خانقاہیں
بدھ مذہب کا آغاز ترک دنیا سے ہوا تھا ۔ اس لیے بدھ مت کی بانی گوتم نے ابتدا میں اپنے پیروکاروں کے لیے راہبوں کی ایک انجمن بنائی گئی جو سنگھ کے نام سے موسوم تھی ۔ جس کے اراکین کو بھکشو کہا جاتا تھا اور تمام بھکشو سنگھ کے تمام ممبر سمجھے جاتے تھے ۔ جو کہ ترک دنیا کرکے ریاضت میں مصروف رہتے تھے ۔ مگر جلد ہی گوتم نے محسوس کرلیا کہ ہر شخص تارک الدنیا نہیں ہوسکتاہے اور مذہب کو محض راہبوں تک محدود درست نہیں ہے ۔ لہذا اپنے پیروکاروں کو دو حصوں ، راہبوں اور دنیا داروں میں تقسیم کردیا ۔ بھکشوؤں کے لئے اہم شرائط و احکام وضع کئے گئے ۔ ان بھکشوؤں کی رہائش کے لیے باغ اور وہار تعمیر کیئے گئے ۔ ابتدا میں ان سنگھوں میں کوئی عہدہ دار نہیں ہوتا تھا ۔ مگر وقت ساتھ ان میں عہدے دار ابھرنے لگے اور ان کا سربراہ مذہبی پیشوا بن گیا ۔
جیسے جیسے بدھ مت میں ترقی ہوتی گئی بدھ مت کی خانقاہوں میں ترقی ہوتی گئی ۔ ان خانقاہون کو دھار کہتے تھے اور اسلام کی آمد سے پہلے برصغیر اور وسط ایشاء میں کثرت سے دھار موجود تھے اور فاہیان اور ہیونگ سیانگ نے ان دھاروں کا ذکر کیا ہے ۔ فاہیان نے ایک جگہ لکھا ہے گھڑیال کی آواز سن کر تین ہزار بھکشو کھانے کے لیے جمع ہوجاتے تھے اور طعام خانے میں یہ خاموشی و سنجیدیگی سے ترتیب سے بیٹھ جاتے تھے ۔ یہ خادموں کو نہ آواز دیتے تھے بلکہ ہاتھوں کے اشاروں سے یہ بلاتے تھے ۔
ٍٍٍ کسی شخص کے لیے ضروری نہیں تھا وہ ساری عمر بھکشو بنا رہے ، کچھ عرصہ کے لیے بھکشو بنا جاتا تھا اور اس دوران خانقاہوں میں رہا جاتا تھا ۔ خود اشوک بھی کچھ عرصہ کے لیے بھکشو بن گیا تھا اور یہ رواج اب بھی ہے ۔ جہاں بھی بدھ مت نے قدم جمائے وہاں خانقاہیں قائم ہیں اور بہت سے لوگ کچھ عرصہ کے لیے ان خانقاہوں میں بھکشو بن کر رہتے ہیں ۔
استوپ خاص گوتم کے مدفن کی علامت تھی گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے استوپ بنانا تھا اور عموماً ہر استوپ کے ساتھ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے دھار (خانقاء) اور ان کے اجتماع کے لیے ایک چیتا (عبادت گاہ) بنوائی جاتی تھی ۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو استوپوں کا ہوتا تھا ۔ یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں ۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کے لیے لان رکھا گیا تھا ۔ تقریبا یہیں صورت خانقاہوں کی تھی ۔ یہ خانقاہیں چاہیں عیسائیوں کی ہوں یا مسلمانوں کی ہو ۔
ابتدائی عیسائی پیروکار یا حواریوں نے عیسیٰ کی پیروی میں مجرد زندگی گزارتے تھے اور تبلیغ دین کے لیے جگہ جگہ پھرتے تھے ۔ مگر ان میں مرکزیت یا خانقاہی نظام قائم نہیں تھا ۔ جلد ہی سات کلسیا کو مرکزیت یا اہمیت حاصل ہوگئی تھی اور ان کلیساؤں میں راہبوں اور دوسرے عیسائیوں کے لیے قیام کی جگہ ہوتی تھی ۔ مگر پھر بھی ان میں عہداروں کا تقرر نہیں ہوتا تھا اور سب برابر ہوتے تھے ۔ مگر وسط ایشاء میں عیسائی فرقوں نے اپنی سرگرمیاں ایران اور اس سے آگے وسط ایشاء تک بڑھائیں تو ان کا سامنا بدھ دھاروں سے ہوا ۔ جہاں بدھوں کی خانقاہیں تنظیمیں بنیادوں پر قائم تھیں ۔ اس سے عیسائی فرقوں نے بھی اپنے فرقوں کی تنظیم قائم کیں اور ان میں مذہبی عہدے قائم کئے گئے اور کے اصول و ضابطہ قائم کئے گئے ۔ قسطنطنیہ میں جب رومی شہنشاہ کانسٹائین عیسائی مذہب قبول کیا اور رومی سلطنت کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوگیا ۔ روم میں بھی عیسائیوں کو مذہبی آزادی ملی تو انہوں نے بھی اپنی مذہبی تنظیم قائم کی اور وہاں خانقاہی نظام کو منظم کیا ۔ کانسٹائین نے بھی مذہبی تنظم قائم کی اور خود اس کا سربراہ بن گیا ۔ روم کی عیسائی تنظیم نے شہنشاہ کانسٹائین کے دعویٰ کو مسترد کردیا اور عیسائی مذہب کی دینوی سربراہی کا دعویٰ کیا اور اس کے جواز میں انہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ یہاں سینٹ پطرس کا چرچ ہے اور یہاں وہ شہید ہوئے تھے ۔ رومی کلیسا کی خانقائی تنظم کا سربراہ ہونے کی وجہ سے پوپ یعنی باپ اور اس حثیت سے وہ شہنشاہ سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اگرچہ شہنشاہ کانسٹائین نے پوپ کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا اور یہ یونانی کلسیا کہلاتا ہے اور آج کل اس کا مرکز ماسکو ہے ۔ شہنشاہ کانسٹائین رومی کلسیا کے خلاف کچھ نہیں کرسکا ۔ کیوں کہ ہنوں کے حملوں کی وجہ سے روم قسطنطنیہ کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے نکل گیا اور جلد ہی ہنوں نے رومن پوپ کے ہاتھوں عیسائیت قبول کرلی ۔ جس سے پوپ کی طاقت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور یورپ میں پوپ زیر دست خانقاہی نظام کی بنیادیں مظبوط ہوگئیں ۔ جس میں وقت کے ساتھ ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ صلیبی جنگوں نے اس نظام کو مزید مظبوط کیا ۔ مگر اس کے بعد خانقاہی نظام میں ذوال آنا شروع ہوگیا ۔ تاہم یورپ میں خانقاہی نظام قائم رہا اور اس کی تنظیم میں بدھ مت کی طرح عہداروں کا تقرر ہوتا ۔ بدھ مت سے عیسایت کا خانقاہی نظام کچھ مختلف اس لیے ہے کہ بدھ مت میں عورتوں کی راہب یا بھکشو بنے کی ممانیت ہے ، مگر عیسایت میں کنواری مریم کے نام کنواری لڑکیاں نن یا راہبہ نتی تھیں ۔ مگر خانقاہیں علحیدہ ہوتی تھیں لیکن مردوں کے زیر اثر ہوتی ہیں ۔ عیسائیوں کی خانقاہوں کے ساتھ چرچ اور اس میں ان بزرگوں کے مقبرہ یا اس کے تبرکات ہوتے تھے ۔
عیسائیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی خانقاء کا تصور بدھوں کی خانقاہوں سے آیا ہے ۔ وسط ایشاء کے صوفیوں کئی مقبرے ماضی کے بدھ اسٹوپوں پر واقع ہیں ۔ بخارا کے قریب شیخ شہاب الدین سہرودی مدفون ہیں یہ بھی پہلے بدھ خانقاء اور اسٹوپہ تھا اور بدھ زائرین کا مرکز کہلاتا تھا ۔ بعد میں یہاں شیخ شہاب الدین کے مدفن کی بدلدولت اس کا نام قیصر عرفان ہوگیا ۔ شیخ شہاب الدین سہرودی نے سب سے پہلے خانقاہی زندگی کے بارے میں مفصل قواعد مرتب کیئے اور انہوں نے اہل صفہ کے ساتھ اہل خانقاہ کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے ہی خانقاہ اور صوفیائے کرام کے بارے میں باتفصل لکھا ہے ۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے شیخ شہاب الدین کی کتاب عوارف کے بارے میں لکھا ہے کہ تیرویں صدی میں جب سلاسل کی تنظیم شروع ہوئی تو سہروردیہ کے علاوہ دیگر سلسلوں نے بھی اس کتاب کو اپنا لیا ۔ عوارف المارف کی یہ خوبی ہے کہ اس میں تصوف کے بنیادی اعتقادات ، خانقاہوں کی ننظیم ، مرید و شیوخ کے تعلقات اور دیگر مسائل پر نہایت وضاحت سے کتاب و سنت کی روشنی میں بحث کی گئی ہے ۔ اس کتاب میں ایک طرف تو تصوف کا پورا فلسفہ مدون کیا گیا اور دوسری طرف خانقاہی نظام سے بحث کی گئی ہے ۔
پیر و مرشد اس تنظیم کا مرکز ہوتا تھا اور وہ وراثتاً جانشینی پاتا تھا ۔ پہلی صورت میں خلیفہ اور دوسری صورت میں سجادہ نشین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ ۔ اس کا فرض ہوتا تھا کہ وہ مریدوں کی روحانی تربیت کرے اور اس سلسلے کی تعلیمات لوگوں تک پہنچائے ۔ ان اشغال کو جاری و ساری رکھے اور نئے مریدوں کو داخل کرے ۔ پیرو و مرشد خالنقاہ میں سکونت رکھتا تھا ۔ فقیروں کی ایک جماعت بھی یہاں رہاہش پزیر ہوتی تھی ۔ بالعوم یہ خانقاہیں سلسلے کے بانی بزرگ کے مزار کے پاس تعمیر کی جاتی تھیں ہا مزار سے ملحق ہوتی تھیں ۔ ہندوستانی صوفیوں کی خصوصیت تھی کہ انہیں نے تشریح و وضاھت کے لیے ہندو مذہب کی دیومالائی اقوال سے تعلیمات اخذ کیں ۔ اس طرح صوفیا میں بدھ مت کا فلسفہ ترک دنیا ، مرتاضیت اور جنگلوں کی سیر و سیاحت صوفیا میں نظر آتے ہیں ۔ صوفیا نے بدھ مت اور ہندو مت سے بہت سے تصورات اخذ کئے ہیں ۔ ان میں فنا ، معرفت ، مراقبہ ، حبس دم ، تصور شیخ وغیرہ نروان ، بدلنے اور بنے ، دھیان ، پرانام کی شکلیں ہیں جو کہ ہندو و بدھ مت میں رائج تھیں ۔ اس طرح ترک دنیا اور جنگلوں میں ریاضتیں اور صوفیا کے گیروے رنگ اور تسبیح کے کپڑے وغیرہ بھی ان ہی مذہبوں سے آئے ہیں ۔ مغل شہزادہ داراشکوہ نے ان کی مشابہت کے بارے میں اپنی کتاب مجمع البحرین میں لکھا ۔
بدھ اور عیسائی خانقاہوں میں خانقاہ کا سربراہ مسلمانوں کی طرح مورثی نہیں ہوتا تھا ۔ کیوں کہ ان خانقاہوں میں رہنے والوں کے لیے مجرد زندگی گزرانا ضروری تھا ۔ اس خانقاہوں میں باقیدہ عہدار ہوتے تھے اور نچلے درجے سے ترقی پاکر خانقاہ کے سربراہ بنتے تھے ۔ مگر مسلمانوں میں خانقاہوں کی اہمیت اس خانقاہ کے شیخ کے مدفن کے گرد گھومتی تھی ۔ اس میں ترقی کا یا خلافت اس کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا ۔ اس خانقاہ کی متولیت اس بزرگ کے جانشین کا حق ہوتی تھی ۔ جتنا بڑا بزرگ ہوتا تھا اس خانقاہ کو اتنے ہی زیادہ نذرانے اور زمین وغیرہ ملتی تھیں ۔ اس سے ان خانقاہوں کے سجادہ نشینوں کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور ایک بڑے جاگیردار اور مذہبی پیشوا کی صورت میں ابھرے ۔ کم از کم ہمارے ہمارے ملک میں ان کی یہی صورت حال ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔