میں مودی اور شاہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے روسی شیطان راسپو ٹین کی یاد آتی ہے ۔ میں اب بھی اس کی آواز سن رہا ہوں اور وہ کہہ رہا ہے ۔مٹی کے جزائر سمندر میں مل رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور سلطنتیں تباہ ہورہی ہیں۔ کوئی ہے جس نے میرا چہرہ پہن لیا ہے۔ اور میں نے بھی کبھی کسی کا چہرہ پہنا تھا۔ اورمسلمان اسی لیے اس جزیرے میں بھیجے گئے کہ انھیں مجھے جاننا ہے۔ مقدس گناہوں نے انھیں میری طرف بھیجا ہے۔ اور ان کی قسمت میں تباہ ہونا ہے ۔ اور اس نے یہ بھی کہا ۔۔مجھے یہ بھی احساس تھا کہ بغاوت پر آمادہ بالشویک مجھے بھی ہلاک کردیں گے۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ مقدس گناہوں کا خدا میرے ساتھ ہے اور اس لیے میں نے وصیت کی اور وصیت میں نکولس زار سے خطاب کرتے ہوئے لکھوایا کہ اگر میں بھائیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتا ہوں تو آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور مجھے رئیسوں نے قتل کیا تو میرا خون دھونے میں انہیں پچیس برس لگ جائیں گے۔ اور انہیں ملک سے فرار ہونا ہوگا۔ اور میں کسی بھی طرح قتل ہوا تو میں جسم کا ایک حصہ چھوڑ جاؤں گا اور یہ حصہ مجھے زندہ رکھے گا۔ قسم خدا کی جو گناہوں کے ساتھ ہے۔۔۔۔ اور میں آنے والے برسوں میں بھی اور جب تک روئے زمین پر انسانی زندگی ہے، میں بار بار زندہ ہوکر مختلف شکلوں میں واپس آتا رہوں گا۔ عقیدہ، مشن اور مذہب کے لیے ہمیشہ طاقتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور طاقتیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ طاقتوں کا سارا زور مشن اور عقیدے پر ہوتا ہے ۔ طاقتور لوگ گالیاں سنتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ طاقتور عناصر مخالفت اور بغاوت کے بارے میں نہیں سوچتے۔ مشن عقیدہ، مذہب– نئی دنیا اسی محور پر گھوم رہی ہے اور گناہوں کی کائنات کا خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
راسپو ٹین نیا چہرہ لے کر واپس آیا ہے ۔ پہلے یہ چہرہ خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ۔ اب اس چہرے نے مشن کے لئے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے ۔ مجھے سب سے زیادہ غصّہ اس وقت آیا جب کسان تحریک میں پولیس والوں نے لنگر کھلانے سے مسلمانوں کو روک دیا ۔ میڈیا نے مسلمانوں کو لے کر سوال کیا کہ تحریک میں یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کیوں شامل ہے ۔ سکھوں کی تین کروڑ کی آبادی سے حکومت خوف کھاتی ہے اور بیس کروڑ آبادی کو ملک سے نکالنے پر بضد ہے ۔
مودی اس راز کو جان چکے ہیں کہ جب تک اکثریت ان کے ساتھ ہے ، کویی بھی ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ۔ وہ جھوٹ کی قیمت جانتے ہیں ۔ اکثریت انکے ہر جھوٹ پر خوش ہوتی ہے ۔ کچھ دانشور چلاتے ہیں ۔ سوشل ویب سائٹ پر کچھ خبریں ان کے خلاف آ جاتی ہیں مگر ایک بہت بڑا طبقہ مودی کو صرف اس لئے پسند کرتا ہے کہ مسلم مخالفت کی تاریخ میں آج وہ ایک مثال بن چکے ہیں ۔ پورا ہندوستان واقف ہے کہ پچھلے سات میں کچھ بھی نہیں ہوا ۔ حکومت کچھ کرنا بھی نہیں چاہتی مگر ہندوتو کے ووٹ بینک پر مودی کا ایسا قبضہ ہے کہ ہر طرح کے نقصانات کے باوجود مودی لہر میں کویی کمی نہیں ہے ۔مودی جانتے ہیں کہ کسان تحریک سے آگے ایک بڑی تحریک ہے ، ہندو راشٹر کی ۔ اور جب انتخاب کا موسم آئے گا ، سب ان کے ساتھ ہونگے ۔ ادانی اور امبانی کے لئے زرعی قانون لایا گیا ۔ ملک فروخت ہو چکا ہے اب کسان اور زمین کی باری ہے ۔ ملک اس وقت بھی مر رہا تھا جب تین ہزار کروڑ کی ، پٹیل کی مورتی بنایی گیی ۔ جب کورونا سے ہلاکت کا سلسلہ جاری تھا ، ہزاروں کروڑ کی رقم سے مودی پرائیویٹ جہاز خرید رہے تھے ۔ جب ہندوستان کی زمین اور کسانوں کو گروی رکھنے کی بات ہو رہی ہے ، پارلیمنٹ ہاؤس کے رہتے ہوئے ایک ہزار کروڑ کی لاگت سے نیا پارلیمنٹ ہاؤس بنانے کی بات چل رہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے منع کرنے کے باوجود نیا پارلیمنٹ ہاؤس بنانے کی تیاریاں مکمل ہیں ۔ کیا آپ نے کبھی ایسے کسی راس پوتین کے بارے میں سوچا ہے ؟
۔ایک عریاں سیاسی رقص میں عوام کے جذبات کو سیدھے حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔مجھے یاد ہے ،لوک سبھا انتخاب سے قبل یہی میڈیا تھا ، جو اڈانی کا نام کسی مجرم کے طور پر لیتا تھا ۔ اڈانی جرم اور مافیا کی علامت بن گیا تھا ۔آج کی تاریخ میں یہ نام ایک ایسے شخص کا نام ہے جو ملک کی مدد کر رہا ہے۔راشٹر وادی ہے ۔ ۔۔کاروباری اور سیاسی غنڈے ،فرقہ پرست دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ہیرو ہو گئے ۔۔ جو ہندوستان کی دولت لے کر فرار ہو گئے ، ان کے بارے میں پوچھنے والا کویی نہیں ۔معاشی سطح پر ہندوستانکھوکھلا ہو چکا ہے ۔ — ریلوے تک بک چکا ہے ۔ ایئر لائنس م ایئر پورٹ بک گئے ۔بنکوں کا دیوالیہ نکل گیا ۔ آر بی آی کا خدا ہی حافظ ہے ۔گجرات کے معصوم مسلمانوں کے قتل کو بھی ہندوستان بھول گیا -۔شاہین باغ بھول گیا ۔اب تو شاہین باغ کے نام پر ہنٹر سنایی دے رہے ہیں ۔- عوام تو سزا انتخاب میں سناتی ہے ۔لیکن مذہب اور ملک کی محبت کے نام پر عوام ایک ایسے افیم کے نشے میں ڈوبے ہیں ،جس سے باہر نکلنے کی کوششیں نظر نہیں آتیں ۔۔اب تو حکومتیں خرید لی جاتی ہیں ۔
حکومت جانتی ہے کہ نیی حکومت آیی تو سزا ملے گی ۔ یہ سزا عمر قید سے کم نہیں ہوگی ۔ میڈیا بھی حکومت تبدیل ہونے کا مطلب جانتا ہے ۔ سزا میڈیا کو بھی ملے گی ۔ پھر ایک ہی راستہ ہے ، نیی حکومت کا قیام عمل میں نہ آئے ۔ بہار انتخاب نے یہ راستہ دکھا دیا ۔ نتیش نے الیکشن کمیشن کو فون کیا ۔ بازی پلٹ گئی ۔ آئندہ بھی یہی ہوگا ۔ حکومت یہی رہے گی ۔ ۔حکومت کو مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ۔۔۔آھستہ آھستہ حکومت تمام ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔ ۔۔کیا ہندوستانی اس حقیقت کو بھول جاہیں کہ لوک سبھا انتخاب میں بھاجپا نے ، ساٹھ ہزار کروڑ کی رقم خرچ کی تھی ؟ ہم ایک ایسے دور میں آ گئے ہیں جہاں سوال کرنا گناہ ہے ۔ سوال کرنا غدار ہونا ہے ۔ سوال کرنا خود کو مصیبت میں ڈالنا ہے ۔ سفید و سیاہ کا فرق مٹ چکا ہے ۔ تھذیب نے انسانی لباس کو کنارے کر دیا ہے ۔یہ فسطائی تھذیب ہے جہاں جھوٹ پر خوش ہونا ہے ۔ ملک کو برباد ہوتے ہوئے دیکھنا ہے مگر کہنا کچھ نہیں ہے ۔ ایک ایسی شاطر حکومت ہمارے درمیان ہے جس نے بغیر اعلان کیے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دیا ۔ مسلمان کہاں ہیں ؟ کہیں ہیں بھی یا نہیں ؟ دیکھنے کے لئے دوربین یا خوردبین کی ضرورت نہیں پڑیگی ۔کیونکہ انصاف کی عمارتوں سے خفیہ ایجنسی ، پولیس سے فوج ، اور تمام بڑے شعبوں میں ، آنے والے وقت میں مسلمان کہیں نہیں ملینگے ۔ اردو کلاس میں نہیں ملیں گے ۔ ممکن ہے ،اردو کو پاکستانی زبان قرار دے کر اردو کا وجود ہی ختم کر دیا جائے ۔کشمیر سے بھی اردو چلی گئی ۔ ہم اس وقت سیاست کی بساط پر اندھے بھی ہیں ، گونگے بھی ۔بہرے بھی ۔ اور اسی لئے ہمارا خاتمہ طئے ہے ۔ ہم یہودیوں کی طرح مر کر جینے والوں میں سے نہیں ہیں ۔ہم ہتھیار ڈالنے والوں میں سے ہیں ۔ آپ کہاں تھے ؟ شاہین باغ شروع ہوا ، ختم ہو گیا ۔اب کوئی شاہین باغ نہیں ہوگا ۔ وہ وہاں آ چکے ہیں جب ہر روز ملک کے کسی نہ کسی خطے میں غریب مسلمانوں کا دھرم پریورتن ہو رہا ہے ۔کچھ ماہ قبل ایک پولیس والے نے ایک ہندو وکیل کو زخمی کیا ۔پھر کہا ، ہم سمجھے کہ کوئی مسلمان ہے ۔یعنی حکومت کی شہ ہے کہ مسلمان ہو تو مارو ۔مسلمان ہو تو قتل کر دو ۔ قتل کرتے جاؤ ۔مسلمان کچھ نہیں بولے گا ۔وہ خوف زدہ ہے ۔ڈرا ہوا ہے ۔
دیپک بتول ایک وکیل تھا ۔داڑھی تھی ۔پولیس نے زخمی کر دیا ۔ اور آزاد ہندوستان میں ، جہاں سیکولرزم اور جمہوریت کی باتیں کی جاتی ہیں ، پولیس کے عملہ نے بیان دیا کہ ہم نے مسلمان سمجھا تھا ۔ کیا یہ کوئی چھوٹا سا حادثہ ہے ؟ اس حادثے میں ١٩٢٥ کی سنگین کہانی دیکھئے ، جب آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گیی ۔ ٢٠٠٢ کا گجرات دیکھئے ۔ چھ برسوں کا ہندوستان دیکھئے ۔ پہلو خان اور اخلاق جیسوں کی ہلاکت کو یاد کیجئے ۔ڈاکٹر کفیل کے جرم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ پھر بار بار اس مکالمے کو یاد کیجئے جو پولیس نے ادا کیا ، ہم سمجھے کہ کوئی مسلمان ہے ۔۔یعنی مسلمان ہوا تو ذبح کر دو گے ؟ گولی مار دوگے ؟ اے کے ٤٧ چلاؤ گے ؟ تم جامعہ اور شاہین باغ میں بھی تھے ۔ بھاگلپور میں بھی ۔ہاشم پورا میں بھی ۔کیا تم پولیس والے مسلمانوں کی ہلاکت کے لئے بناہے گئے ہو ؟ یہ سوال کون پوچھے گا ؟ ہماری ملی تنظیمیں ؟ کون پوچھے گا ۔پولیس جو حفاظت کرتی ہے کیا اسے مسلمانوں کا خون بہانے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔۔۔ اہ ۔۔۔۔۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔۔ کون مرا ؟ ایک مردہ قوم تھی ۔۔ مر گیی ۔۔
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے ۔۔
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
اس کہانی کو یہی چھوڑتے ہیں ۔ برسوں پہلے کے کچھ منظر یاد کرتے ہیں ۔
پیارے نازی ۔۔ تم ہمیشہ سے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ تم تباہ ہو گئے ۔لوگوں کو مارنے سے پہلے نازی فوجیوں نے یہودی ذہنی مریضوں اور ان کی نرسوں کو پہلے ٹیسٹ کے طور پر ہلاک کیا۔ تین سال کے بعد ، انہوں نے ان گیس چیمبروں میں لاکھوں یہودیوں کو ہلاک کردیا۔اس کام کو انجام دینے کا کام نازی جرمنی میں نیم فوجی تنظیم ، شوالسٹل (ایس ایس) کو دیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے لوگوں نے پہلے نفسیاتی ماہروں کو اغوا کیا اور حراستی کیمپ میں رکھا۔ 1940 تک ان لوگوں نے 5،000 سے زیادہ مریضوں اور سینکڑوں پولش نرسوں کو ہلاک کردیا۔ پولینڈ پر قبضہ کے بعد ، نازیوں نے پہلے قتل عام کے لئے گیس چیمبروں کا استعمال کیا۔ 10 اکتوبر ، 1939 کو ، 19 ویں صدی کے فورٹ کولمب نے پوزنن سٹی میں پہلا حراستی کیمپ بنایا۔ اس جگہ کو نازی حکمرانی کے قیدیوں کو رکھنے کی جگہ کے بجائے منظم انداز میں نفسیاتی ماہرین کے قتل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ نازی طاقت کے خلاف جو بھی بولتا تھا اسے یہاں ختم کر دیا جاتا تھا ۔یہودیوں کو بہت پرانے گیس چیمبروں میں پھینک دیا جاتا تھا ۔
ایک دلچسپ بات اور ۔جب تمام مردوں کی موت ہوگئی ، خواتین کو بیماروں کے پاس لایا گیا اور آخر کار بچوں کی باری تھی۔ 30 نومبر تک یہاں تمام مریض ہلاک ہوگئے تھے۔ آخر کار ، اسپتال کے کارکنوں کو بھی گیس چیمبر میں لاکر ہلاک کردیا گیا۔ اس کیمپ میں آنے پر ، مریضوں کو نیچے لے جایا جاتا تھا جہاں سے انہیں کیمپ کے عقب میں دو گیس چیمبروں میں ڈال دیا جاتا تھا ۔
مجھے راسپوٹین کی یاد آتی ہے ۔اس نے کہا تھا ، عقیدہ، مشن اور مذہب کے لیے ہمیشہ طاقتوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور طاقتیں اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ طاقتوں کا سارا زور مشن اور عقیدے پر ہورہا تھا۔ طاقتور لوگ گالیاں سنتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔
ہم گالیاں دیتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں ۔
اب ہر دن اپنے خول سے باہر نکلنے کا دن ہے ۔ وہ مسلمان کہیں ، اور تنظیمیں حرکت میں آ جائیں ۔ کسانوں کی تحریک میں مسلمان دل و جان سے شامل ہوں ۔ اپنی غیرت کو سلامت رکھنے کا ایک راستہ اس تحریک سے بھی ہو کر جاتا ہے۔