یہ غالِباً سن دو ہزار پانچ کی بات ہے ستار نوازی میں ابھی نام کمانا شروع نہیں کیا تھا، اسلام آباد کی لمبی سنسان سڑکیں ہوا کرتی تھیں اور ذہن میں بنتی نئی نئی بندشیں اور خواب ہوا کرتے تھے ، بندشیں گنگنا لی جاتی تھیں اور خواب دیکھ کر ذہن کے کسی دریچے میں دھیان سے رکھ دیے جاتے تھے ۔۔۔سب خواب ایک جیسے ہوتے تھے ہر خواب کا انت اپنا نام بنانا ہوتا تھا ، اور کیسے نا ہوتا فنکار بس نام ہی تو چاہتا ہے ۔۔۔
دو ہزار سات میں پہلی نوکری ملی ایک فائیو سٹار ہوٹل کی، لابی میں بیٹھ ستار بجانا اور کھانے کھاتے لوگوں کو دھنیں سنانا سجاول بھی میرا تب دوست بنا ابھی وہ سجاول خان نہیں تھا ایک ہوٹل کے پروگرام میں سرسری سی ملاقات سنگت اور واپسی کا کوئی پینتیس منٹ کا سفر سجاول کی باتیں اور دوستی ۔۔۔
پھر وقت آگے بڑھا ، میرا دل ہوٹل لائن سے اکتا گیا مجھے یہ لگتا تھا کہ یہاں لوگ کھانا کھانے آتے ہیں موسیقی سننے نہیں تو میں نے قسم کھائی ستار وہاں بجانا ہے جہاں لوگ توجہ سے بیٹھ سنیں یوں ہوٹل چھوڑ دی گئی۔۔۔
کبھی کبھار اکا دکا پروگرام مل جاتے تو میری اور سجاول کی ملاقات کا سبب ہوجاتا سجاول مجھے ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح عزت دیتا اور میری بات اور مشورے نہ صرف سنتا بالکہ عمل بھی کرتا جب بھی ملاقات ہوتی وہ آگے بڑھنے کی بات کرتا اسے ہر فنکار کی طرح نام چاہیے تھا پیسے کی طرف اسکا دل مائل نہیں ہوتا تھا نام بنانا اسکا مقصد تھا پھر اس نے بہت محنت کی ہر فنکار کے ساتھ طبلہ بجایا کسی سے منہ مانگی پے منٹ نہیں لی کہ کہیں اسکا سفر نہ رک جائے ، ایک وقت آیا کہ سجاول بہت بزی ہوگیا اور ہر شام اسکی کسی فنکار کے ساتھ سنگت ہونے لگی یہ بات بہت سے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی تھی شوبز اور میوزک انڈسٹری میں حسد تو مفت میں ملتا ہے تو لوگ اسکے لیے باتیں کرتے کبھی کوئی اسکے ہاتھوں پہ تو کبھی کوئی اسکے کرتے پاجامے پہ ،
سجاول نے کسی کی ایک نا سنی اور کامیابی سے اپنا سفر طے کرتا گیا پھر چلتے چلتے دو ہزار سترہ آیا اور میں نے اور سجاول نے ماسکو میں ورلڈ یوتھ فیسٹیول میں پاکستان کی نمائندگی کی وہ پندرہ دن مجھے سجاول کے ساتھ مزید قریب کر گئے ہم صبح اور دن میں پرفارم کرتے اور شاموں اور راتوں میں ریاضت کرتے۔
وہاں مجھے احساس ہوا کہ وہ لکھ سکتا ہے تو میں نے کہا یارر تم میوزک پہ لکھا کرو جو بھی طبلہ کی ویڈیو ہو اسکے بارے میں اپنے سامعین کو بتایا کرو کہ کیا بجارہے کونسی تال ہے تو سجاول فورا تیار ہوگیا اور اس نے ایک پوسٹ لکھی اپنے موسیقی میں سفر کے بارے میں ، میں نے ایڈیٹ کردی اور اسے پوسٹ کرنے کو کہا ، اسکی خوشی دیکھنے والی تھی،
روس سے واپسی پہ وہ بہت اداس تھا میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہنے لگا پتہ نہیں یہاں دوبارہ آوں گا کہ نہیں مجھے لگتا ہے یہ میرا ملک ہے انہوں نے میری بہت قدر اور عزت کی ہے تو میں نے اسے یاد دلایا نہیں تمہارا اور میرا ملک پاکستان ہی ہے اور ہم نے وہاں رہ کر ہی کام کرنا ہے تو ہنسنے لگا اور کہا “آپ تو فورا ڈانٹنے لگتے ہیں ” خیر پاکستان واپس آگئے ، میں سکول میں بزی ہوگیا اور سجاول جو اب سجاول خان بن چکا تھا اسکے کنسرٹ ہونے لگے سولو اور بڑے گلوکاروں کےساتھ۔
اس نے ان سب لوگوں کے اپنی محنت سے منہ بند کیے جو اس پہ جملے کستے تھے ایک دن مجھے کہنے لگا کیا طبلہ بھی مسلمان یا عیسائی ہوتا ہے؟؟؟ میں نے کہا کیوں یہ کیسا سوال ہے کہنے لگا کسی نے کہا ہے طبلہ مسلمانوں کا ساز ہے ۔۔۔ میں نے کہا بھائی آئندہ کوئی ایسا سوال کرے تو کہنا طبلہ نا مسلمان کا اور نا ہندو کا ہوتا ہے طبلہ بس اسکا ہوتا ہے جو اسکی ریاضت کرتا ہے ۔۔۔۔ تو کہنے لگا یعنی طبلہ میرا ہوا کیوں کہ میں نے تو بیس بیس گھنٹے طبلہ بجایا ہے ۔۔۔ میں نے کہا ہاں بالکل طبلہ تمہارا ہوا۔۔۔یوں یہ بات آئی گئی ہوگئی ۔۔۔
کوئی ایک سال پہلے سجاول چپ سا رہنے لگا نا وہ اب پہلے کی طرح چہک کر بولتا تھا نہ کوئی سوال ۔۔۔شاید اسکا مقصد پورا ہوگیا تھا وہ اپنا نام ملک اور ملک سے باہر بنا چکا تھا اب اسکے ذہن میں کوئی اور ہی منزل تھی جسکا صرف اسے ہی پتہ تھا ،
پھر پانچ مہینے پہلے میں نے اسے فون کیا
“” سجاول ایک پروگرام ہے اور پیسے زیادہ نہیں ہیں کیا ہم وہ پروگرام کر سکتے ہیں؟؟؟
ہاں ہاں وجیہ بھائی کیوں نہیں اور آپ مجھ سے پیسوں کی بات نہ کیا کریں آپ میرے بڑے بھائی ہیں بس حکم کیا کریں۔۔۔
سجاول پروگرام پہ آیا اور اس نے مجھے اپنی نئی کار کا سرپرائز دیا میں بڑا خوش ہوا اور اسکی کامیابی مجھے اپنی کامیابی لگی اور اسے بہت دعائیں دیں۔۔۔
گفتگو کے دوران مجھے احساس ہوا کہ وہ اپنا کافی وزن کھو چکا ہے میں نے پوچھا کیا ہوا ہے سب خیر ہے ؟؟ کہتا ہے جی بس معدے میں انفیکشن ہوا ہے دوا لے رہا ہوں میں نے اسے ڈانٹا کہ اپنا خیال کیوں نہیں رکھتے اور اچھے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے تو اس نے وعدہ کیا کہ اب وہ خیال رکھے گا ۔۔۔ اسی دوران ہم نے بہت سی باتیں کیں اور یہ طے کیا کہ ایک راگ لائیو ریکارڈ کریں گے اور سجاول سنگت کرے گا ۔۔۔۔
خیر میں نے جیسے ہی راگنی کوشک دھن شروع کی سجاول کی لے کاری نے رچاؤ بنا دیا اور لوگوں نے کوئی چار گھنٹے ستار طبلہ سنا ۔۔۔
یہ میری اور سجاول خان کی آخری سنگت تھی مجھے پتہ ہوتا کہ اسکے بعد میں اپنے دوست کو کھو دوں گا تو شاید میں اسکی سنگت کو عقیدت سے اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا مگر یہ وقت کا پہیہ اپنے انداز سے گھومتا ہے۔۔۔
دو مہینے گزرے ہوں گے اچانک سجاول کا میسج دیکھا کہ سرجری ہوئی ہے پمز ہوں دعا کیجیے میں نے کال کی تو اس نے بڑی گرمجوشی سے بات کی اور کہا وہ بالکل ٹھیک ہوگیا ہے بس پریشانی کی بات نہیں ہے پھر وہ گھر واپس آگیا۔۔۔
کچھ دن بعد پتہ چلا سرجری ٹھیک نہیں ہوئی تھی اور زخم سے خون رسنا شروع ہوگیا ہے یوں ایک کے بعد ایک کرتے کرتے سجاول کی چار سرجریز ہوئیں اور ہر وقت ہنستا مسکراتا سجاول دنوں میں دیکھتے دیکھتے بکھرنا شروع ہوا۔۔۔
وہ بہت خوددار فنکار تھا اسے مدد لینا پسند نہیں تھا وہ اپنی ہر جنگ خود لڑنا چاہتا تھا مگر یہ شاید اسکی آخری جنگ تھی اور واحد جنگ تھی جس میں اسے ہارنا تھا پھر اٹھارہ اکتوبر کو عین اسی دن جس دن وہ ماسکو میں اپنی لے اور گنت کاری سے اپنا نام ایک سو اسی ممالک میں درج کروارہا تھا چار سال بعد وہی اٹھارہ اکتوبر اس سے اسکی سانسیں چھین رہی تھی ۔۔۔۔
سنہری آنکھوں میں خودداری اور محنت کی بنیاد پہ خواب دیکھنے والا سجاول اس سیارے پہ بہت سے امن کے گیتوں کی لے درست کر کے اپنے دوستوں اور محبت کرنے والوں کی دل کی تال میل کرکے دور روشنی والے سیارے کی طرف رواں دواں ہے جہاں اسے طفیل نیازی صاحب ،مہدی حسن خاں ، روی شنکر جی اور بہت سے فنکاروں کے ساتھ لے کاری کرنی ہے اور وہاں نام بنانا ہے ۔۔۔۔
کیوں کہ اس دنیا میں تو وہ تیس سالوں میں ہی نام بنا چکا اب اسکا یہاں دل نہیں لگتا تھا۔۔۔۔
خدا حافظ میرے دوست ہم سب بھی پیچھے پیچھے تمہیں سننے آرہے ہیں مگر اس بار ہم تمہیں بہت محبت اور قدر بھی دیں گے ۔۔۔
میں اس بات پہ ناراض ہوں کہ تم نے لائیو راگ ریکارڈ کرنے والا وعدہ پورا نہیں کیا اور ایسے جلدی میں گئےہو کے وعدہ توڑ گئے ہو خیر اب تو تم سے گلہ نہیں کرسکتا ناں ۔۔۔
خدا حافظ میرے دوست ۔۔۔۔۔ آنسوؤں کی لہر میں خدا حافظ۔۔۔
(وجیہ نظامی)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...