نئی نظم کے متین شاعر فرخ یار کی اس نظم کا موضوع تو کچھ اور ہے مگر نظم کاآغاز اس نے چائے سے کیا ہے اور کیا ہی دل کو گرفت میں لے لینے والا آغاز ہے ؎
چین سے چائے کی پتیاں آگئیں
سہ پہر سج گئی
ہم کہیں درمیاں سے اٹھے
زندگی تیرے پیالے کو سیدھا کیا
اور امید سے بھرلیا
چائے سب سے پہلے اہل چین نے پینا شروع کی۔سولہویں صدی میں پرتگالی پادری اور تاجر چین آئے تو چائے سے آشنا ہوئے۔انگریزوں نے سترھویں صدی میں چائے کو اپنایا۔ چینیوں کی طرح انگریز بھی رکھ رکھائو اور اہتمام سے چائے پیتے ہیں۔ برصغیر اور سری لنکا میں چائے کی کاشت ایسٹ انڈیا کمپنی نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے شروع کی۔
چائے نوشی کا جو حشر پاکستان اور بھارت میں ہوا وہ چینیوں اور انگریزوں کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔یہاں چائے کو اس طرح پکایا جاتا ہے جیسے دال ، سبزی یا گوشت کو پکایا جاتا ہے۔ چائے کی پتی پانی میں ابالی جاتی ہے۔ پھر شکر ڈال کر مزید پکایا جاتا ہے۔ آخر میں دودھ ڈالا جاتا ہے۔ ابلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔بسا اوقات شکر اور دودھ کی مقدار چائے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔کہیں اسے کڑک چائے کا نام دیا جاتا ہے اور کہیں ٹرک ہوٹل سے منسوب کیا جاتا ہے۔ایک حلوہ نما قسم کو دودھ پتی کہا جاتا ہے جس میں ایک حصہ چائے کی پتی اور ننانوے حصے دودھ ہوتا ہے۔بھارت اس معاملے میں یعنی چائے کا حلیہ خراب کرنے میں پاکستان سے بھی کئی ہاتھ آگے ہے۔وہاں چائے کو باقاعدہ جو شاندے کی شکل دے دی گئی ہے۔اسے مصالحہ چائے کہتے ہیں۔ بیچاری غریب الدیار چائے میں لونگ، الائچی، دار چینی اور کبھی کبھی اجوائن بھی ملاتے ہیں۔ بس چائے کی کیتلی میں آٹا اور گوشت یا دال ڈالنے کی کسر رہ جاتی ہے۔
یہی حال ہمارے ہاں جمہوریت کا ہوا ہے۔جمہوریت درآمد تو ہم نے کرلی لیکن اس کے بعد اس کی وہ حالت کی کہ اب وہ پہچانی نہیں جارہی ۔ہم نے جمہوریت کو بھی کڑک جمہوریت یا ٹرک ہوٹل والی جمہوریت کرکے رکھ دیا۔صدارتی انتخاب ہی کو لے لیجیے۔میڈیا میں گریہ وزاری ہورہی ہے کہ یہ ممنون حسین کہاں سے درمیان میں آگئے۔پارٹی کے لیے قربانیاں تو غوث علی شاہ ،سردار مہتاب عباسی اور جھگڑا صاحب نے دی تھیں۔لیکن یہ سب کیوں ہوا۔اس کا سبب جاننے کی اور جان جائیں تو بتانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔
ہماری سیاسی جماعتیں خاندانی جاگیریں ہیں جو بدترین آمریت کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔ان سیاسی پارٹیوں کو جس انداز میں ’’چلایا ‘‘ جارہا ہے، وہ مافیا سے کم نہیں۔مہذب دنیا میں سیاسی پارٹیوں کو ایک لیڈر یا ایک خاندان کی جاگیر نہیں بننے دیا جاتا۔ ان کے اندر انتخابات ہوتے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات کا مطالعہ کرلیجیے۔
2008ء میں صدارتی الیکشن کے لیے امیدوار نامزد کرنے سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں ، ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے۔بارک اوباما نے فروری 2007ء میں یعنی صدارتی انتخابات سے تقریباً پونے دو سال پہلے اپنی پارٹی کے اندر اعلان کیا کہ وہ صدارتی امیدوار بننے کے لیے مقابلہ کریں گے۔ ہلیری کلنٹن اس سے بھی ایک ماہ پہلے اعلان کرچکی تھی۔ایک اور ڈیموکریٹک سیاستدان جان ایڈورڈ‘ دسمبر 2006ء میں میدان میں اتر چکا تھا۔تمام امیدواروں نے پارٹی کے اندر اپنی اپنی انتخابی مہم چلائی۔ایک ایک ریاست میں زبردست مقابلہ ہوا۔آخر کار اگست 2008ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے بارک اوباما کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ نومبر 2008ء میں اوباما ری پبلکن امیدوار کو شکست دے کر امریکہ کا صدر بن گیا۔
آپ کا کیا خیال ہے اگر مسلم لیگ نون کے اندر انتخابات کی بنیاد پر صدارتی امیدوار چنا جاتا تو ممنون حسین یا رفیق تارڑ جیسی شخصیات کامیاب ہوجاتیں؟ کیا ممنون حسین یا رفیق تارڑ، راجہ ظفر الحق، اقبال جھگڑا، سید غوث علی شاہ ، سردار مہتاب عباسی ، چودھری نثار علی خان یا خواجہ سعد رفیق جیسے تجربہ کار ، نامور اور اچھی شہرت رکھنے والے سیاست دانوں کو پارٹی کے اندرونی انتخابات میں شکست دے دیتے؟ غالباً کبھی نہیں ، لیکن مسلم لیگ نون ، ہماری باقی سیاسی جماعتوں کی طرح ہے۔ پارٹی کا سربراہ ایک نجی ادارے کے مالک کی طرح ہے۔وہ جسے چاہے اوپر لے آئے اور جسے چاہے سٹیج سے اتر جانے کا حکم دے دے۔واحد معیار ذاتی وفاداری ہے۔ اگر سپریم کورٹ بحران کے دوران کوئی شخص بریف کیس لے کر کوئٹہ جاتا ہے تو اس کی قسمت کھُل جاتی ہے اور اگر کوئی شخص غیر ضرر رساں اور مرنجاں مرنج نظر آتا ہے تو ہما اس کے سر پر آبیٹھتا ہے۔ آج سے بیس بائیس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ایک اخبار کا نیم خواندہ مالک ایڈیٹر سے ناراض ہوگیا۔اس نے ایڈیٹر کو کرسی سے اٹھنے کا حکم دیا۔وہ اٹھا تو اس کے چپڑاسی کو حکم دیا کہ تم کرسی پر بیٹھو۔پھر اس نے ایڈیٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ تم نے دیکھا، میں مالک ہوں، جسے چاہوں کرسی پر بٹھا دوں۔ آج جب شہبازشریف کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون جمہوری روایات کی علمبردار جماعت ہے اور ممنون حسین نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور پارٹی کو ان پر فخر ہے تو ہنسی بھی آتی ہے اور اس ’’ جمہوری ‘‘ کلچر پر افسوس بھی ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ممنون حسین نے سید غوث علی شاہ اور اقبال جھگڑا سے زیادہ پارٹی کا ساتھ دیا ہے ؟ دوسری طرف حالات کی ستم ظریفی ہے کہ غوث علی شاہ اور جھگڑا صاحب جیسے لوگ پارٹی چھوڑ کرجائیں تو جائیں کہاں؟ کیا پیپلزپارٹی انہیں قبول کرلے گی اور کیا وہ اس میں ایڈجسٹ ہوپائیں گے ؟
یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے۔آصف زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین نہیں، مالک و مختار تھے۔ ان کا دل چاہا تو پہلی بار یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم کی سیٹ پر بٹھا دیا اور دوسری مرتبہ راجہ پرویز اشرف کے سرپر تاج رکھ دیا۔اعتزاز احسن ،رضا ربانی اور قمر زمان کائرہ نے چوں بھی نہیں کی۔پارٹی کا مالک چاہتا تو گیلانی اور پرویز اشرف سے بھی کم مرتبہ افراد کو وزیراعظم بنادیتا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ دودھ جلیبی بیچنے والوں کو صدارتی امیدوار بنایا جارہا ہے۔دودھ جلیبی بیچنا کوئی بری بات نہیں۔دودھ جلیبی بیچنے والے محنت کش کئی ایسے حضرات کی نسبت زیادہ دیانت دار ہیں جن کے پاس لمبی چوڑی جائیدادیں ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ دودھ جلیبی کون بیچتا ہے۔سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر صدارتی نامزدگی میرٹ کی بنیاد پر ہورہی ہے یا نہیں؟
ہماری تاریخ خاندانوں سے بھری پڑی ہے ۔تغلق خاندان، خلجی خاندان، لودھی خاندان، سوری خاندان، مغل خاندان لیکن ایک خاندان غلاماں بھی تو تھا!
http://columns.izharulhaq.net/2013_07_01_archive.html
“