برازیل سے ایک پرتگالی نسل کا شخص آرٹن سینا ڈا سلوا ۱۹۸۸ کی فارمولا ون چیمپین شپ ٹیم میکلیرن کی طرف سے بطور ڈرائیور جیتتا ہے ۔ سینا ایک بار پھر ۱۹۹۰ اور ۱۹۹۱ میں تین بار فارمولا ون جیت کر racing cars کے ڈرائیورز کا بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے ۔ ۱۹۹۴ میں سینا کا صرف ۳۴ سا کی عمر میں San Marino Grand Prix ٹیم ولیمز کی طرف سے لیڈ کرتا ہوئے کار کریش میں انتقال ہو جاتا ہے ۔ کیا خوبصورت شخص تھا ۔ کیا منور روح تھی سینا کی ۔ سینا جو اس کا فیملی نام تھا ، نے ایک ٹی وی انٹریو میں اپنی اس کامیابی والی زندگی کے پیچھے جو راز بتایا وہ میں اپنے اردو ادب کے استاد اقبال دیوان صاحب سے درخواست کروں گا کہ اردو میں اس کا ترجمہ کر دیں ۔ میں ترجموں میں بہت ماٹھا ہوں ۔ سینا نے انگریزی میں جو الفاظ بولے وہ اکثر روحانی کتابوں کے پہلے صفحہ کی زینت بنتے ہیں ۔ وہ کچھ یوں تھے ؛
“With your mind power, your determination, your instinct,and the experience as well, you can fly very high”
یہ ہے جناب وہ اصل زندگی جو میں بھی الحمد للّٰہ گزار رہا ہوں ۔ اور یہی ہے وہ زندگی گزارنے کا راز جسے لوگ نہ صرف منفرد کہتے ہیں بلکہ کبیر جافے اور اور ریتامہ ڈیوڈ سن نے ایسے لوگوں کو بڑے فخر سے Indigo Adults کہا ہے ۔ روحانی لوگ piscean age کے فورا بعد کا دور بھی اسی طرح کے indigo adults کا predict کر رہے ہیں ۔ کبیر اور ریتامہ نے اس پر ایک عدد کتاب بھی indigo adults کے نام سے لکھی ہے ضرور پڑھیں ۔ گو کہ کتاب کے بہت سارے حصوں سے مجھے شدید اختلاف ہے ۔ دراصل کبیر اور ریتامہ نے گرو رجنیش ، اوشو کے اشرام ہندوستان میں بہت وقت گزارا ۔ اوشو کا باغیانہ بیانیہ اس کتاب میں موجود ہے جو کبیر اور ریتامہ کو بے حد پسند ہے ۔ میرا بیانیہ مختلف ہے ، وہ دراصل پوپ فرانسز اور اسلامی صوفیا کرام سے ملتا جلتا ہے۔ اور وہ ہے مزاہب کے زریعے اس فیلڈ میں جانا جسے رومی نے کہا تھا ؛
“Beyond right and wrong is a field where I would wait for you “
مزاہب کو رگید نے سے مجھے سخت نفرت ہے ، ہاں البتہ میں پنڈت ، ربی ، پادری اور مولوی کی ضرور مت مارتا جہاں وہ مزہب کو بیچ رہا ہے ۔ اصل میں مزاہب یونیورسل اخلاقی اقدار کی طرف لے کر جانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ اور وہی راستہ اس فیلڈ کی طرف لے کر جاتا ہے جس کا رومی نے زکر کیا اور جسے بہ یزید بسطامی نے جلال اور منصور حلاج نے انالحق کہا اور فیض صاحب نے اسی پر تڑکا لگاتے ہوئے کہا “ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو “۔
یہ ساری تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ ثابت کروں کہ خاموشی ہی اصل تباہی اور پستی کی جڑ ہے ۔ میں نے ڈیفنی والے بلاگ میں لکھا تھا کہ مالٹا کے ہی ایک سیاستدان نے کہا تھا کہ “ قانون کی حکمرانی کا زوال اتنا بڑا گناہ اور نقصان نہیں جتنا اس کو دیکھنے اور بگھتنے کے باوجود خاموش رہنا ۔ ڈیفنی نے اسی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنی جان دے دی تھی ، میں بھی اس قربانی کے لیے تیار ہوں اور میرا بڑا بھائ اور وکیل اقبال جعفری بھی ۔
۱۹۵۵ میں امریکہ سے ہی ایک سیاہ فام خاتون کلو ڈیٹ کولوین نے اس وقت تاریخ رقم کر دی جب ایک پبلک ٹرانسپورٹ بس میں اس نے ایک گوری کے لیے سیٹ چھوڑنے سے انکار کیا ۔ کولون کو گرفتار کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا ۔ یہ واقعہ امریکی ریاست الباما کے شہر منٹگمری میں ہوا اور وہاں سے ہی ایک روزا پارک نامی خاتون نے پبلک بسوں کا بائیکاٹ شروع کیا اور سول رائٹز کی ایک اسی تحریک چلائ جس نے پورا امریکہ ہلا کے رکھ دیا ۔ اور مارٹن لُتھر پادری جو ۱۹۵۴ سے ہی ایسے معاملات میں سرگرم تھا ، بھی اس تحریک میں کُود پڑا ۔ آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں روزا پارک کی تصویریں آویزاں ہے اور اس کی تحریک کا تزکرہ ۔
جب پچھلے مہینہ کینیڈین بارڈر چیک پوسٹ پر ۸۳ سالہ گورے امریکی نے کینیڈین امیگریشن افسر کو اس بات پر چیلنج کیا کہ اس نے اس کے ساتھی سوار کا اپنے سے رشتہ اس لیے پوچھا کیونکہ وہ ایشین ہے ؟ تب بھی وہاں کہرام مچ گیا اور اب بوڈو سے کینیڈین اتھارٹیز رابطہ میں ہیں کہ ان سیکیوریٹی سوالوں سے کیسے چھٹکارا ہو جو human dignity کو بھی محفوظ رکھیں اور اسکیورٹی SOPs بھی compromise نہ ہوں ؟ میں بھی اس ضمن میں اس بحث کا حصہ ہوں ۔
یہاں امریکہ میں ہی جب پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایرپورٹ پر ننگا کیا گیا تو اس نے احتجاج کی بجائے دانت نکال کر یہ کہا کہ “اگر آپ حکم دیں تو میں امریکہ کے اسٹے کے دوران الف ننگا ہی پھروں گا “۔
ہفتہ کو بھری عدالت میں محترم اقبال جعفری نے ثاقب نثار کو مخاطب ہو کر کہا کہ دراصل فرخ عرفان کے کیس میں نزر چوہان محض فرض کفایہ ادا کر رہا ہے ۔ میں جب بھی کسی دوست سے اپنا بلاگ شئیر کرنے کا بولتا ہوں تو لکھتا ہوں کہ یہ فرض کفایہ ہو گا ۔ عنقریب میں ٹورنٹو کے ایک ٹی وی چینل اور مینہیٹن کے ایک اسٹوڈیو سے صرف فرض کفایہ ہی ادا کرنے شاید ہفتہ میں دو بار آپ سے وڈیو رابطہ پر آؤں ۔ دعا کیجئے جو اللہ تعالی کو میرے لیے بہتر ہو ۔ اس فرض کفایہ کے بارے میں مفتی قوی سے بھی آگہی لیں ۔ مفتی قوی بھی اسی طرح کا فرض کفایہ قندیل بلوچ پر ادا کر رہے تھے اور مفت میں بدنام ہو گئے ۔ اور مولانا طارق جمیل تو سینکڑوں دوشیزاؤں پر یہ فرض اردو کرتے ہیں ۔ بات مزاق میں چلی گئ لیکن اسی فرض کی ادائیگی اس وقت
ہمارے پیارے وطن پاکستان کو بچا سکتی ہے ۔
پاکستان میں کوئ ۱۲ کروڑ لوگ ۴۰ سال سے کم عمر کے ہیں ۔ ان میں سے اگر دس ہزار بھی میری طرح indigo adults ہیں تو ہم دس ہزار پاکستان میں یقیناً روحانی اور اخلاقی انقلاب لا سکتے ہیں ۔ ہمارا کوئ لیڈر نہیں ہو گا ، کوئ پیشوا نہیں ، نہ کوئ پیر اور نہ ہی گُرو ۔ ہم ساری کی ساری دس ہزار روحیں ، اپنے جیسے نیک نیتوں کو اکٹھا کر کے انشا ء اللہ کائنات میں ایک ایسا مثبت فیلڈ جنریٹ کریں گے کے اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری کائنات روشن ہو سکتی ہے ۔
خاموشی بہر کیف زہر ہلاہل ہے ۔ اس خاموشی کے پیچھے یا زاتی مفاد ہوتا ہے یا “سانوں کی” والا ڈر ۔ میں نے آج سے چالیس سال پہلے اس خاموشی کو اس وقت توڑا جب معاشرہ کے دستور کے خلاف فلسفہ میں مدہوش ہوکر معاشرہ کے اسٹیٹس کو کو چیلنج کیا اور زندگی اپنے ڈھنگ سے گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ میں اکیلا تو ضرور ہو گیا ، لیکن ہمت نہیں ہاری اور قدرت نے ایسا ہاتھ پکڑا کے اگر ہزار سال بھی سجدہ شکر میں رہوں تو وہ قرض نہیں اتر سکتا ۔ آج میرے بلاگز کو جتنی پزیرائی مل رہی ہے اور نئ نسل میں جو عزت و احترام پا رہا ہوں ، اللہ تعالی کا کڑورہا شکر ہے ۔ میں نے تو کوئ پہاڑ نہیں گرایا ، پیٹ پر پتھر نہیں باندھے ،صرف اپنے رب کو سر بسجود ہو کر یہ یہ عرض کی تھی “میں حاضر ، اور حسین میرا امام “۔ ہار جیت میرے لیے اب بے معنی ہے ، میں اس فیلڈ میں چلا گیا ہوں جہاں رومی ابھی بھی مجھے ملتا ہے اور میرا اپنا میاں محمد بخش بھی ۔
میں نے تو ڈیفنی کی طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلہ کرنا ہے اور انشاء اللہ آخری دم تک کرتا رہوں گا ۔ آپ سے مودبانہ درخواست ہے کہ پلیز خاموشی توڑیں وگرنہ آپ سب اس تباہی کے برابر کے شریک ہوں جس کے بادل پچھلے ستر سال سے پاکستان پر مُنڈلا رہے ہیں ۔ یہی تو زرداری ، نواز شریف اور عمران خان کہ رہے ہیں کے انہیں لوگوں نے ووٹ دیے ، نزر چوہان کو کیا تکلیف اُٹھ رہی ہے ۔ جی سنیے اب میری تکلیف ۔ نمبر ایک ، ووٹ آپ کو ملک اپنے نام کروانے کے نہیں دیے ۔ دو ، یہ ووٹ آپ کو امانت سونپنے کا دیا ہے جس میں خیانت پر ہم آپ کو گریباں دبوچنے کے حقدار ہیں ۔ نمبر تین ، اس آپ سے پُوچھ گچھ میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو جوابدہ ہیں اگر آپ اس امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ مجھے اور ۲۲ کروڑ پاکستانیوں کو ، آپ تینوں سے ان تین سوالوں کا جواب چاہیے ؟
بہت خوش رہیں ۔ آپ میرے لیے دعا کریں میں آپ سب کے لیے دعا گو ہوں ۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ۔
پاکستان پائیندہ باد
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...