خر
تاریخ کتابوں میں جہاں سلطنت غوری اور مغلوں کے ابتدائی خروج کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں ایسے بہت سے نام ایسے آئے ہیں جن کے شروع میں خر آتا ہے ۔ مثلاً خرمیل ، خرنک ،خر زرد ، خرچم ، خر پوست وغیرہ وغیرہ ۔ یہ غوری خاندان کی اہم جنگی شخصیتیں اور ادارے تھے ۔ ابن اثیر نے غوریوں کے زمانے کے واقعات میں ابن خر میل کا بار بار نام لیا ہے کہ وہ بہت دنوں تک ہرات کا حکمران رہا تھا ۔ ابن اثیر نے سپہ سالار خروش اور خرنک کے نام بھی لکھے ہیں ۔ جو سلطان شہاب الدین کے معاصر تھے ۔ راوڑٹی نے بھی ان ناموں کے رنگ و آہنگ کی وحدت پر توجہ کی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ غور کے ملوک و مشاہیر کے کثر ناموں میں خر ہوتا تھا ، جیسے خرچمِ خرنک یا خرنگ ، خر زور ، خرپوست وغیرہ اور اکثر مشہور لوگوں کے ناموں کے نام میں شامل ہے ۔ پشتونوں کے بعض لوگوں اور قوموں کے ناموں میں یہ کلمہ آیا ہے ، مثلاً خرشبون اور خروٹی ۔
قدیم آریائی قوموں کی خصوصیت تھی وہ اپنا انتساب کسی خاص جانور سے کرتے تھے ۔ یہ ان جانوروں کی پوجا کے علاوہ اسے اپنا جد امجد بھی تصور کرتے تھے ۔ ان جانوروں میں گوسفند (بھیڑ) سانپ یا ناگ ، مور ، ہنومان (بندر) گنیش (ہاتھی) ، مرغ ، ورک (بھیڑیا) ، کورم (کچھوا) مگر (مگر مچھ) گاؤ (گائے) اسپ ، اشو اور اسپ (گھوڑا) ، خر (گدھا) وغیرہ شامل ہیں ۔ اس مطالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حیوانات میں مثلاً گائے (گاؤ) ، گھوڑا (اسپ) ، خر (گدھا) کی طرف یہ انتساب برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور انسانی ناموں میں یہ کلمات شامل ہوتے تھے ۔ لیکن شیوع اسلام کے بعد یہ رواج ختم ہوگیا ۔
خر اوستا میں بھی گدھے کے معنوں میں آیا ہے ، جب کہ ہند آریائی میں یہ کلمہ ’کھر‘ آیا ہے اور یہ کھر کے علاوہ دوسری شکلوں میں قوموں یا قبیلوں کے ناموں میں استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً کھر ، کھرل ، کھکر ، کھوکر ، کہیریا کھوریا وغیرہ ۔ اسی طرح برصغیر کی قبیلوں کے ناموں میں استعمال ہونے وجہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا احترام کیا جاتا تھا مگر بعد سیتلا دیوی (چیچک کی دیوی) کی سواری کی وجہ سے اس سے اجتناب کیا جانے لگا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔