ساتھ تصویروں میں کچھ اشیاء ہیں جن کی قیمت کا ٹیگ کچھ زیادہ ہے۔ پہلے ان کا تعارف، تصاویر کے ساتھ۔
1۔ متاکے مشروم- اس کی پیداوار سب سے زیادہ جاپان میں ہے جو ایک ہزار ٹن سالانہ کے قریب ہے۔ یہ جنگل میں کچھ خاص درختوں کی جڑوں کے قریب اگتا ہے اور ان درختوں کے ساتھ اس کا دو طرفہ تعلق ہے۔ اس وجہ سے اسے کاشت نہیں کیا جا سکتا بلکہ درختوں کے قریب اسے اٹھایا جاتا ہے۔ گلہری، خرگوش اور ہرن بھی اسے کھاتے ہیں۔ سال میں ایک بار اس کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ سستے مشروم دس ہزار روپیہ فی کلو مل جاتے ہیں جبکہ اچھے مشروم کی قیمت ایک لاکھ روپیہ فی کلو تک جا پہنچتی ہے۔
2۔ کوپی لوواک۔ انڈونیشیا اور فلپائن میں ملنے والی اس کافی کا طریقہ کچھ عجیب ہے۔ مشک بلاؤ کی طرح کا جانور لوواک جو مشرقی ایشیا میں پایا جاتا ہے، اس کو کافی کا پھل کھلایا جاتا ہے۔ اس کے فضلے سے کافی کے بیچ اکھٹے کیے جاتے ہیں۔ اس کافی کی قیمت تیس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی کلوگرام ہے۔ اسی طرز پر چین میں پانڈا اور تھائی لینڈ میں ہاتھی کے فضلے سے اکٹھے کئے گئے بیجوں کی کافی مہنگے داموں بکتی ہے۔
3۔ زعفران- اس کی قیمت چالیس ہزار سے دو لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہے۔ یہ خزاں میں صرف سات روز کے لئے اگتا ہے اور ہاتھ سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ ایک پھول میں چند باریک ڈنڈیاں ہوتی ہیں اور تین لاکھ پھولوں میں سے ایک کلوگرام زعفران اکٹھا ہوتا ہے۔
4۔ مُوز چیز۔ یہ سویڈن میں مُوز (جو کہ بارہ سنگھے کی طرح کا جانور ہے) اس کے دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ سفید رنگ کے اس چیز کی قیمت سوا لاکھ روپے فی کلوگرام ہے۔
5۔ چڑیا کا گھونسلہ۔ سوئفلٹ چڑیا اپنا گھونسلہ مکمل طور پر اپنے لعاب سے بناتی ہے اور یہ گھونسلہ مشرقی ایشیا میں کھایا جاتا ہے۔ اس گھونسلے کو اکٹھا کرنا جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ یہ عمودی ڈھلوانوں پر ملتا ہے۔ اس سے بنا سُوپ، ملائیشیا، چین، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ میں بکتا ہے۔ سفید گھونسلہ ڈھائی لاکھ روپے فی کلوگرام کا جب کہ سرخ گھونسلہ دس لاکھ روپے فی کلو گرام تک میں ملتا ہے۔ جعلی گھونسلے کی شناخت کے لئے ملایشیا کی سراواک یونیورسٹی نے طریقہ نکالا ہے۔
6۔ ٹرفلز۔ یہ فنگس درختوں کی جڑوں میں اُگتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی طریقے سے کاشت کی کوشش کامیات نہیں ہوئی۔ سفید ٹرفل شاہ بلوط کے درخت جبکہ سیاہ ٹرفل فندق کے درخت میں ہی اُگتی ہے۔ اسے سدھائے ہوئے کتوں کی مدد سے تلاش کیا جاتا ہے۔ ڈھائی لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ روپے فی کلوگرام قیمت ہے۔ بڑی فنگس کی نیلامی میں شائقین اسے خریدتے ہیں۔ دسمبر 2014 میں ایک پونے دو کلوگرام کی فنگس تائیوان سے تعلق رکھنے والے خریدار نے اکسٹھ ہزار ڈالر (تقریبا ستر لاکھ روپے) کا خریدا جو توقع سے بہت کم تھا۔
7۔ بلیوفِن ٹونا۔ یہ بڑی مچھلی جاپان میں سوشی اور ساشیمی میں استعمال ہوتی ہے۔ سمندر سے پکڑی گئی مچھلی کے گوشت کی قیمت دس لاکھ روپے فی کلوگرام تک ہوتی ہے۔ ان مچھلیوں کی تعداد دنیا میں کم رہ گئی ہے۔ سب سے مہنگی مچھلی ٹوکیو میں نیلامی میں بکی تھی جو سات لاکھ چھتیس ہزار ڈالر (ساڑھے آٹھ کروڑ روپے) میں نیلام ہوئی۔
8۔ خاویار۔ مچھلی کی اووری سے لئے گئے انڈے روس، ایران اور آسٹریا کے بادشاہوں کی خوراک رہی۔ بحیرہ کیسپیئن سے پکڑے جانے والی بیلوگا، سٹرگن اور سنہری الماس خاویار کی قیمت سب سے زیادہ لگتی ہے۔ سستی خاویار دو لاکھ روپے فی کلوگرام میں مل جاتی ہے لیکن سنہری الماس کی خاویار کی قیمت پینتیس سے چالیس لاکھ روپے فی کلوگرام تک بھی ہے۔
یہ سب عام معلومات ہے اور کسی بھی جگہ سے دیکھی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ کہ ان کی قیمت اتنی زیادہ کیوں؟ اس کی وجہ ان کی نایابی ہے اور نایابی کی وجہ یہ کہ ان کو صنعتی سکیل پر پیدا نہیں کیا جا سکتا اور یہ اشیاء صرف قدرتی طریقے سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ غذائی ٹیکنالوجی جس کے بڑے انقلاب کا آغاز بارہ ہزار سال پہلے زراعت سے ہوا، اس سے پہلے تمام خوراک اسی طریقے سے حاصل کی جاتی تھی۔ زرعی اجناس کی فارمنگ، جانوروں کو سدھانا، ان میں مسلسل تبدیلیاںِ، زراعت کی نت نئی ٹیکنالوجیز اور خوراک حاصل کرنے، ذخیرہ کرنے اور ٹرانسپورٹ کرنے کے نئے طریقے اگر نہ ہوتے تو زمین آج کی آبادی کا انتہائی قلیل حصہ سپورٹ کر سکتی۔ یہ چند غذائی اجناس اس کی مثال ہیں کہ اگر کسی بھی چیز کی بڑے پیمانے پر پروڈکشن ممکن نہ ہو تو کتنے کم انسانوں کی ضرورت پورا کر سکتی ہے۔
زراعت کے آغاز کی کہانی پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/981510385350831/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔