے کہیں زیادہ اوپر پہنچ گیا۔
مولوی لیاقت علی الہ آباد کے پرگنہ چائل کے مہگائوں میں ایک کاشتکار خاندان میںپیدا ہوئے۔آپ کی تاریخ پیدائش صحیح معلوم نہیں۔آپ کے والد کا نام مہر علی اور والدہ کا نام آمنہ بی تھا۔ آپ کے چچا دائم علی کمپنی کی فوج میں جھانسی میں تعینات تھے۔ انھیں دیکھ کر کچھ وقت کے لئے لیاقت علی بھی فوج میں بھرتی ہو گئے۔وہاں جا کر انھوں نے دیکھا کہ انگریز ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کر رہے تھے۔انھوں نے اس کی مزاحمت کی اور دیسی سپاہیوں کی ذہن سازی کرنے لگے ۔ان کی حکومت مخالف سرگرمیاں انگریزوں کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکیں۔نتیجتاً انھیں نوکری سے بر طرف کر دیا گیا۔آپ اپنے گائوں واپس آگئے۔واپسی میں آپ دہلی ٹونک اور بھوپال ہوتے ہوئے لوٹے۔ٹونک میں آپ کی ملاقات سید احمد شہید سے ہوئی جو اس وقت انگریزوں کے خلاف گورلا وار چلا رہے تھے۔مولوی لیاقت علی سید احمد شہید سے بہت متأ ثر ہوئے اور وہیں ان کے ذہن میں انگریزوں پر مسلح حملے کا خیال پیدا ہوا۔اپنے گائوں لوٹ کر انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا جس میں وہ بچوں کو تعلیم دینے لگے۔ اس کے ساتھ ہی آپ جگہ جگہ تقریریں کرتے ، خطبے دیتے اور مقامی کاشتکاروں کو اپنی مہم سے جوڑتے رہے۔مضافات میں جا کر وہ لوگوں کو انگریزوں کے مظالم ، انگریزی فوج میں شامل اپنے ہموطنوں کی بے عزتی اور ساتھ میں ان ہندوستانیوں کے قصے سناتے جو خوشامدی اور چاپلوس تھے اور انگریزوں کی زبان بولتے تھے۔چونکہ وہ ایک عمدہ خطیب تھے اس لئے ان کی تقریر کسانوں ، چھوٹے تعلقہ داروں زمینداروں اور عوام پر اثر ڈالنے لگی۔ آپ کی مقبولیت الہ آباد مرزاپور پرتاپ گڑھ کانپور اودھ روہیل کھنڈ وغیرہ میں بڑی تیزی سے بڑھی اور آپ کو اس علاقے کے باشندے اپنا ہیرو تصور کرنے لگے۔ آپ سپاہی رام چندر کے ذریعے دارا گنج میں الہ آباد کے پنڈوں سے رابطے میں آئے ساتھ ہی کیڈ گنج کے پراگ وال اور بینی گنج کے ہموطنوں سے بھی آپ نے گفتگو کی۔دوسری طرف آپ رانی منڈی، نوادہ ، شادی آباد، دریا باد، بیلی و دیگر علاقے کے مسلمانوں سے بھی ملاقات کر رہے تھے۔اسی اثناء مئی کے مہینے میں میرٹھ سے بغاوت کی خبریں آنے لگیں جس سے انگریز حکام متزلزل ہو گئے۔۱۰ ؍ مئی کو میرٹھ کا واقعہ اور ۱۲؍ مئی کو انقلابیوں کے دپلی پہنچ جانے کی خبر لگتے ہی انگریزی حکام نے الہ آباد میں نگرانی بڑھا دی ۔انھوں نے الہ آباد قلعے کو محفوظ سمجھتے ہوئے خود کو اس کے اندرپناہ گزین کیا اور قلعے کی فصیلوں پر توپیں نصب کر دیں۔قلعے کے اندر انگریزی فوج کے اسلحے کا بڑا ذخیرہ موجود تھاجس کی حفاظت کے لئے انھوں نے بنگال کی چھٹی انفنٹری ریجیمنٹ لگا رکھی تھی۔یہ فیروز پور ریجیمنٹ کا حصہ تھی جس میں کچھ سکھ ٹکڑیاں بھی شامل تھیں۔باقی کی فوج کانپور روڈ چھائونی میں موجود تھی جس میں عموماً اتّر پردیش مدھیہ پردیش بہار وغیرہ کے کسان خاندان کے سپاہی شامل تھے۔ مولوی لیاقت علی ابھی تک عام لوگوں کو جن میں کسان اور چھوٹے زمیندار شامل تھے انھیں جنگ کی ٹریننگ دے رہے تھے۔ ۵؍جون کو انھوں نے آٹھ میواتی مسلمانوں کے گائوں کے سرداروں کی ایک میٹنگ موضع صمد آباد میں سیف خان کے گھر پر بلائی۔یہی جگہ آج کا کمپنی باغ اور چندر شیکھر آزاد کی شہادت گاہ ہے۔اسی دن سب نے مولوی لیاقت علی کا اس مہم میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا سوائے سیف علی کے جن کے گھر یہ میٹنگ بلائی گئی تھی۔لیاقت علی جب میٹنگ کر رہے تھے تو مستقل قلعے کے اندر اور باہر تعینات فوجیوں سے رابطے میں تھے۔ا نگریزوں نے خطرے کو بھانپ کر قلعے کی حفاظت مزید بڑھا دی۔ بنگال کی چھٹی ریجیمنٹ کی دو کمپنی اور ایک سو پچاس کیولری لیفٹیننٹ الیگزینڈر کی نگرانی میں الوپی باغ اور دارا گنج میں تعینات کی گئیں تاکہ مخالفین گنگا پل نہ پار کر سکیں۔ ۶؍ جون کی رات میں دیسی سپاہیوں نے جو دارا گنج گنگا پل کی نگرانی کے لئے بھیجے گئے تھے، انھوں نے سپاہی رام چندر کی رہنمائی میں باغیوں کا ساتھ دیتے ہوئے کمپنی کے خلاف بغاوت کر دی۔ سپاہیوں کے لئے قلعے سے حکم جاری ہوا کہ وہ اپنے اسلحے جمع کر دیں مگر جوشیلے سپاہیوں نے کمپنی کا حکم ماننے سے انکار کر دیااور اپنی بندوقوں کے ساتھ وہ کینٹونمنٹ کی جانب بڑھتے رہے۔ان لوگوں نے انتظامیہ کی عمارتوں پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی سرکاری خزانے کے تیس لاکھ روپئے لوٹ لئے۔ اس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی۔ مولوی لیاقت علی کی اس انتظامی صلاحیت اور عوام میں ان کی مقبولیت کو انگریز مورخین نظر انداز نہیں کر سکے اور انھوں نے لکھا لیاقت علی ۔۔
A man of considerable influence and authority
باغیوں کے تیور دیکھ کر لیفٹیننٹ ہارورڈ جو اس بٹالین کا انچارج تھا وہ الیگزینڈر کی مدد کرنے الوپی باغ پہنچا۔اس نے ہندوستانی سپاہیوں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا۔ دیسی سپاہی تب بھی مضبوطی سے ٖڈٹے رہے اور غم و غصے کے عالم میں انھوں نے الیگزینڈرجو گولی چلا رہا تھا اس کو قتل کر دیا۔لفٹیننٹ ہارورڈ کسی طرح جان بچا کر بھاگا اور قلعے میں پناہ لی۔ یہ رات نو بج کر بیس منٹ کا واقعہ تھا۔ دس بجتے بجتے دیسی سپاہیوں نے تمام انگریزوں کو جو یہاں پر موجود تھے ابدی نیند سلادیا اور خزانہ لوٹ لیا۔اگلی صبح رام چندر کی مدد سے تین ہزار قیدی رہا کرا لئے گئے۔۷؍ جون کو مولوی لیاقت علی نے الہ آباد کی آزادی کا اعلان کیااور خسرو باغ کو اپنا مرکز قرار دیا۔دو دن سے چلی آرہی افرا تفری کو دور کرنے کے لئے انھوں نے اپنے سپاہیوںکے ساتھ مارچ کیا ۔ تمام انقلابیوںنے تقریریں کیں۔کوتوالی پر بادشاہ کا جھنڈا لہرایا گیا۔۸؍جون کو بہادر شاہ ظفر نے ایک فرمان جاری کر مولوی لیاقت علی کو الہ آباد کا گورنر بنا دیا۔یہ فرمان سالار جنگ میوزیم حیدر آباد میں موجود ہے۔اسی دن مولوی لیاقت علی نے ایک کونسل ترتیب دے کر شہر کی انتظامیہ تشکیل دی۔شیخ نعمت اشرف کو شہر کوتوال اور سکھ رائے کو تحصیلدار بنایا ۔ہر قوم کے لوگوں کو ملاکر ممبر منتخب ہوئے اور اس جد و جہد کو آگے لے جانے کے منصوبے بنے۔ اسی دن بھرواری ریلوے اسٹیشن پر انقلابیوں کا قبضہ ہو گیا ۔ اس وقت الہ آباد تک ریلوے لائن نہیں تھی۔اب انگریز ریل کے ذریعے الہ آباد تک کمک پہنچانے سے قاصر تھے۔ریلوے کا اسٹاف بھی انقلابیوں کے ساتھ آ گیا۔لیاقت علی کو ہر طرف سے تعاون مل رہا تھا۔شہر کا ہر فرد، دو آبہ کے کسان ، چھوٹے زمیندار جو گنگا جمنا کے اطراف میں تھے اور دور دراز کے ، سب لیاقت علی کے ساتھ ہولئے مگر راجے مہا راجے جیسے راجہ مانڈہ، راجہ کرچھنا ، راجہ داہیہ بارا وغیرہ نے انگریزوں کا ساتھ دیاجو بعد میں انگریزوں کے انعام کے حقدار بنے۔ کمان سنبھالتے ہی لیاقت علی نے اپنا موقف واضح کر دیا۔۔’ملک بادشاہ کا حکم لیاقت علی کا‘۔ یہی ان کا mottoتھا۔ان کے فرمان کی تفصیل سے عیاں ہے کہ وہ ایک ذہین اور سمجھدار جنرل تھے۔ انھوں نے اینگلو انڈین کو نہ مارنے کا حکم جاری کیا اور دوکانداروںسے بنا پیسہ دئے سامان لینے پر روک لگائی۔۱۰؍ جون تک مولوی لیاقت اور ان کے لوگوں نے قلعے پر تقریباً قبضہ کر لیا ہوتا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ قلعے کے اندر موجود لگ بھگ ۴۰۰؍ سکھ ریجیمنٹ کے سپاہیوں کا تعاون حاصل کر لیں گے مگر سکھوں نے آخر تک انگریزوں سے وفاداری نبھائی۔اس دن اگر سکھوں نے مولوی لیاقت علی کا ساتھ دیا ہوتا تو شاید آج ہندوستان کی تاریخ دوسری ہوتی ۔الہ آباد دوآبہ کا اہم مقام تھا۔اس دن اگر یہ انگریزوں کے ہاتھ سے نکل جاتا تو شمالی ہند میں ان کی دوبارہ بالا دستی قائم ہونا مشکل تھی۔لارڈ کیننگ نے انقلابیوں سے نپٹنے کے لئے کرنل گارداں کو مامورکیا۔۱۱؍ جون کو بے رحم کرنل نیل کانپور سے گنگا کے دوسرے کنارے ہوتے ہوئے الہ آباد آ پہنچا۔ یہاں پہنچتے ہی اس نے کمان سنبھالی اور انقلابیوں سے نبرد آزما ہوا۔سخت مقابلے کے بعد حریت پسندوں کی شکست ہوئی اور۱۲؍ جون کو دارا گنج ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔۱۴؍ جون کو ایک اور مقابلہ ہوا جس میں انگریزوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ایک بار پھر وہ قلعہ بند ہو گئے۔اس کامیابی سے انقلابیوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔مگر ۱۶؍ جون کو کرنل نیل کی مدد کو دوسری کمک آ پہنچی۔ پھر کیا تھا خار کھائے نیل نے خسرو باغ پر پو ری طاقت جھونک دی۔انقلابیوں اور انگریزوں کے بیچ شدید جنگ ہوئی اور اس مرتبہ فتح انگریزوں کے ہاتھ لگی۔ اس کے بعد انگریزوں نے باغیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔نہ فقط شہر بلکہ دریا باد، شادی آباد اور رسولپور کے مسلمانوں پر خوب قہر برپا کیا۔ قلعے کے مغربی کنارے پر واقع مسجد کو شہید کر اسے فوجی بیرک میں تبدیل کر دیا۔نا جانے کتنے گائوں کے باسی جو اس مہم میں شریک تھے ، موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔اس دوران انگریز حکومت کے وفادار ان کی برابر مدد کر رہے تھے تو دوسری طرف دیسی ہتھیار سے لیس مجاہدین کی تعداد گھٹتی جا رہی تھی۔۱۶؍ جون کو نیل نے الہ آباد کے قرب و جوار پر اپنی کارگذاریاں تیز کر دیں۔ مولوی لیاقت علی نے نیل کے ظلم و جور کی تفصیل سے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو آگاہ کیااس کے بعد انھوں نے اپنی فوجوں کو پھر سے تیار کرنے کی کوشش کی مگر وہ برطانوی فوج کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ اس ناکامی کے بعد مولانا موقعہ کی نزاکت دیکھتے ہوئے اپنے ۳۰۰؍ وفادار ساتھیوں کے ساتھ الہ آباد کو خیر باد کہہ کانپور کی جانب نکل گئے۔ شہر پر اب کمپنی کا پوری طرح غلبہ ہو گیا۔ مولانا نے ہمت نہیں ہاری۔وہ اب بھی اپنا حلیہ بدل کر لوگوں کو انگریزوں کے خلاف منظم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔کمپنی نے آپ کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار روپئے کے انعاام کا اعلان کیا۔اس اعلان کے اشتہارات جگہ جگہ چسپاں کر دئے گئے تاکہ کسی طرح آپ گرفتار ہوں۔اس اعلان کی کاپی اسٹیٹ آرکائیوز، پریاگ راج میں محفوظ ہے۔ آپ مختلف مقامات پر چھپ چھپ کر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔اس طرح چودہ برس کا عرصہ بیت گیااور آپ انگریزوں کی گرفت سے آزاد رہے۔ بالآخر ایک جاسوس کی مخبری پر آپ ۱۸۷۲ءمیں بمبئی سے ایک انگریز افسر اسٹیل کے ہاتھوں گرفتار کر لئے گئے اور الہ آباد کی اے آر پولاک سشن جج کی کورٹ میں پیش کئے گئے۔اس وقت آپ کی عمر ۴۵؍سال دکھائی گئی ہے۔ آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔شنوائی کے دوران جج نے کہا کہ مولوی صاحب ایک نیک انسان اور عالم دین ہیں ۔اگر وہ اپنے کئے پر افسوس کر لیں اور سیاست سے کنارہ کش ہونے کا وعدہ کر لیں پھر پہلے کی طرح گائوں جا کر بچوں کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہو جائیں تو انھیں معافی دی جا سکتی ہے مگر خود دار مولوی لیاقت کو یہ منظور نہ ہوا۔آپ نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور علی الاعلان یہ قبول کیا کہ انھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی سربراہی کی ہے اور انھیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔انگریز جج نے۲۴؍ جولائی کو آپ کو حبس دوام بہ عبور دریا کی سزا سنائی اور آپ کو انڈمان و نکوبار بھیج دیا گیاجہاں ۱۷؍ مئی ۱۸۹۲ءکو آپ نے زندگی کی آخری سانس لی۔انا للہ وانا الیہ راجعون
اسٹیٹ آرکائیوز ، پریاگ راج میں محفوظ دستاویز میں الہ آباد کے شہیدان آزادی کا ریکارڈ بھی موجود ہے جسے پڑھے جانے کی اشد ضرورت ہے۔اس فائل کاایک چھوٹا سا نمونہ پیش ہے۔
نقشہ باغیان کہ جنھیں ایام غدر میں بغاوت کی سزا ملی
۰۰نمبر
۰۰نام باغی بقید قومیت و سکونت میر سلامت علی قوم سید ساکن نورنگ آباد ضلع بنارس
۰۰قسم عہدہ منصف شہر الہ آباد
۰۰مفصل حال گرفتاری یعنی کہ فلانی معرفت معہ ہتھیار یا بلا ہتھیار گرفتار ہوا ۱۷؍ جون کورٹ صاحب بہادر معہ فوج بعد بلوہ کی شہر میں تشریف لائی اور مدعا علیہ کو گرفتار کر لے گئے و مدعا علیہ کچھ ہتھیار نہیں لائے ، انتہا
۰۰تاریخ سزا معہ نام ۲۴؍جون ۱۸۵۷ء
۰۰قسم سزا پھانسی
دوسرا نمونہ دیکھیں ؎
۰۰نمبر
۰۰نام باغی بقید قومیت و سکونت لعل خان میواتی ساکن رسولپور
۰۰مفصل حال گرفتاریمعرفت معہ ہتھیار یا بلا ہتھیار گرفتار ہوا معرفت برقندازان کوتوالی گرفتار آئے ہتھیار کی نسبت کچھ حال
مسل میں مندرج نہیں ہے
۰۰تاریخ سزا معہ نام حاکم ۸؍جولائی ۱۸۵۷ءمایور صاحب اسپیشل کمشنر
۰۰قسم سزا پھانسی پائی
اسی طرح یہاں نواب گنج ، سرائے عاقل وغیرہ کی فائلیں موجود ہیں جن میں کسانوں کے فوجداری کے مقدمے درج ہیںاور ان پر سنگین دفعہ لگائی گئی ہیں۔ ان دستاویز کو پڑھنے سے بے شمار حقائق سامنے آئیں گے اور تاریخ کا حصہ بنیں گے۔’ آزادی کا امرت مہوتسو ‘ نے در اصل شہیدان آزادی پر بغور سوچنے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم مولوی لیاقت علی کے ساتھ دیگر جاں نثاروں کی تفصیل جاننے کی کوشش کریں اور آئندہ نسل کے لئے کچھ سرمایہ چھوڑ کر جائیں۔یہی ان شہیدوں کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...