کھانا ضائع کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی بھوکے کی میز سے کھانا چرا لیں۔پوپ فرانسس۔ کھانے کے ضیاع کی تاریخ دنیا کی عالمگیریت سے شروع ہوتی ہے۔ کھیت سے لیکر کھانے کی میز تک ہر سطح پر کھانے ضائع کیا جاتاہے۔ تازہ پھل، سبزیاں، گوشت اور ڈیری مصنوعات میں ضائع ہونے کا امکان دیگر اشیاء کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔ بھوک کیا ہوتی ہے؟ اگر ہمیں اس بات کی سمجھ آجائے تو ہم کھانا ضائع کرنے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ امیر امراء کھانے پینے کی اشیاء میں ذائقہ پرکھتے رہتے جبکہ غریبوں کو چھکنے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔سالانہ عالمی کھانے کا ایک تہائی حصہ جس کی مقدار1.3بلین ٹن اور تخمینہ2.6ٹرلین ڈالر لگایا گیا ہے ضائع کیا جاتا ہے۔جبکہ دوسری جانب دنیا بھر میں تقریبا1بلین افراد بھوکے رہتے ہیں۔ ضائع ہونے والا کھانا ہم دنیا بھر کے 1بلین سے زیادہ بھوکے افراد کو چار مرتبہ کھلا سکتے ہیں۔ہم صرف امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں ضائع ہونے والے کھانے سے دنیا بھر کے چار گنا بھوکے افراد کا پیٹ بھرسکتے ہیں۔ 2050تک دنیا کی آبادی میں 2.3بلین افراد کا اضافہ متوقع ہے جس کا مطلب ہے ہمیں خوراک کی پیداوار60-70%تک بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم خوراک کی قلت کو ضائع ہونے والا کھانا بچا کر پورا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں چین کے رقبے کے برابر حصے پر اگایا جانے والا کھانے کوئی بھی نہیں کھاتا بلکہ ضائع کیا جاتا ہے۔کھانے کے ضیاع سے ہم صرف کھانا ہی ضائع نہیں کرتے بلکہ دنیا کا 25%صاف پانی جو اس ضائع ہونے والے کھانے کی پیدوار میں استعمال ہوتا ہے اسے بھی ضائع کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں 50%سے زیادہ کھانا ترقی یافتہ ممالک کے گھروں میں ضائع ہوتا ہے جس کی امریکہ اور برطانیہ میں فی خاندان سالانہ مالیت2,277ڈالربنتی ہے۔ امریکہ میں ایک فرد روزانہ تقریبا1پاونڈ کھانا ضائع کرتا ہے۔ USDAکے مطابق 2017میں امریکہ میں 103ملین ٹن کھانا ضائع کیا گیا جو خوراک کی ترسیل کا30-40%بنتا ہے۔ اس لحاظ سے امریکہ دنیا بھر میں جانوں کے ضیاع کے ساتھ کھانے کے ضیاع میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔کھانے کا ضیاع ایک عالمی مسلہ بن چکا ہے۔FAOکے مطابق پھلوں اور سبزیوں کا 50% ضائع ہو جاتا ہے جس کا مطلب ہے انسانی خوراک کا ایک تہائی حصہ یعنی1.3بلین ٹن کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستانی کھانے کا 40%حصہ ضائع کر تے ہیں۔پاکستان میں سالانہ تقریبا36ملین ٹن کھانا ضائع کیا جا تا ہے۔ ضائع ہونے والا کھانا کراچی، لاہور اور حیدرآباد میں گھر سے باہر شوقیہ کھانا کھانے والوں کے کھانے کی کل مقدار کے برابر ہے جو ہم روزانہ ضائع کر تے ہیں۔ شدید موسمی حالات اور تقریبات کھانے کے ضیاع کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے کنڑی ڈائریکٹر لولا کاسترو کے مطابق پاکستان کی 43%آبادی خوراک کی قلت کے باعث عدم تحفظ کا شکار ہے جس میں سے 18% کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی Hunger Index کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ روزانہ 2.5لیٹر پانی پینے کے لیے کافی ہے جبکہ ایک فرد کے لیے ایک دن کی خوراک اگانے کے لیے3500لیٹر پانی چاہیے۔ کھانے کا ضیاع خوراک کی قلت کے علاوہ قدرتی وسائل کے ضیاع کا سبب بھی بنتا ہے۔کھانے کا ضیاع کھادوں، خوراک کی ادوایات، ایندھن، بجلی اور انسانی توانائی کا بھی ضیاع ہے۔امریکی انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق خوراک کی تیزی سے بڑھتی قلت معاشرتی تقسیم، معاشی بدحالی اور جمہوری تسلسل کے لیے نقصان کا باعث بنے گی۔خوراک کی قلت بین الاقوامی تنازعات کا سبب بن سکتی ہے۔
FAOکے مطابق ترقی یافہ اور ترقی پذیر ممالک میں خوراک کا ضیاع بلترتیب670-630ملین ٹن ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں کھانا آغاز میں ضائع ہوتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں کھانا آخری مراحل میں ضائع ہوتا ہے۔FAOکے مطابق پس ماندہ علاقوں میں فی کس کے حساب سے خواراک کی پیداوار کے لیے سالانہ 460kg جبکہ ترقی یافتہ علاقوں میں 900kgہے۔ برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق انڈیا میں ترسیلی کمپنیاں سالانہ4.4بلینGBPپھل اور سبزیاں ضائع کرتی ہیں۔صاف پانی کا تقریبا 70%زراعت کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک سیب کے لیے اوسطا125لیٹر پانی چاہیے اور ایک سیب کا ضیاع125لیٹر پانی کاضاع ہے۔FAOکی Food Print Reportکے مطابق سالانہ ضائع ہونے والے کھانے کے لیے جینواء کی جھیل جتنا پانی استعمال ہوتا ہے۔ خوراک کا ضیاع توانائی کے علاہ کابن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہم کھانے کے ضیاع کو مندرجہ ذیل طریقوں سے سے روک سکتے ہیں۔ ہم کسانوں اور خوراک سے متعلقہ افراد کوتربیت دے کر،شعبہ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کروا کرخوراک کیا ضیاع روک سکتے ہیں۔ ہم شمسی توانائی پر چلنے والے ریفرجریٹر استعمال کر کے نہ صرف کھانے کاضیاع روک سکتے بلکہ آلودگی سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ہم سر پلس کا طریقہ اختیار کر کے بھی کھانے کا ضیاع کو روک سکتے ہیں۔ہم(سر پلس) اور (وی فوڈ) جیسے منصوبے شروع کر کے خراب کھانے کو کم قیمت پر غریبوں کو فروخت کر سکتے ہیں۔ہم ہوٹلوں میں بچ جانے والے کھانے کو جمع کر کے انہیں بائیو پلاسٹک اورگھریلو بائیو گیس کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ہم فوڈ سکریپ کو استعمال کر کے گھریلو توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ہم تعلیم اور آگاہی کے زریعے کھانے کے ضیاع کو روک سکتے ہیں۔ ہم خریداروں کے کھانے سے متعلق رویے کو بد ل کر،سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ پارٹنرشب سے بچا ہوا کھانا جمع کر کے اسے غریبوں تک پہنچانے کا بندوبست کرنے کے علاوہ اسے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کر کے بھی کھانے کاضیاع روک سکتے ہیں۔ ہم Mimicaطرز کے اقدامات کے زریعے بھی کھانے کا ضیاع روک سکتے۔ہم انگلستان میں لیڈز طرز کی مارکیٹس قائم کر کے خراب کھانے کو استعمال میں لا سکتے ہیں۔ہم سڑکوں کو پختہ بنا کر، زرائع رسل و رسائل اور کھانے کو تیار کرنے اور محفوظ کرنے کے نظام کو بہتر بنا کر کھانے کے ضیاع کو کم کر سکتے۔آخری عوامل میں کھانے کے ضیاع میں خریداروں کی عادات کا بہت عمل دخل ہے۔اس لحاظ سے ہمیں خریداروں کی عادات کی تبدیلی پر خاص توجہ دینی ہو گی۔ (بائے ون گٹ ون ڈیلز)پر مکمل پابند لگانی چاہیے کیونکہ اس طرح کی سہولیات لوگوں کو کھانے ضائع کرنے کے مواقع مہیا کر تی ہیں۔ کھانے کی اشیاء پر لگی ہوئی پرچیوں کی وجہ سے بھی کھانا ضائع ہوتا ہے۔ ہمیں ان پر لگی ہوئی پرچیوں کو عام آدمی کی سمجھ بوجھ کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ یورپی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں تقریبا 10%کھانا یعنی88ملین ٹن ان پر درج تاریخوں اور ہدایات کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے.